تحریر : عبد الحنان کنٹرول لائن پر بلا اشتعال فائرنگ کے واقعات میں شدت آگئی ہے جس کے نتیجے میں متعدد پاکستانی شہری ہلاک و زخمی ہوچکے ہیں جبکہ مویشیوں اور املاک کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اور ہندوستان کی جانب سے متعدد بار لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باونڈری کے علاوہ کئی بار پاکستان کے اندر بھی تخریب کاری کی جاچکی ہے۔8 نومبر کو بھارتی فورسز کی جانب سے لائن آف کنٹرول کے بٹل سیکٹر پر بلا اشتعال پر فائرنگ کی گئی تھی پھن واقعات کے بعد حالیہ دنوں میں ہندوستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر کو کئی مرتبہ دفتر خارجہ طلب کرکے سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی پر احتجاج ریکارڈ کرایا گیا اور بھارتی سفارتکار سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس بات کی یقین دہانی کرائیں کہ ان واقعات کی تحقیقات کی جائیں گی لیکن اس کے باوجود اس پر کوئی عمل درامد نہیں ہوسکا۔اس کے علاوہ 16دسمبر کو نکیال سیکٹر پر بچوں کی سکول وین پر بزدلانہ کارروائی کی گئی جس کے نتیجے میں ڈرائیور شہید ہوا اور متعدد طالبعلم اور طالبات زخمی ہوئی لیکن بھارت سرکار کو کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ پاکستان 71والا پاکستان نہیں ہے 2016کا پاکستان ہے پاکستانی قوم میں آج بھی 65ء والے جذبے زندہ ہیں اور 18 کروڑ پاکستانی عوام اپنے ملک کا دفاع کرنا جانتے ہیں ـ بلوچستان و دیگر علاقوں میں تخریب کاری اور کنٹرول لائن پر جارحیت کے زریعے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی کوششیں کی جارہی ہے۔
کشمیر کی تحریک آزادی سے توجہ ہٹانے کیلئے بھارت لائن آف کنٹرول پر جارحیت کر رہا ہے پاکستان ترقی کی راہ پر گامزان ہے پاک چائنہ اتصادی راہداری کا منصوبہ جو ترقی کی راہ پر گامزان ہے جس سے آنے والے وقتوں میں پاکستان کی معیشت بہتر سے بہتر ہوگی ۔ جو ہندوستان سمیت مغربی ملکوں کو برداشت نہیں ہورہا کہ پاکستان عالمی طاقت بننے جارہا ہے۔ پاکستان کی معیشت میں اب خاطر خواہ اضافہ ہورہا ہے ہندوستان کا مسئلہ پیدائشی ہے شروع دن سے پاکستان کے خلاف سازشوں میں اہم کردار ادا کیا ہے 6نومبر 1948ء میں کشمیر کے 2 لاکھ ستر ہزار لوگوں کو شہید کیا یہ معاملہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ 1965ء کی جنگ شروع ہو گئی اس کے بعد 1971ء کی جنگ شروع ہوگئی جس میں ایک سازش کے تحت ہمارا مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہو گیا جو سقوط ڈھاکہ کے نام سے مشہور ہے بات بہت پرانی نہیں اسی سال 7جون کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا۔
اس دوران انہوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں ہونے والے ایک پروگرام میں شرکت بھی کی۔یہ پروگرام پاکستان کو توڑنے اور بنگلہ دیش بنانے میں بھارتی کردار کے اعتراف و خدمات کے حوالے سے تھا۔ نریندر مودی نے اس موقع پر جو گفتگو کی اس کا ایک ایک لفظ پاکستان دشمنی میں ڈوبا ہوا ہے۔ مودی کا کہنا تھا ”بنگلہ دیش کی آزادی میں بھارتی فوجیوں کا خون بھی شامل تھا، ہمارے لوگوں نے بھی بنگلہ دیشیوں کے کندھے سے کندھا ملا کر جدو جہد کی،ہم مکتی باہنی کے ساتھ مل کے لڑے ،ہمارے فوجیوں کے علاوہ عام ہندوئوں کا بھی بنگلہ دیش بنانے (پاکستان توڑنے) میں حصہ ہے۔ بنگلہ دیش کی آزادی (پاکستان توڑنے کی تحریک )میں میں نے بھی بطور رضاکارحصہ لیا۔
