ممبئی (جیوڈیسک) بھارت نے ایک ہفتہ قبل ایک سیٹلائٹ کو خلاء میں تباہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ناسا کے سربراہ نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک ’خوفناک اور ناقابل قبول‘ عمل قرار دیا ہے۔ کچرے سے آئی ایس ایس کو بھی خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
امریکی خلائی ادارے ناسا کے سربراہ جم بریڈن شٹائن نے اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کی طرف سے سیٹلائٹ کو خلاء میں تباہ کرنے سے اس کے ٹکڑے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ بھارت نے گزشتہ بدھ کو اینٹی سیٹلائٹ راکٹ کا تجربہ کرتے ہوئے اپنا ہی ایک سیٹلائٹ کو تباہ کیا تھا۔
پیر کے روز واشنگٹن میں بریڈن شٹائن کا ناسا کے اہلکاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ابتدائی اندازوں کے مطابق دس دنوں کے اندر سیٹلائٹ کے ٹکڑوں کے خلائی اسٹیشن سے ٹکرانے کے امکانات چوالیس فیصد بڑھ گئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہم نے سیٹلائٹ کے چار سو ٹکڑوں کی شناخت کر لی ہے اور ان میں سے ساٹھ کا سراغ بھی لگا لیا ہے۔ ان میں سے چوبیس ٹکڑے آئی ایس ایس کے مدار کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ خوفناک ہے اور ناقابل قبول بھی۔‘‘
دریں اثناء بدھ کے روز بھارتی وزارت دفاع نے ناسا کے سربراہ کے اس بیان کا کوئی بھی جواب دینے سے انکار کر دیا ہے۔ وزارت دفاع کے ترجمان امن انند کا کہنا تھا کہ اس کے جواب میں کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا۔
جرمن خلاء نورد متھیاس ماؤرر نے بھارت کے اس ٹیسٹ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے، ’’ایک سیٹلائٹ کو دنیا کو یہ دکھانے کے لیے تباہ کرنا کہ آپ خلائی طاقت بن گئے ہیں، اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ آپ خلائی طاقت نہیں ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’کوئی بھی ذمہ دار خلائی طاقت رضاکارانہ طور پر خلائی کچرا پیدا نہیں کرے گی۔‘‘
دوسری جانب ناسا کے سربراہ نے یہ بھی کہا ہے کہ زیادہ تر کچرا زمین کے نچلے مدار میں ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ تباہ ہو جائے گا۔ سیٹلائٹ تباہ کرنے کے بعد بھارتی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ٹیسٹ نچلی سطح پر کیا گیا ہے اور کچرا خود بخود زمین پر آ گرے گا۔
نیو دہلی ٹیلی وژن کے سائنس رائٹر پلوا باگلہ کا نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’بھارتی ٹیسٹ سے پیدا ہونے والے چند ٹکڑوں کے مقابلے میں خلاء میں خود امریکا کا پیدا کردہ کچرا بہت ہی زیادہ ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’اس وقت زمینی مدار میں دو ہزار فعال سیٹلائٹس ہیں۔ ان میں سے آٹھ سو امریکی ہیں۔ مدار میں بھارت کے تو صرف اڑتالیس فعال سیٹلائٹس ہیں۔‘‘
یہ بات اہم ہے کہ سن دو ہزار سات میں چین نے بھی اینٹی سیٹلائٹ ٹیسٹ کیا تھا اور اس کا کچرا بھی ابھی تک زمین کے ارد گرد گھوم رہا ہے۔