تحریر : طارق حسین بٹ شان کیا کشمیر یونہی خاک و خون میں لتھڑا رہے گا یا کبھی اس کے زخم بھی مندمل ہو پائیں گئے اور وہ آزادی کی اس نعمت سے سرفراز ہو سکے گا جو زندہ قوموں کا شیوہ ہوتا ہے؟ بھارت سائوتھ ایشیا کا بڑا ملک ہونے کے ناطے طاقت کے زور پر معاملات کو حل کرنے کا عزم ظاہر کر رہا ہے۔ اس کی اس کوشش کو بے اثر کرنے کیلئے ہمارے ہاں ان لکھاریوں کی کمی ہے جو بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کو دکھا سکیں۔اگر کوئی مذہب پسند ادیب بھارتی توسیع پسندی اور ظلم و جبر کا پردہ چاک کرتا ہے تو اسے شدت پسندی کا لیبل لگا کر بدنام کیا جاتا ہے۔اسے منافرت اور انتشار پھیلانے کا نام دے کر بے اثر کر دیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں اس وقت دھشت گردی کا راج ہے اور ہر دھشت گرد کا تعلق اسلام سے جوڑ دیا جاتا ہے جوکہ درست نہیں ہے کیونکہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی دھشت گردی میں ملوث ہیں لیکن انھیں استثنی دے دیا جا تا ہے۔
اب مسلمان جہاں کہیں بھی ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں انھیں دھشت گردی کے تناظر میں دکھا کر عالمی سطح پر انھیں تنہا کر دیا جاتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ وہ تمام ترقی پسند حلقے جو دنیا میں عدل و انصاف کے داعی تھے اور انسانی حقوق کی بازیابی جن کا ایجنڈہ تھی سویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد بے اثر ہو چکے ہیں۔سوشلزم کے زوال کے بعد ان کی ساری فکر تاریخ کے کوڑے دان میں چلی گئی ہے لہذا ان تمام ترقی پسند حلقوں نے امریکہ کی گود میں پناہ لینے میں ہی اپنی عافیت سمجھ لی ہے ۔ایک وقت تھا کہ یہ سارے خود کو ترقی پسند کہتے تھے اور امریکہ کو استعمار کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے اور اس کے خوب لتے لیا کرتے تھے لیکن اب حالت یہ ہے کہ وہ سارے امریکی کیمپ میں جا بیٹھے ہیںاور امریکہ زندہ باد کے فلک شگاف نعرے بلند کر رہے ہیں۔
اب ان کی عدم موجودگی میں کوئی ایسی پر اثر آواز نہیں رہی جو کشمیر پر ظلم و ستم کی داستان کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحریک بنا کر پیش کر سکے۔روس کا نظام ِ حکومت زمین بوس ہوجانے کے بعد دنیا سرمایہ داری کے خو نین پنجوں میں جکڑی جا چکی ہے اور ہمارے ترقی پسند حلقوں نے بھی اسی چمکتی دنیا کی محبت میں اپنے نظریات کو تبدیل کر کے امریکی دہلیز پر خود کو سر نگوں کر دیا ہے۔اب امریکہ بھارت کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑا ہو کر اسے ہلا شیری دے رہا ہے کہ وہ ایسی ہر تحریک کو جس سے اسلام کے احیاء کی بو آئے اس کا قلع قمع کر دے۔اب وہ تمام رائٹر ،ادیب اور شاعر جو کسی وقت میں امریکہ کے خلاف لکھا کرتے تھے اب اس کے دفاع میں سر گرم ہیں لہذا کشمیر کا ایشو اس طرح دنیا کی توجہ حاصل کرنے سے قاصر ہے جو اس کا حق ہے۔ترقی پسندوں کو بھی سمجھ آ گئی یے کہ یہ دنیا اب دولت مندوں کی دنیا ہے لہذا وہ گھر آنے والی دولت کو کیسے ٹھکرا سکتے ہیں؟امریکی کیمپ میں جانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ نظریاتی جنگ کی علمبرادری کی بجائے اس یورپی کلچر کی تشہیر میں خود کو وقف کر رہے ہیں جس کا علم امریکہ نے اٹھا یا ہوا ہے۔
