بھارت میں مسخ سیکولر نہاد جمہوریت کے انتخابی میلے

Indian Elections

Indian Elections

تحریر : قادر خان یوسف زئی

بھارت میں لوک سبھا کے انتخابات کا پہلا مرحلہ 11 اپریل سے شروع ہو چکا ہے۔ لوک سبھا کے انتخابات سے قبل پر تشدد واقعات نے بھی اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا ہے۔ پُر تشدد واقعات کی پہلی جھلک ریاست چھتیس گڑھ میں نظر آئی جہاں ماؤ نواز باغیوں کے حملے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمنٹ سمیت سات افراد ہلاک ہوگئے۔بی جے پی رہنما بھیما منداوی کو اُس وقت حملے کا نشانہ بنایا گیا جب وہ اپنی انتخابی مہم کے بعد واپس آرہے تھے۔ ایک دوسراواقعہ مقبوضہ کشمیر کے علاقے کشتواڑ میں پیش آیا جہاں بی جے پی سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی گروہ کے رہنما چندرا کانت شرما کو فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا۔ بھارتی کے سات مرحلوں کے انتخابات میں پُرتشدد واقعات میںمزید اضافے کا امکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق پہلے مرحلے میں ’17 فیصد مجرمانہ ریکارڈ والے’ امیدواروں کی بڑی تعداد شامل ہے ۔ ظاہر کئے گئے گوشواروں کے مطابق پہلے مرحلے میں قسمت آزمانے والے 1279 امیدواروں میں سے 17فیصد کے خلاف کوئی نہ کوئی مجرمانہ معاملہ درج ہے۔ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز(اے ڈی آر) نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پہلے مرحلے کے امیدوارں نے، جو حلف نامے دیے ہیں، ان کے مطابق 146 کے خلاف سنگین جرائم کے ریکارڈ ہیں۔ ان میں سے10 کے خلاف قتل اور 25 کے خلاف اقدام قتل میں ملوث ہونے کے مقدمات درج ہیں۔کانگریس کے 83 میں سے 35 یعنی 42 فیصد اور بی جے پی کے 83 میں سے 30 یعنی 36 فیصد امیدواروں نے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا حلفیہ بیان دیا ہے۔

کانگریس کے 22 اور بی جے پی کے 16 امیدواروں پر سنگین جرائم کے مقدمات درج ہیں۔ جبکہ جن اہم سیاسی رہنماوں کی قسمت داؤ پر ہے، ان میں وفاقی وزیر اور حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر رہنما نتن گڈکری، نائب وزیر خارجہ جنرل وی کے سنگھ، شعلہ بیان مقرر آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی اور سابق وزیر اعظم چرن سنگھ کے بیٹے راشٹریہ لوک دل کے صدر اجیت سنگھ شامل ہیں۔پہلے مرحلے میںجن ریاستوں میں ووٹنگ ہوئی ان میں آندھرا پردیش، اروناچل پردیش، آسام، بہار، چھتیس گڑھ، مقبوضہ جموں و کشمیر، مہاراشٹر، میزورم، منی پور، میگھالیہ، ناگالینڈ، اڑیسہ، سکم، تلنگانہ، تری پورا، اترپردیش، اترا کھنڈ، مغربی بنگال، جزیرہ انڈمان نکوبار اور لکش دیپ شامل ہیں۔بھارت میں عام انتخابات کے پہلے مرحلے کے تحت گیارہ اپریل کو 20 صوبوں میں 91 پارلیمانی حلقوں کے لیے ووٹ ڈالے جا رہے ہیں، جہاں تقریباً 1300 امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ہونا ہے۔ واضح رہے کہ گیارہ اپریل سے 19 مئی تک سات مرحلوں میں ہونے والے لوک سبھا کے انتخابات میںمقبوضہ کشمیر سے راجستھان کے صحراؤں اور جزیرہ انڈمان تک تقریباً 90 کروڑ ووٹرز اپنے نمائندے منتخب کریں گے۔

