تحقیق و تحریر : احمد نثار گْرَّم کْنڈَہ : بھارت کی ریاست آندھرا پردیش، ضلع چتور کا ایک منڈل (علاقائی تحصیل) ہے۔ یہ گائوں ضلع چتور میں، شہر مدنپلی اور رائے چوٹی کے درمیان، بنگلور اور کڈپہ شاہراہ پر واقع ہے۔ ٹیپو سلطان کے دور میں، کڈپہ ضلع میں رہا یہ گائوں،آج ترقی کرکے ایک ٹائون بن گیا ہے۔ اس کا قدیم نام ظفر آباد تھا۔ لیکن آج کل اسے گرم کنڈہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ علاقائی عوام سے اس شہر کی تاریخ دریافت کریں تو فوراً ٹیپو سلطان اور ان کے ماموں میر رضا علی خاں کا نام لیا جاتا ہے ، جب کہ تاریخ اِس سے بھی قدیم ہے۔ اس گائوں کی شہرت اس کے پہاڑی قلعے اور میر رضا علی کے مقبرے سے ہے۔ اس کی تاریخ اور مختلف پہلئو ں پر روشنی ڈالیں۔ تاریخ:
اس علاقہ پر 12 ھویں صدی کے صوفی برگ حضرت بابا فخرالدین پنگنڈہ ضلع اننتپور، حضرت دادا حیات قلند ر بڑن گری کرناٹک، حضرت شاہ الحمید ناگور تمل ناڈو کے دینی اشاعات اور تبلیغی خدمات کا اثر درخشاں ہے۔ ساتھ ساتھ کئی صوفی و سادات بزرگ جید ہستیاں اس علاقے کے عوام کو دین سے سرفراز فرمایا جس کی آج بھی یہاں کی مسلم آبادی مرحونِ منت ہے۔ اس علاقے کو دین سے آراستہ کرنے کا سہرہ انہیں صوفیائے کرام کے سر جاتا ہے۔ جیسے تاریخ آگے بڑھتی گئی، مسلمانوں کی آبادیاں مقیم ہوتی گئیں، بستیاں بستی گئیں۔ انہیں بستیوں میں ایک بستی ظفر آباد تھی۔ اس بستی کو صوفی بزرگوں اور علم و فراست کی بستی کے نام کا شرف بھی حاصل ہوا۔ رفتہ رفتہ یہ بستی علم و فراست کا مرکز بھی بن گئی۔ اسلامی طرز و تعمیرکے مکانات، مساجد، آستانے، میلاد گھر، و دیگر تعمیرات کے کھنڈر اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ یہاں ایک دور میں اسلامی تہذیب و تمدن اپنے بامِ عروج پر رہے۔ یہاں پر فارسی اور اردو زبان بولنے والوں کی تعداد کافی تھی، مگر موجودہ دور میں صرف اردو بولنے والے رہ گئے ہیں ۔ یہاں کی تاریخ کا سرسری جائزہ لیں تو کئی ایسے سلاطین ہیں جن کے ادوار میں یہ گائوں حکام اور نوابوں کا سر چشم بھی رہا اور باعثِ فخر بھی۔
سلطنت بیجاپور کے دور میں: سلطنت بیجاپور یا عادل شاہی دور میں اس علاقے میں مسلمان آباد ہونے کی رفتار تیز ہوئی۔ خاص طور پر سادات ، صوفیائے کرام، مشائخین اور تاجر حضرات زیادہ تر آکر مقیم ہونے لگے۔ویسے اس گائوں میں ان کی آمد سے قبل ہی مسلمان آباد تھے۔ ان صوفی بزرگوں کی آمد سے ایک بڑی مسلم آبادی تشکیل پائی۔ رفتہ رفتہ یہاں پر مسلم آبادی منظم ہونے لگی۔ اس کے ساتھ ساتھ عادل شاہی گورنر وں کے تعین سے بھی یہاں مسلمانوں کا بول بالا بڑھنے لگا۔ عادل شاہی دور کے گورنروں میں مشہور کڈپہ اور سدہوٹ کے نوابی خاندان تھے، جن میں ایک اہم نام نواب عبدالنبی خان ہے۔
