بھارت میں اتر پردیش حکومت کا ’آپریشن لنگڑا‘ کیا ہے اور کیوں؟

Narendra Modi

Narendra Modi

بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) حالانکہ اتر پردیش میں بی جے پی کی حکومت ’آپریشن لنگڑا‘ سے انکار کرتی ہے لیکن بعض اعلیٰ پولیس حکام نجی گفتگو میں اس کا اعتراف کرتے ہیں۔

اتر پردیش میں یوگی ادیتیہ ناتھ کی حکومت اگرچہ مبینہ مجرموں کے خلاف ‘آپریشن لنگڑا‘ سے انکار کرتی ہے لیکن پولیس کی کارروائیاں اس تردید کو غلط ثابت کر رہی ہیں۔

اتر پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت جرائم پر قابو پانے کے لیے مبینہ طورپر ایک نئے طریقہ کار پر عمل پیرا ہے۔ ملزمان کو پولیس مقابلوں میں ہلاک کرنے کے بجائے پاؤں میں گولیاں مار کر معذور کر دیا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار کو غیر سرکاری طور پر ‘آپریشن لنگڑا‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ حکومت تاہم اس سے انکاری ہے۔

سوشل میڈیا پر چند روز قبل ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی، جس میں ایک شخص لنگڑاتے ہوئے کراہ رہا ہے، ”سر جی! چھوڑ دو سر جی! آج کے بعد نوئیڈا کبھی نہیں آؤں گا۔” اس کو دو افراد پکڑے ہوئے ہیں اور ساتھ کچھ پولیس اہلکار بھی ہیں۔ اس ویڈیو کو خود اتر پردیش میں بی جے پی نے جاری کیا تھا۔ ساتھ لکھا ہوا تھا، ”یہ ہے نیا اتر پردیش، دیکھیے مجرم کیسے جان کی بھیک مانگ رہے ہیں، یوگی ہیں، تو ممکن ہے۔”

اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ یہ ویڈیو دراصل اتر پردیش میں یوگی ادیتیہ ناتھ کی حکومت کی جانب سے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے اور ریاست کو جرائم سے پاک کرنے کے نام پر بے گناہ لوگو ں پر ظلم و زیادتی کا ایک نیا ثبوت ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ویڈیو میں موجودہ شاہ رخ نامی شخص کا پس منظر مبینہ طور پر مجرمانہ ہے۔ پولیس کی چیکنگ کے دوران اس نے فرار ہونے کی کوشش کی اور مجبوراً پولیس کو گولی چلانا پڑی، جو شاہ رخ کے پاؤں میں لگی جبکہ ایک موٹر سائیکل پر سوار ایک دوسرا شخص فرار ہو گیا۔

اپوزیشن جماعتوں اور حقوق انسانی کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ مجرموں کو پکڑنے، ان کے فرار ہونے اور پھر پولیس کے گولی چلا کر اسے زخمی کر دینے کا یہ طریقہ کار نیا نہیں۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران بالخصوص مغربی اتر پردیش میں پولیس کی ایسی کارروائیوں کے دوران اکثر ملزمان کو گولیاں پاؤں میں لگیں، جس کے نتیجے میں وہ زندہ تو بچ گئے لیکن ہمیشہ کے لیے معذور ہو گئے۔

اتر پردیش پولیس کے اس نئے طریقہ کار کوغیر سرکاری طورپر ‘آپریشن لنگڑا‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ گزشتہ یوم جمہوریہ سے قبل ریاست کے چیف سیکرٹری نے تمام ضلعی مجسٹریٹوں کو ‘اب تک 3000‘ کی تشہیر کرنے کے لیے کہا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا اشارہ اسی ‘آپریشن لنگڑا‘ کی طرف تھا۔

یوگی حکومت آئندہ برس ہونے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر اس طرح کے ‘مقابلوں‘ کو اپنی بڑی کامیابی کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہے۔ اس طرح کے مبینہ انکاؤنٹر اور ماورائے عدالت قتل کی سیاسی حمایت کو بادی النظر میں عدالتی تائید بھی ملتی رہی ہے۔ جولائی 2020 تک ماورائے عدالت قتل کے جن 74 واقعات کی چھان بین ہوئی، ان سب میں مقامی عدالتوں نے پولیس کو ‘کلین چٹ‘ دے دی۔