مودی سرکار کو لوک سبھا کے انتخابات میں کامیابی کے لئے بڑی دشواریوں کا سامنا ہے۔ خاص طور پر بتایا جارہا ہے کہ پہلے مرحلے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو کم نشستیں ملنے کا امکان ہے۔الیکشن مانیٹرنگ کرنے والے اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق 2014کے مقابلے میں لوک سبھا کے لئے انتخابات کے پہلے مرحلے میں بی جے پی کی اتحادی جماعت قومی جمہوری اتحاد کی نشستیں کم ہوسکتی ہے۔ 2014میں بی جے پی نے 32سیٹیں جیتی تھی جبکہ کانگریس صرف7نشستوں پر جیتنے میں کامیاب ہوسکی تھی ۔ انتخابات پر نظر رکھنے والے اداروں کی رائے کے مطابق بی جے پی کی مقبولیت میں کافی کمی ہوئی ہے اور اس کی کئی وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔”سی ووٹر ”کے ایک ملک گیر سروے کے مطابق پلوامہ واقعے اور آپریشن بالاکوٹ کے بعد حکمران جماعت بی جے پی نے قوم پرستی کا جو ماحول بنایا تھا اس سے عام انتخابات میں اس کو ملنے والے سیاسی فائدے کے امکانات کم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی کی گرتی مقبولیت کو جو سہارا ملا تھا وہ بھی کمزور پڑ گیا”۔ نریندر مودی نے بھارت میں الیکشن میں کامیابی کے لئے جنگی جنون کا راستہ اختیار کیا تھا اور بھارت کے لئے مودی ضروری کا انتخابی نعرے کو مقبول بنانے کی کوشش کی تھی ۔ لیکن نریندر مودی کو انتخابات سے قبل اپوزیشن جماعتوں سمیت کئی ایسے واقعات میں دھچکے کا سامنا ہوا جس سے نریندر مودی کو اپنی انتخابی مہم کو چلانے کے لئے ہندو انتہا پسندی اور پر تشدد واقعات کا سہارا لینے کی ضرورت بڑھ جائے گی۔

بہوجن سماج پارٹی(بی ایس پی) سربراہ مایاوتی کہنا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کو نیا انتخابی منشور جاری کرنے کے بجائے سابقہ انتخابی وعدوں کے ضمن میں”کاروائی رپورٹ” ملک کی عوام کے سامنے پیش کرنا چاہئے۔ محترمہ مایاوتی نے مزید کہاکہ گذشتہ انتخابات میں بی جے پی نے لبھاونے وعدوں کا سبز باغ دکھا کر اپنی جال میں پھنسا لیا تھا۔ اس بار بھی بی جے پی نے انتخابی منشور کے ذریعہ عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ انتخابی وعد ہ خلافی کرنیوالے نریندر مودی حکومت کو عوام سے معافی مانگنی چاہئے۔ انہوں نے پانچ سال میں صرف مالداروں کے لئے ہی کام کیا ہے۔ انتخابی منشور کے بجائے انہیں گذشتہ انتخابات میں کئے گئے وعدوں پر”کاروائی رپورٹ” جاری کرنا چاہئے لیکن ایسا کرنے کی ہمت نہیں ہے کیونکہ بی جے پی اور نریندر مودی حکومت وعدہ خلافی کرنے والی حکومتوں کی سرتاج ثابت ہوئی ہے۔”

بریندر مودی کو ووٹنگ سے قبل تین بڑے جھٹکے لگے ہیں جس میں سب سے بڑا رافیل کرپٹ کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں دوبارہ سنوائی کی منظوری نے مودی کے اس بیانیہ کو متاثر کیا ہے کہ کیا اپوزیشن جماعتیں اور میڈیا، عدلیہ اور بھارتی فوج پر اعتبار نہیں کرتی ، مودی کودسمبر 2018میں سپریم کورٹ نے رافیل کرپشن کیس پر متنازع فیصلے دیئے تھے جس پر مودی کو حوصلہ ملا تھا کہ رافیل طیارہ کرپشن کیس سے بھارت کا انتخابی ماحول متاثر نہیں ہوگا ۔ لیکن مودی سرکار کا ایک اور کارنامہ سامنے آیا جس میں بھارتی اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں رافیل ڈیل کی حساس دستاویزات چوری ہونے کا انکشاف کیا۔واضح رہے کہ مودی سرکار نے 2016 میں فرانس سے 36 رافیل جیٹ طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا تھا جس میں مودی حکومت پر کریشن کے الزامات لگائے گئے تھے۔جس پر سپریم کورٹ نے جنگی طیارے رافیل کی خریداری میں مبینہ بدعنوانی کے کیس کی دوبارہ سماعت کرنے سے اتفاق کر لیا۔جس سے نریندر مودی کی ساکھ متاثر ہونے اور کانگریس کی جانب سے مودی سرکار کے خلاف مضبوط بیانیہ کو تقویت مل گئی ۔نریندر مودی نے بالا کوٹ میں پاکستانی حدود کی خلاف ورزی اور مبینہ مدرسے کو نشانہ بنانے سمیت ایف 16طیارہ مار گرائے جانے کے جھوٹے دعوے کئے تھے لیکن بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے مودی سرکارکے تمام دعوئوں کو غلط ثابت کردیا ۔ خاص طور پر پاکستان پر حملے کے لئے بھارت نے جو میزائل گرانے کی سازشی منصوبہ بندی کی تھی اُس کو بھی پاکستان نے بر وقت دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ۔ بری ، فضائی اور بحری محاذ پر بھارت کو شرمناک شکست کا سامنا ہوا جس سے مودی سرکار کی مقبولیت میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ۔ اسی طرح مذہبی اقلیتں بھارتی جنتا پارٹی سے بُری طرح بد ظن ہوچکی ہیں اور مودی سرکار سے اُن کے وعدوں کا حساب مانگ رہی ہے۔

