نئی دہلی (جیوڈیسک) بھارت نے روس کے ساتھ ایک اور جوہری آبدوز کے پٹے پر حصول کے لیے ایک دوطرفہ معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ یہ اپنی نوعیت کی تیسری آبدوز ہو گی، جو تین ارب ڈالر مالیت کے معاہدے کے تحت دس سال کے لیے بھارت کو مہیا کی جائے گی۔
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے جمعہ آٹھ مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ملکی میڈیا نے آج بتایا کہ بھارت کو یہ نئی آبدوز ملنے سے اسے بحر ہند کے خطے میں اپنے دو سب سے بڑے حریف ہمسایہ ممالک پاکستان اور چین پر قدرے برتری حاصل ہو جائے گی۔
ماسکو اور نئی دہلی کے مابین اس معاہدے کے طے پانے سے پہلے مذاکرات کئی ماہ تک جاری رہے اور یہ ڈیل ایک ایسے وقت پر طے پائی ہے جب بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پلوامہ میں چودہ فروی کو ہونے والے ایک بڑے خودکش دہشت گردانہ حملے میں چالیس سے زائد بھارتی نیم فوجی اہلکاروں کی موت کے بعد سے نئی دہلی اور اسلام آباد کے مابین انتہائی کشیدگی پائی جاتی ہے۔
بھارتی وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نے اے ایف پی کے ساتھ بات چیت میں اس امر کی تصدیق کرنے سے انکار کر دیا کہ اس جوہری آبدوز سے متعلق معاہدہ طے پا گیا ہے اور یہ کہ ایٹمی توانائی سے چلنے والی یہ آبدوز ماسکو 2025ء تک دس سال کے لیے پٹے پر انڈین نیوی کے حوالے کر دے گا۔
دفاعی میزائل نظام کی خریداری کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد نریندری مودی اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ نئی دہلی اور ماسکو کے مابین تعلقات ’مضبوط سے مضبوط تر‘ ہوتے جا رہے ہیں۔ رواں برس دونوں رہنماؤں کے مابین یہ تیسری ملاقات تھی۔
روس سرد جنگ کے زمانے سے ہی بھارت کا ایک قریبی اتحادی رہا ہے اور اب تک نئی دہلی کو ہتھیار فراہم کرنے والا ایک بڑا ملک بھی ہے۔ اس ڈیل کے طے پانے سے واشنگٹن میں امریکی رہنما اس لیے بھی خفا ہوں گے کہ امریکا کی طرف سے ایسے ممالک پر پابندیوں کا اعلان کیا جا چکا ہے، جو روس سے فوجی ساز و سامان خریں گے۔
اس دفاعی ڈیل سے قبل گزشتہ برس اکتوبر میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے مابین ایک ملاقات میں یہ بھی طے پا گیا تھا کہ بھارت روس سے ایس چار سو طرز کے زمین سے زمین تک مار کرنے والے میزائل سسٹم خریدے گا۔ اس معاہدے کی مالیت تقریباﹰ 5.2 ارب ڈالر بنتی ہے۔
دوسری طرف بھارت اور امریکا کی بحر ہند کے خطے کی صورت حال سے متعلق سوچ میں ایک قدر مشترک بھی ہے۔ واشنگٹن اور نئی دہلی دونوں کو ہی اس بات پر تشویش ہے کہ چین بحر ہند میں اپنے فوجی اثر و رسوخ میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرتا جا رہا ہے۔