Gurramkonda-Maqbara Tomb
جہاں بستیاں بستی ہیں اس کی تاریخی پس منظر میں یاتو سلاطین کی حکمرانی یا حکمرانوں کی حکمت عملی بھی نظر آتی ہے۔ یہ بستی ظفر آباد سلطنتِ بیجاپور کے ماتحت رہی اور پروان چڑھی۔ بیجاپور سلطنت کا صوبہ کڈپہ بھی اپنی ثقافتی و اسلامی رنگ و مزاج میں بامِ عروج پر تھا۔ سلطنت بیجاپور کے ماتحت کڈپہ کے گورنر نواب عبدالنبی خان رہے، جنہیں بہادر، دور اندیش اور وسیع النظر تسلیم کیا جاتا تھا۔
نواب عبدالنبی خان نے 1714 میں ظفر آباد کے دامن میں وقوع پہاڑ پر ایک مضبوط قلع کی تعمیر کروائی، جو کہ ان کی سلطنت کو مستحکم اور مضبوط کرنے میں کار آمد رہا۔ ظفرآباد نواب کا مرکزی شہررہا۔ 1714 ء کے اثنا ء میں گرمکنڈہ کے قلعہ کی تعمیر کے ساتھ ساتھ پہاڑ کے دامن میں اپنے دفتر کی بھی تعمیرکروائی، جس کو رنگین محل کہا جاتا ہے۔ اس محل کی خصوصیت یہ ہے کہ آگے سے تین منزلہ نظر آتا ہے تو پیچھے کی جانب سے دو منزلہ۔ اس علاقے کے قرب و جوار میں نواب نے کئی مساجد کی بھی تعمیر کروائی اور ساتھ ساتھ کئی منادر کی بھی۔ آج سے تقریباً تین سوسال قبل کی تعمیرات اپنی شان و شوکت تہذیب و تمدن کا مظاہرہ کرتی ہوئی اندرون و بیروں ملک کے سیاحوں کو اپنی طرف راغب کرتی آرہی ہیں۔ نواب نیک نام نے بھی اس علاقے کی ترقی میں اپنا نمایاں کردار ادا کیا۔
آرکاٹ نواب ( 1690 سے 1855 ء) ان کا دور سنہ 1690ء سے 1855 تک رہا۔ گرکنڈہ اور اس کے اطراف و اکناف کے علاقہ جات سے کرناٹک یا آرکاڑ نوابوں کا راست اور بی الواسطہ طور پر اثر رہا۔ نواب والاجاہی کی خاص توجہ کی وجہ سے اس علاقے میں علم و فراست کا بول بالا ہوا۔ سلطنت خدا داد میسور کے دور میں :
یہ علاقہ جن مسلمان سلاطین کے زیر تحت آیا، ان میں سے دوسری بڑی سلطنت ، سلطنت میسور ہے، جس کو سلطنت خداداد بھی کہتے ہیں۔اس سلطنت کے بانی سلطان حیدر علی تھے۔ ان کی پیدائش ضلع کولار میں ہوئی، میسور کیراجا وڈیار کے ہاں ملازم رہے۔ پھر سپہ سالاری کے عہدے پر فائز ہوئے۔ حیدر علی نے خود اپنی ایک وسیع سلطنت قائم کی۔ اس دور میں ضلع چتور بھی انہیں کا مقبوضہ تھا۔ اس علاقہ کے نواب مختلف ادوار میں بیجاپور سلطنت، آرکاڑ نواب، سلطنت خداداد اور نظام سلطنت کے ماتحت رہے۔ شہر کڈپہ اور گرمکنڈہ ان ادوار میں نوابوں کے مرکزی شہر رہے۔جب سلطان حیدر علی کا دور آیا تو یہ علاقہ 1768 ء میں ان کا مقبوضہ ہوگیا۔ حیدر علی نے اس علاقے کی حکمرانی اپنے رشتدار میر رضا علی خان کو سونپی۔ گرمکنڈہ میں موجودہ مقبرہ ٹیپو سلطان کے ماموں میر رضا علی خان کا ہے۔ سلطان حیدر علی کے بعد سلطان ٹیپو نے حکمرانی کی۔ ان کے دور میں کئی زمینیں مساجد اور مذہبی اداروں کو وقف کی گئیں۔