انتخابات میں تشہیر کے ذریعے ووٹر کو اپنی جانب راغب کرنے کا رجحان ایک جدید سائنس کی شکل اختیار کرچکا ہے ۔ نریندر مودی کو ایک اور بڑا جھٹکااس وقت لگا جب الیکشن کمیشن نے چینل نمو ٹی وی پر حکومتی کارناموں کو چلانے پر پابندی عائد کرتے ہوئے کسی بھی قسم کے اشتہارات چلانے کے لئے اجازت لینے کی شرط عائد کردی ہے۔ واضح رہے کہ نریندر مودی کو اُس وقت بڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا جب پلوامہ واقعہ ہونے کے بعد بھی نریندر مودی فلموں میں عکس بندی کرا رہے تھے ۔ اس عمل کو بھارتی عوام نے بے حسی سے تعبیر کیا تھا ۔ واضح رہے کہ اپوزیشن جماعتیں اور سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ پلوامہ واقعے میں مودی سرکار کے ملوث ہونے کے شبہات کا اظہار کرچکی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کو پلوامہ واقعے سے متعلق نامکمل و ناقص شواہد دینے پر بھی مودی سرکار کے لئے مشکلات پیدا کردی ہیں۔ پلوامہ واقعے کو نریندر مودی نے اپنے انتخابی مقاصد کے استعمال کرنے کی ناکام کوشش کی ۔

کانگریس سمیت اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے دائر درخواست الیکشن کمیشن نے نوٹس لیا ہے کہ جب نریندر مودی نے’ لاتور’ کی انتخابی ریلی میں بالا کوٹ کوٹ فضائی حملے اور پلوامہ واقعہ پر نریندر مودی نے عوام سے ووٹ مانگا ۔ مہاراشٹر کے چیف الیکشن کمیشن کے’ اوسا’ میں ہونے والی انتخابی ریلی میں نریندر مودی کی انتخابی ریلی میں کی جانے والی تقریر کی کاپی الیکشن کمیشن آف انڈیا بھیجنے کی تصدیق کی ہے۔ اس کاروائی سے ثابت ہوتا ہے کہ نریندر مودی نے اقتدار کے لئے جوسازشی جنگی حصار بنایا تھا وہ ٹوٹنا شروع ہوگیا ہے۔ نریندی مودی کو اپنی انتخابی ریلیوں میں کی جانے والی تقاریر پر اپوزیشن کی تنقید کا سامنا کرنے میں دشواری کا سامنا ہے ۔ خاص کر جب وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ بیان نے بھارتی سیاست میں ہل چل مچا دی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے غیرملکی صحافیوں کو انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ ”اگر بھارت کے انتخابات میں کانگریس کے مقابلے میں نریندر مودی کی جماعت کامیاب ہوئی تو کشمیر کے مسئلے پر امن مذاکرات میں پیش رفت کا امکان ہے”۔وزیراعظم پاکستان کے اس بیان کو بھارتی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بی جے پی کے خلاف استعمال کرتے ہوئے نریندر مودی اور ان کی جماعت پرپاکستان کی زبان بولنے کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔ عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ، ”انہیں ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی بی جے پی لوک سبھا انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی ہے تو بھارت کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے بہتر ماحول بن سکتا ہے۔” اس بیان کے بعد بھارتی اپوزیشن جماعتوں نے بے جے پی کو آڑے ہاتھوں لے لیا ہے ۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق اپوزیشن جماعتوں نے” نریندر مودی اور عمران خان کے درمیان گٹھ جوڑاور اتحاد ہوچکا ہے۔