India and America
ایک زمانہ تھا کہ لفٹ اور رائٹ کی سیاست زوروں پر ہوا کرتی تھی اور بدقسمتی سے لفٹ کے حامی دانشور وں کو ریاستی جبر کا نشانہ بھی بنایا جاتا تھا ۔ جنرل ضیا الحق کا دور اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔اس دور میں شاہی قلعے کی اذیتیں اور سزائیں بائیں بازو کے دانشوروں کا مقدر بنیں لیکن انھوں نے بے شمار دبائو کے باوجود اپنی سوچ سے دستبرداری سے انکار کر دیا۔ان کی یہ جدو جہد تاریخِ پاکستان کا انتہائی درخشاں باب ہے جس پر ہر حریت پسند انسان فخر کر تا ہے لیکن سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد جب امریکہ اس کرہِ ارض کی اکلوتی سپر پاور بنا تو ان سب کے پاس کوئی جائے پناہ باقی نہ رہی۔ایک طرف ملا ازم کا زور شروع ہوا، جہادی قوتیں سامنے آئیں اور مذہبی گروہوں نے نئی صف بندی کر کے ریاست پر قبضہ کرنے کا اعلان کیا تو یہ سارے ترقی پسند حلقے امریکی کیمپ میں چلے گئے کیونکہ اب امریکہ اور ترقی پسندوں کی منزل ایک تھی۔وہ کل بھی مذہبی سوچ کے خلاف تھے اور اب بھی ہیں لیکن اب انھیں اپنے مخالف کے شانہ بہ شانہ چلنے کی مجبور ی ہے جو انھوں نے بخوشی قبول کر لی کیونکہ اس میں مالی منفعت کے جاری رہنے کے امکانات بڑے روشن ہیں ۔،۔
بھارت امریکی اشیر واد سے مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی نئی لہر کو کچلنے کے لئے ریاستی طاقت کا بے دریغ استعمال کر رہا ہے۔ امریکی اور یورپی اقوام یہ سارا منظر دیکھ رہی ہیں لیکن اپنے لب نہیں کھول رہیں کیونکہ اس سے انھیں ایک اسلامی مملکت کی مضبوطی کا خوف دامن گیر ہے ۔ کشمیر بنے گا پاکستان ایک ایسا نعرہ ہے جو کشمیر کے درو دیوار سے پھوٹ رہا ہے۔مجھے تو کبھی کبھی یہ بھی شک ہو نے لگتا ہے کہ کیا کشمیر واقعی بھارت کا حصہ ہے جس میں پاکستانی پرچموں کی تعداد بھارتی پرچموں سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔بھارت سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن پاکستان کا نام اس کے لئے بلیک وارنٹ سے کم نہیںہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ کشمیر بنے گا پاکستان اس کے لہومیں درندگی کو جنم دے رہا ہے اور سنگینوں کے سائے میں نوجوانوں میں موت بانٹ رہا ہے۔ہر گھر سے جنازہ نکل رہاہے لیکن بھارتی حکومت کو اس کی ذرا برابر پرواہ نہیں ہے۔
بھارتی وزیرِ اعظم نریند رمودی تو پہلے ہی مسلمانوں کا دشمن تھا لہذا اس سے کسی اچھائی کی توقع رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔برہان مظفر وانی شہید نے جس طرح بھارتی جارحیت کو للکارا ہے وہ قابلِ فخر ہے۔ اس کی شہادت ایک نئے دور کا نقطہ آغاز ثا بت ہو رہی ہے ۔اس کے لہو سے تحریک کو نئی تقیوت حاصل ہو ئی ہے۔ اب کشمیر کے گلی کوچے آزادی کے نغموں سے گونج رہے ہیں۔ایک طرف سنگینیوں سے نکلنے والی گولیوں کی آوازیں ہیں تو دوسری جانب آزادی کے نعرے ہیں۔سنگینیں خاموش ہو جائیں گی لیکن آزادی کے نعروں کی گونج کبھی مدھم نہیں ہو گی کیونکہ یہی تاریخ کا سبق ہے۔،۔