Nawaz Sharif
”ہمارے حکمرانوں کی برہمن کے ساتھ مصالحت، مفاہمت اور دوستی کی بے جا توقعات وابستہ کرنے کانتیجہ ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ بھارت کے ساتھ بے جا جنگ وجدل کا بازار گرم کیا جائے لیکن ہم یہ کہے بغیر بھی نہیں رہ سکتے کہ بے جا مصالحت، بے مقصد مفاہمت اور کھوکھلی و یک طرفہ اعتماد سازی کی امیدیں ہمیشہ جارحیت کو دعوت دیتی ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارتی حکمرانوں کے پاکستان کے ساتھ ماضی و حال میں روا رکھے جانے والے رویہ و کردار، اس کی دوستی و دشمنی اور سانحہ مشرقی پاکستان کے زخموں کے تناظر میں معاملات طے کئے جائیں۔ بھارت کی دوستی نے ہمیشہ پاکستان کی پیٹھ پر وار کیا ہے حکمران16دسمبرکاسانحہ بھول چکے، اپنے ماتھے پرلگے شکست کے داغ اوراپنے دشمن کو فراموش چکے ہیں لیکن بھارت کی ڈھٹائی اوردشمنی کی یہ حالت ہے کہ مودی اب علی الاعلان پاکستان کو توڑنے کااقرارو ا عتراف کررہے اوردھمکیاں دے رہے ہیں۔امسال بھی بھارت میں سرکاری سطح پر 16دسمبرکادن جشنِ فتح کے طورپرمنایا جارہاہے۔یہ بات یقینی ہے کہ جب فتح کاجشن منایاجاتا ہے تواس موقع پر جہاں حریف کی تباہی کے تذکرے ہوتے وہاں اس کی مزید بربادی کے منصوبے بھی بنتے ہیں۔
گویا اب بھارت باقیماندہ پاکستان کے درپے ہے۔جس کااظہارمودی بلوچستان میں مداخلت کی صورت میں کرچکے ہیں۔بھارتی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ بھی گذشتہ دنوں مقبوضہ جموں کشمیر کے دورے کے دوران مودی کی زبان بولتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ پہلے پاکستان کے دوٹکڑے کئے اب دس ٹکڑے کریں گے۔ یہاں یہ امر سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اقوام متحدہ نے بھارت کو مشرقی پاکستان کاوکیل ہرگزمقررنہیں کیا تھااورنہ بنگالی مسلمانوں نے بھارت کواپناوکیل بنایا تھا بلکہ بھارت زبردستی ان کا وکیل بن بیٹھا تھااس کے برعکس پاکستان کو اقوام متحدہ کی وساطت سے پوری دنیا نے کشمیر کاوکیل تسلیم کررکھا ہے۔ آج ہمارا ملک ایک بار پھر اندرونی و بیرونی خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ دوست کم اور دشمن زیادہ ہیں۔
خوش آئند بات ہے کہ ہماری سول و فوجی قیادت خطرات سے غافل نہیں، ملک کے دفاع واستحکام کے لئے یک دل ویک جان ہے۔ حفاظتی و دفاعی تدابیر میں بہتری لائی جا رہی ہے۔ بحمداللہ ہمارا ملک ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے اب دشمنوں کے لیے ترنوالہ نہیں رہا۔ یہ سب تدابیر واقدامات بجا لیکن سب سے بڑی تدبیر یہ ہے کہ ہم اللہ سے اپنا تعلق مضبوط کریں اور اس سے کئے ہوئے وعدوں کو ایفا کریں اور میرا خیال ہے کہ حکومت پاکستان اس مسئلہ کو عالمی سطح پر اٹھائے عوام اور حکمرانوں سمیت بھارت کے خلاف عالمی فورم پر احتجاج ریکارڈ کروانا چاہیے اقوام متحدہ کو مجبور کرنا ہوگا اور بھارت کو منہ توڑ جواب دینا ہوگا۔