کانگریس کے اعلی ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے کہا، ”پاکستان نے مودی کے ساتھ آفیشل اتحاد کیا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے’مودی کو ووٹ دینے کا مطلب ہے پاکستان کو ووٹ دینا’۔ مودی جی، پہلے نواز شریف سے پیار اور اب عمران خان آپ کا چہتا یار! ڈھول کی پول کھل گئی۔”دہلی کے وزیر اعلی اور عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال نے ٹویٹ کیا،”پاکستان مودی جی کو کیوں کامیاب بنانا چاہتا ہے؟ مودی جی ملک کو بتائیں کہ پاکستان سے ان کے کتنے گہرے رشتے ہیں؟ تمام بھارتی شہری یہ جان لیں کہ اگر مودی جی کامیاب ہوئے تو پاکستان میں پٹاخیں پھوٹیں گے۔”

وزیر اعظم پاکستان نے نریندر مودی کو کشمیر کے حل میں معاونت کے لئے پیش رفت کے امکان کا جو بیانیہ دیا ہے اس کی وضاحت ابھی باقی اور پاکستانی عوام کے لئے بھی حیران کن ثابت ہو رہی ہے کہ نریندر مودی جیسا انتہا پسند انہ سوچ رکھنے والا ، جس کا موقف ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں صرف سری نگر انت ناگ کے اڑھائی علاقوں میں بے امنی ہے اور پورا مقبوضہ کشمیر پُر امن اور بھارت کے ساتھ ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان کے مکمل بیان پر پالیسی بیان ریاست کے ادارے ہی دے سکتے ہیں ۔ تاہم عام عوام کے نزدیک بھارت میں پاکستان مخالفت میں نریندر مودی جیسا انتہا پسند و مسلم دشمن حکمران آج تک نہیں گزرا۔ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے تو بی جے پی کے علاوہ کانگریس سمیت کسی بھی بھارتی سیاسی جماعت سے حل کی توقع رکھنا فضول ہے ۔ جب تک اقوام متحدہ کی قرارداد و نگرانی میں کشمیریوں کی منشا و رضا کے مطابق ریفرنڈم نہیں ہوتا ۔ مقبوضہ کشمیر کا پُر امن حل ممکن نظر نہیں آتا ۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہء بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکڑ طلعت اے وزارت کے خیال میں عمران خان کا بیان حقیقت پسندانہ نہیں ہے، ”مودی اور بی جے پی کو کوئی ایک مرتبہ انتخابات تو نہیں لڑنے ہیں۔ وہ تو بار بار انتخابات میں جائیں گے اور ان کے پاس فرقہ وارانہ نعروں اور پاکستان دشمنی کے علاوہ کیا ہے۔ کرتار پور کے مسئلے پر بھی انہوں نے بے جا مطالبات کیے، کیونکہ وہ یہ راستہ کھولنا نہیں چاہتے، لیکن انہیں ایسا سکھ کمیونٹی کی وجہ سے کرنا پڑا۔ تو میرا نہیں خیال کہ مودی انتخابات جیت کر پاکستان سے بات چیت کرے گا۔”

بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق بھارتی انتخابات میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو مذہبی تشدد کے خوف کا سامنا ہے۔کرسچئین نیوز ایجنسی (کے این اے) کے مطابق مسیحیوں سے بھی زیادہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک نریندر مودی اور ان کی جماعت بی جے پی کی پہچان بن چکا ہے۔اے ڈی ایف انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر پاؤل کولمن کا کہنا تھا، ”مسیحی شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ان کے بنیادی حقوق فراہم کرنے سے بھی انکار کیا جاتا ہے۔”چھتیس گڑھ میں اقلیتی مسیحیوں کو مارپیٹ کا نشانہ بنایا گیا اور ان کی مقدس کتاب بائبل کو پھاڑ دیا گیا، تامل ناڈو میں انہیں ایک مندر میں لے جا کر بھگوان کی پرستش پر مجبور کیا گیا اور راجھستان میں ہندو انتہاپسندوں کی طرف سے عبادت کرتے ہوئے مسیحیوں پر پتھر پھینکے گئے۔ یونائیٹڈ کرسچئین فورم اور آزادی مذہب کی بین الاقوامی نتظیم ‘الائنس ڈیفینڈنگ فریڈم’ (اے ڈی ایف) کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی مسیحیوں کے خلاف رواں برس جنوری میں پیش آنے والے 29 واقعات میں سے یہ صرف تین واقعات ہیں، جو صورت حال کی سنگینی کو عیاں کرتے ہیں۔