سن 2017 میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے دو ماہ بعد ہی یوگی ادیتیہ ناتھ نے اعلان کیا تھا، ”اگر آپ جرم کریں گے تو ٹھوک دیے جائیں گے۔” یوگی کے اس اعلان کے بعد سے اب تک اتر پردیش پولیس مبینہ مقابلوں کے 8472 واقعات میں کم از کم تین ہزار302 افراد کو گولیاں مار کر معذور بنا چکی ہے۔ اس دوران 146 افراد ہلاک بھی ہو گئے۔

بھارت میں حکمراں جماعت کو وزراء کی تقرری میں صلاحیتوں کے بجائے ذات پات، مذہب، ریاست اور سیاسی مجبوریوں کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔آئندہ ریاستی انتخابات کے مدنظر اترپردیش کو سب سے زیادہ نمائندگی ملی ہے۔ 36 نئے وزراء میں سے آٹھ یوپی کے ہیں۔

یو پی حکومت کے ترجمان اور کابینہ کے وزیر شری کانت شرما کا کہنا تھا کہ ریاست میں جرائم کے حوالے سے ہماری حکومت ‘صفر برداشت‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ”پولیس پر گولی چلانے والوں کو ان کی زبان میں ہی جواب دیا جائے گا۔ گولی چلانے والے مجرموں کو گلدستے پیش نہیں کیے جائیں گے۔”

اتر پردیش پولیس کے اعلیٰ پولیس افسر پرشانت کمار تاہم ‘آپریشن لنگڑا‘ سے انکار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انکاؤنٹر کے دوران اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا زخمی ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ پولیس کا بنیادی مقصد انہیں ہلاک کرنا نہیں ہے۔ پولیس انہیں گرفتار کرنا چاہتی ہے۔ ”لیکن جب کوئی ہم پر گولی چلاتا ہے، تو ہم اپنی جان بچانے کے لیے جوابی کارروائی کرتے ہیں۔ ہر انکاؤنٹر کی مجسٹریٹ سے تحقیقات کرائی جاتی ہے اور متاثرہ شخص کو عدالت سے رجوع کرنے کا بھی پورا حق دیا جاتا ہے۔ تاہم آج تک کسی بھی آئینی ادارے نے یو پی پولیس کے خلاف کوئی منفی ریمارک نہیں دیا۔”

انسانی حقوق کے کارکن اور بعض سابق اعلی پولیس ریاستی پولیس کے اس طریقہ کار پر سوال اٹھاتے ہیں۔ ایک سابق اعلیٰ پولیس افسر کا کہنا تھا کہ حیرت کی بات یہ ہے کہ گولی مار کر لوگوں کو معذور بنا دینے پر کچھ پولیس اہلکار فخر کرتے ہیں، حالانکہ انہیں شرم آنی چاہیے، کیونکہ قانون نے انہیں یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ خود اس بات کا فیصلہ کریں کہ کون مجرم ہے اور کون نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت انکاؤنٹرز پر ایک حکومتی پالیسی کے طور پر عمل کر رہی ہے اور اسے اپنی بڑی کامیابی بتا رہی ہے۔

ایسے بھی واقعات عدالتوں میں ثابت ہو چکے ہیں کہ جب کسی پولیس اہلکار نے ذاتی دشمنی کی بنا پر کسی شخص کو گولی مار کر اسے انکاؤنٹر کا نام دے دیا۔

انسانی حقوق کے علم بردار اور سابق پولیس افسر ایس آر داراپوری کا کہنا ہے کہ جرائم پر قابو پانے کے نام پر اس طرح کی پولیس کارروائی کسی بھی صورت جائز نہیں۔ ”کچھ لوگوں کو انکاؤنٹر میں مار دینا، معذور بنا دینا یا پھر ان کے گھروں کو منہدم کر دینے سے جرائم کم نہیں ہوتے۔ یہ تو پولیس کو کھلی چھوٹ دینے کے مترادف اور قطعی غیر قانونی بات ہے۔”

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ‘آپریشن لنگڑا‘ کے تحت کارروائی میں زخمی ہونے والے بیشتر افراد اقلیتی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘آپریشن لنگڑا‘ کا مقصد یہ ہے کہ مبینہ مجرم کے دل میں پولیس کا خوف زندگی بھر باقی رہے اور وہ معذور ہونے کی وجہ سے جرائم میں بھی ملوث نہیں ہو۔ اس طرح پولیس خود کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسے الزامات سے بچانے کی کوشش بھی کرتی ہے، جو بظاہر کامیاب بھی رہتی ہے۔