Kashmir Issue
یہی وہ وقت ہے جب حکو متِ پاکستان کو عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اٹھانا ہو گا۔اسے آزمائش کی ان گھڑیوں میں کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہو نا ہو گا ۔اسے یقین دلانا ہو گا کہ بھارتی سفاکیت میں وہ ان کی سیاسی اور اخلاقی امداد جاری رکھے گی کیونکہ کشمیریوں کے حقِ خود آرادی کو سلامتی کونسل نے بھی تسلیم کیا ہوا ہے۔بھارت اپنی ہٹ دھرمی سے ان قراردادوں سے راہِ فرار اختیار کر رہا ہے جسے اس کے پہلے وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے خود تسلیم کیا تھا ۔وقت آگیا ہے کہ پاکستان دنیا کو اس حقیقت سے آگاہ کرے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں ہے بلکہ اس نے اس پر بزور قبضہ کیا ہوا ہے اور کشمیر اس ناجائز قبضے کے خلاف جدو جہد کر رہے ہیں۔کوئی ہے جو یہ نعرہ لگا سکے کہ ہم کشمیر کے لئے ایک ہزار سال تک جنگ لڑیں گئے لیکن کشمیر پر بھارتی قبضے کو تسلیم نہیں کریں گئے؟بھارت کشمیریوں کی نسل کشی پر اترا ہوا ہے ۔وہ مسلمانوں کو دھیرے دھیرے اقلیت میں بدلنا چاہتا ہے اس لئے اس نے وادی میں ہندو آباد کاری کا مذموم منصوبہ بھی بنا رکھا ہے لیکن بھارتی حکومت کے یہ تمام مذموم ہتھکنڈے کشمیریوں کے جذبہِ حریت کو کچل نہیں سکتے ۔ یہ سچ ہے کہ پاکستانی قیادت کشمیر کے متعلق کوئی دوٹوک موقف اختیار کرنے اور عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے ۔اس کی غیر سنجیدہ کوششیں کشمیر کاز کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔
اگر کشمیری نوجوان اس دفعہ پھر فائنل رائونڈ کھیلنے کیلئے سر بکف میدان میں نکل پڑے ہیں تو حکومت کو چائیے کہ ان کی پشت پناہی کرے تا کہ یہ دیرینہ مسئلہ حل ہو سکے۔پاکستان کی کاوشیں بھارت میں مداخلت کے زمرے میں نہیں آتیں کیونکہ سلامی کونسل پہلے ہی کشمیر میں استصوابِ رائے کی قرار دادمنظور کر چکی ہوئی ہے۔پاکستان کی کاوشیں اس قرار داد کو دوبارہ زندہ کرنا ہے تا کہ کوئی یہ الزام نہ لگا سکے کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں خون خرابے کو ہوا دے رہا ہے۔برِ صغیر کا امن مسئلہ کشمیر کے پائدار حل میں مضمر ہے اور اس مسئلے کا اہم فریق ہونے کی صورت میں پاکستان کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے فرائض احسن طریقے سے سر انجام دے۔ مجھے علم ہے کہ پاکستان کی ان کاوشوں کو امریکی اشیرواد ملنا انتہائی مشکل ہے کیونکہ بھارتی پشت پناہی کرنا امریکی خارجہ پالیسی کا اہم ستون ہے ۔ لیکن کیا مشکلات کے سامنے سرنگوں ہونا بہادری ہے یا مشکلات پر قابو پانا جوانمردی ہے؟وقت پاکستان سے ایک بڑے کردار کی توقع لگائے ہوئے ہے اور ہماری قیادت کو اس امتحان میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا چائیے کہ یہی ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔،۔