دوسری جانب گھائو رکھشا کے نام پر مسلمانوں پر مظالم کی ایک الگ المناک داستان ہے ۔ گزشتہ ایک مسلم قصاب پر گائے ذبیح کا الزام لگا کر حرام گوشت کھلانے کی وائرل ہونے والی ویڈیو نے بھارت کا سیکولر چہرہ بے نقاب کرکے انتہا پسند رجحانات اور شدت پسند اقدامات کو دنیا کے سامنے آشکار کیا ہے۔خاص طور پر راہل گاندھی کے دو حلقوں سے انتخابات لڑنے پر کانگریس کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے خاص کر راہل گاندھی کا ایک ایسے حلقے سے انتخابات لڑنے پر شدید تنقید کی جا رہی ہے جہاں مسلمانوں کی 50فیصد سے آبادی ہے۔بھارتی انتخابات میں فرقہ واریت کا رنگ بہت نمایاں ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگیا جاسکتا ہے کہ گذشتہ30برسوں سے گجرات سے ایک بھی مسلم امیدوار کامیاب نہیں ہوسکا ہے ۔گوکہ کانگریس نے ایک مسلم امیدوار کو ٹکٹ دیئے لیکن گجرات میں انہیں کامیابی نہیں مل سکی جبکہ2014میں بھارتی جنتا پارٹی نے کسی مسلمان کو گجرات سے ٹکٹ ہی جاری نہیں کیا تھا ۔واضح ر ہے کہ سال 1960 میں گجرات کا قیام ہوا تھا۔ اس کے بعد ہونے والے عام انتخابات میں بناسکانٹھا سیٹ سے مسلم امیدوار ظہرہ چاوڑا منتخب ہوئیں۔ اس کے بعد 1977 کے انتخابات میں احمد پٹیل بھروچ اور احسان جعفری احمد آباد سے منتخب ہوئے۔ سال 1977 کے انتخابات میں پہلی اور آخری مرتبہ سب سے زیادہ 2 ارکان لوک سبھا میں پہنچے۔سال 2014 میں کانگریس نے 15 مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا تھا، ان میں گجرات کا ایک مسلم امیدوار بھی شامل ہے، جبکہ بی جے پی نے کسی بھی امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا تھا۔ کانگریس نے اس مرتبہ بھی ایک مسلم امیدوار کو بھروچ سیٹ سے ٹکٹ دیا ہے۔

بھارتی انتخابی دنگل جیسے جیسے آگے بڑھتا جائے گا ۔ اقلیتوں پر ویسا ہی دبائو بھی بڑھتا جائے گا ۔ مودی کے نئے بھارت کا چہرہ مزید نمایاں ہوتا چلے جائے گا ۔ ان حالات میں کہ پاکستان اس خطرے کا اظہار کرچکا ہے کہ 16تا 20اپریل کے درمیان مودی سرکار کی جانب سے پھر نئی مہم جوئی کرنے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں تاہم بھارتی جارحیت کا جواب دینے کے لئے پاکستان کی مسلح افواج ہمہ وقت و پوری طرح تیار ہیں۔ پاکستان نے بھارتی جھوٹے پروپیگنڈے کو مزید نمایاں کرنے کے لئے بھارت میں موجود غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندے ، سفیروں اوراتاشیوں کے ہمراہ جبہ کے مقام اور مبینہ مدرسے کا سروے بھی کرا ودیا ۔ پاکستان کا ایف16طیاروں کی مکمل تعداد محفوظ ہونے کی رپورٹ بھی بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں جاری ہوچکی ہے کہ پاکستان کے کسی طیارے اورایف16 کی تعداد پوری ہے ۔ اب پاکستان بھارت سے مطالبہ کررہا ہے پاکستان نے لائن آف کنڑول کی خلاف ورزی پر دوسرے طیارے کو مار گرایا تھا اس کی تفصیلات سمیت اپنے جنگی طیاروں مگ 21کی تعداد کی تفصیلات عالمی میڈیا کے سامنے لائے۔ ہندو انتہا پسندی کی جنونیت کے خلاف پاکستان نے اخلاقی برتری حاصل کرلی ہے ۔ اب جس جنونی ماحول میں مودی سرکار نے بھارتی عوام کو گمراہ کیا ہے ہر آنے والے دنوں میں جھوٹ کے پردے چاک ہونے سے مودی سرکار کے تمام منصوبوں پر پانی پھرتا نظر آرہا ہے۔ بھارتی عوام مذہبی جنونیت پر غور و فکر کرے۔پاکستان ہمیشہ امن کی خواہش کو مقدم رکھتا ہے ۔ بھارت میں کسی بھی سیاسی جماعت کا اقتدار ہو ، بھارت کا داخلی معاملہ ہے لیکن پاکستان چاہتا ہے کہ خطے میں امن کے لئے سیاسی بُردبار اورانتہا پسند سوچ مخالف کی کامیابی جنوبی ایشیائی ممالک سمیت دنیا کے لئے بہتر ہو گا۔

Qadir Khan Yousafzai

Qadir Khan Yousafzai

تحریر : قادر خان یوسف زئی