Rangin Mahal
سلطنت حیدرآباد دکن (نظام سلطنت ) ٹیپو سلطان کے دور کے بعد یہ علاقہ آصف جاہی اور نظام سلطنت کے ماتحت رہا، لیکن حکمرانی اتنی مضبوط نہیں پائی گئی۔ ان کے دور میںرائل سیما کے کرنول، کڈپہ اور گرمکنڈہ زیرِ ماتحت رہے مگر، اتنا استحکاام نہیں رہا جتنا کہ انہوں نے حیدرآباد میں منظم طریقے سے کیا تھا۔ بعد ازیںبرطانوی سلطنت کے ماتحت آگیا۔ آزادی کے بعد اب اس کی اہم قدیم تعمیرات شعبہ آثارِ قدیمہ بھارت سرکار کی نگرانی میں ہیں۔
گرمکنڈہ اور تعمیرات: اس قدیم ثقافتی شہر کی تعمیرات میں قلعے ، مقبرہ مساجد اور آستانے اہم ہیں۔ قلعہ گرمکنڈہ ضلع چتور کے اہم قلعوں میںسے ایک مانا جاتا ہے۔ اس قلعہ کی تعمیر کڈپہ کے نواب عبدالنبی خان نے کروائی تھی۔ یہ قلعہ پہاڑکی کافی بلندی پر واقع ہے اور کافی مضبوط بھی۔عوام آج بھی محو حیرت ہے کہ اتنی بلندی پر قلعے کی تعمیری کیسے ممکن ہوپائی۔ دوسری اہم تعمیر سلطنت خداداد میسور ٹیپو سلطان کے ماموں میر رضاعلی کا مقبرہ ہے جو مقبرہ کے نام سے ہی جانا پہچانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی مساجد چھوٹے چھوٹے مقبرے، مساجد و مقبروں کے کھنڈرات بھی پائے جاتے ہیں۔ گرمکنڈہ اور سادات و اولیائِ کرام:
حضرت شاہ کمال بخاری اول ، گرمکنڈہ (16 اور 17 ویں صدی عیسوی) حضرت سید کمال الدین بادشاہ بخاری اول، حضرت سید جمال الدین بخاری ملتانی کے فرزند ہیں۔ حضرت جمال الدین بخاری ملتان سے تشریف لائے اور گلبرگہ میں مقیم ہوئے، اس کے بعد آپ نے بیجاپور میں سکونت اختیار کرلی۔ حضرت شاہ کمال بھی وہیں مقیم تھے، پھر اس کے بعد اہل و عیال کے ساتھ شہ نور میں عرصہ گذارے، پھر کرنول ،بدویل ،کڈپہ، رائچوٹی سے ہوتے ہوئے گرمکنڈہ تشریف لائے اور یہیں پر سکونت اختیار کرلی۔ آپ کی وفات 1125 ھ میں ہوئی اور ان کا مزار گرمکنڈہ کے آثار تالاب کے پاس واقع ہے۔
حضرت شاہ کمال بخاری ثانی (دوم) حضرت شاہ کمال بخاری اول کے پوتے ہیں، جنہیں شاہ کمال ثانی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آپ بھی اس دور کیفاضل اور کامل شخصیت مانے جاتے ہیں۔مخزن العرفان آپ کی مشہور تصنیف ہے۔ آپ کا مسکن شہر گرمکنڈہ تھا، اور آپ کا مزار گرمکنڈہ ہی میں واقع ہے۔ ان کے علاوہ اس شہر میں کئی صوفیائے کرام آرام فرما ہیں، جن میں اہم حضرت شاہ کمال بخاری اول،حضرت سید شاہ کرمانی، حضرت سید شاہ صاحب بوشہری (مریپاڑ میں مقیم) حضرت کنچی بیابانی و دیگر۔