لاہور (جیوڈیسک) بھارت سے سیریز کے معاملے میں توقیر ضیا نے پی سی بی کو کشکول توڑنے کا مشورہ دیدیا، سابق چیئرمین کا کہنا ہے کہ بی سی سی آئی کے تاخیری حربوں کو ہی امید کی کرن سمجھا جاتا رہا، منت سماجت اور طویل انتظار کی ضرورت نہیں تھی،ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں پاکستانی ٹیم کیلیے سیکیورٹی خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
تفصیلات کے مطابق انٹرویو میں سابق چیئرمین پی سی بی توقیر ضیا نے کہاکہ بھارت کی جانب سے ایم او یو کی خلاف ورزی پر پاکستان کو بھی ٹھوس موقف اپنانا چاہیے، بی سی سی آئی کی ٹال مٹول کی پالیسی سے اندازہ ہورہا تھا کہ سیریز نہیں ہوگی، جان بوجھ کے عوام میں مقبول ترین کھیل کے باہمی مقابلوںکو ’’مشن امپاسبل‘‘ بنادیا گیا۔
دونوں ملکوں میں دیگر تمام کھیل ہورہے ہیں تو کرکٹ کیوں نہیں ہوسکتی؟ پی سی بی بھارت کے تاخیری حربوں کو ہی امید کی کرن سمجھتا رہا، جب وہ جواب ہی نہیں دے رہے تھے تو منت سماجت اور طویل انتظار کرنے کی ضرورت نہیں تھی، شائد کام کے ذہن میں تھا کہ سیریز ہوئی تو مالی استحکام حاصل ہوجائیگا لیکن میرا خیال ہے کہ اسکے پیچھے بھاگنے کی ضرورت نہیں تھی،اب دباؤ بڑھانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں شرکت پر سوالیہ نشان لگا دیا جائے۔
بھارتی سیکیورٹی حالات میں پاکستانی ٹیم کیلیے مسائل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، انہوں نے کہا کہ دونوں ٹیموں کی مصروفیات کو دیکھتے ہوئے آئندہ سال میں بھی باہمی مقابلوں کا زیادہ امکان نظر نہیں آتا، اگر کسی طور سیریز ری شیڈول کی جاتی ہے تو پاکستان کو مختلف امور پر غور کرنا ہوگا۔
انگلینڈ میں باہمی مقابلوں کا امکان ہونے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ وہاں ٹیموں کے قیام و طعام اور دیگر انتظامات پر بھاری اخراجات کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھنا ہوگا کہ پی سی بی کو کیا فائدہ ہوگا، بورڈ کا بی سی سی آئی سے مطالبہ ہونا چاہیے کہ یہ ایک فل سیریز ہوگی جس کے ریونیو پر صرف میزبان پاکستان کا حق ہوگا، جب تک یہ بات تسلیم نہ کی جائے بی سی سی آئی کے ساتھ باہمی کرکٹ پر کوئی بات کرنے کی ضرورت نہیں، کشکول لے کر بھاگنے کا پہلے فائدہ ہوا نہ اب ہوگا۔