نئی دہلی (جیوڈیسک) بھارت کی پانچ ریاستوں میں آئندہ ماہ ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہونگے جو مودی کیلئے ایک بڑا چیلنج قراردیا جارہا ہے۔غیر ملکی میڈیارپورٹس کے مطابق بھارت کی پانچ ریاستوں میں آئندہ ماہ ریاستی اسمبلی کے انتخابات حکمراں بی جے پی کے لیے 2 وجوہ سے بہت اہم ہیں۔ ایک تووہ ان میں سے ایک بھی ریاست میں بھی برسراقتدارنہیں ہے اور دوسرے یہ کہ بی جے پی ایک طویل عرصے سے ان ریاستوں میں اپنا سیاسی قدم جمانے کی کوشش کررہی ہے۔ان انتخابات میں یہ اندازہ ہو سکے گا کہ مرکز میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت قائم ہونے سے بی جے پی کوریاستوں میں سیاسی طور پر کوئی فائدہ پہنچ رہا ہے یا نہیں۔ ان ریاستوں میں مغربی بنگال، آسام، کیرالہ، تامل ناڈو اور پانڈیجری شامل ہیں۔
بی جے پی کے لیے سب بڑا انتخابی چیلنج آئندہ برس در پیش ہو گا جب ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش اورپنجاب میں اننتحابات ہوں گے۔ بی جے پی اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے ابھی سے ہی ساری تیاریاں شروع کردی ہیں۔ پنجاب میں دلی کی طرح اروند کیجریوال کی جماعت عام آدمی پارٹی رفتہ رفتہ ایک بڑی سیاسی طاقت بن کر ابھر رہی ہے۔ بی جے پی اور کانگریس دونوں کیلیے یہ جماعت ایک بڑا سیاسی چیلنج بن سکتی ہے۔مغربی بنگال میںکانگریس اورکمیونسٹ ایک غیررسمی مفاہمت کیساتھ الیکشن لڑ رہے ہیں۔
ریاست میں بی جے پی کی ساری جد وجہد اپنا پیرجمانے تک محدود ہوسکتی ہے۔بی جے پی نے اپنی ساری طاقت آسام پر مرکوز رکھی ہے اورامید کر رہی ہے کہ تبدیلی کی خواہش اسے اقتدار میں لا سکتی ہے۔ صورتحال واضح نہیں کہ ہوا کس کے حق میں ہے۔کیرالہ میں مسلمانوں اور عیسائیوں کی تعداد 50 فی صد سے زیادہ ہے۔ لوگوں میں تبدیلی کی زبردست خواہش ہے۔تامل ناڈو میں بی جے پی کا وزیراعلیٰ جیہ للتا سے اتحاد نہ ہوسکا۔ اب تنہا الیکشن لڑ رہی ہے۔ پانڈیجری میں کانگریس اوراے آئی ڈی ایم کی حکوتیں بنتی رہی ہیں۔دوسری جماعتوں کی جیت سے اپوزیشن کو حوصلہ ملے گا اورمودی حکومت نفسیاتی طور پر کمزور ہوگی۔