تحریر: سید توقیر زیدی انڈیا جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل چالیس پریڈیٹر ڈرون طیاروں کی خریداری کے لئے امریکہ سے مذاکرات کر رہا ہے، بھارت اِن ڈرونز کے ذریعے پاکستان اور چین کے ساتھ اپنی طویل سرحدوں پر نظر رکھنا چاہتا ہے۔ وہ انٹیلی جنس معلومات کے لئے اپنی فوج کو زیادہ سے زیادہ ایسی ٹیکنالوجی سے لیس کرنا چاہتا ہے، جس میں افرادی قوت کا استعمال نہ ہو۔ قبل ازیں بھارت کشمیر میں پہاڑی علاقوں کی نگرانی کے لئے اسرائیل سے بھی ڈرون طیارے حاصل کر چکا ہے۔
بغیر پائلٹ کے یہ طیارے 35 گھنٹے تک فضا میں محوِ پرواز رہ سکتے ہیں۔ امریکی وزیر دفاع ایش کارٹر اس ہفتے بھارت کے دورے پر آ رہے ہیں، ڈرون طیاروں کا معاملہ اْن کے ساتھ بھی زیر بحث آئے گا، امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت اْس کے ساتھ چند معاہدوں پر دستخط کرے ،جن میں ایک دوسرے کے فوجی اڈے استعمال کرنے کا معاہدہ بھی شامل ہے۔ نریندر مودی کی حکومت اِس حوالے سے پیش رفت کا عندیہ دے چکی ہے۔
امریکہ سے چالیس مسلح ڈرون طیارے خریدنے کا معاہدہ اگر انجام پا جاتا ہے تو یہ نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد امریکہ کے ساتھ بڑا دفاعی سودا ہو گا،عین ممکن ہے امریکی وزیر دفاع کے دورے کے دوران اس طرح کے مزید سودے بھی ہوں، کیونکہ کئی امریکی کمپنیوں نے بھارت میں اسلحہ ساز کارخانے قائم کرنے کی پہلے ہی پیشکش کر رکھی ہے۔ امریکہ نے بھارت کو سول نیو کلیئر ٹیکنالوجی تک رسائی کی اجازت بھی دی ہوئی ہے، جبکہ اس کے نان نیٹو اتحادی پاکستان پر یہ دروازہ ابھی تک نہیں کھولا گیا، حالانکہ پاکستان توانائی کے جس شدید بحران کا شکار ہے اس میں سول نیو کلیئر ٹیکنالوجی تک رسائی اس کی ضرورت ہے۔ پاکستان متبادل ذرائع سے انرجی کی کمی پوری کرنے کی جو کوششیں دوست ممالک کے تعاون کے ساتھ کر رہا ہے، اْن سے اِس شعبے میں محدود کامیابی ہی حاصل ہو سکتی ہے، اِس لحاظ سے امریکہ نے واضح طور پر پاکستان پر بھارت کو ترجیح دی ہے۔
Narendra Modi
بھارت نے امریکہ کے علاوہ فرانس سے بھی جدید ترین رافیل طیارے خریدنے کے لئے ایم او یو پر دستخط کر دیئے ہیں اور اگلے چند برس میں یہ جدید ترین اور مہنگے طیارے بھارتی فضائیہ میں شامل ہو جائیں گے، اس کے مقابلے میں بھارت کا طرزِ عمل ملاحظہ فرمائیے کہ ابھی ڈیڑھ دو ماہ قبل امریکہ نے پاکستان کو آٹھ ایف16طیارے دینے کا اعلان کیا تو بھارت کے رہنما سیخ پا ہو گئے۔ اس پر نہ صرف امریکہ سے احتجاج کیا گیا، بلکہ واشنگٹن میں بھارتی لابی کو متحرک کر کے کانگرس میں ایک بل بھی پیش کیا گیا، جس کا مقصد پاکستان کو ان طیاروں کی فراہمی رکوانا تھا۔
کانگرس نے یہ بل بھاری اکثریت سے مسترد کر دیا اور واضح شکست کے باوجود بھارت نچلا نہیں بیٹھا اور دوسری مرتبہ نئی دہلی میں امریکی سفیر کو طلب کر کے ان طیاروں کی سپلائی پر احتجاج کیا گیا، حالانکہ امریکہ نے پاکستان کو یہ طیارے سپلائی کرنے کا فیصلہ طویل غور و خوض اور ہر پہلو کا باریک بینی سے جائزہ لے کر کیا تھا۔پاکستان کو یہ طیارے اندرون مْلک دہشت گردی کی جنگ میں استعمال کے لئے درکار تھے۔ یہ جنگ بھی بنیادی طور پر اس وقت شروع ہوئی تھی جب امریکہ نے افغانستان پر فضائی حملوں کے بعد طالبان کی حکومت ختم کر کے وہاں حامد کرزئی کی حکومت قائم کی۔
امریکہ کے اِس اقدام کے بعد افغانستان میں جو لوگ مزاحمت پر تیار ہوئے انہوں نے پاکستان کو بھی اِس لئے ٹارگٹ کر لیا کہ وہ اِس جنگ میں امریکہ کا اتحادی تھا۔ یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ دہشت گردی کی جنگ میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہی پہنچا۔ امریکی اور یورپی ممالک میں تو چند واقعات کے بعد یہ سلسلہ تھم گیا، لیکن پاکستان آج تک دہشت گردی کا شکار چلا آ رہا ہے جس کے مقابلے کے لئے پاکستان کو اپنی فضائیہ کے لئے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہے اِن ایف16طیاروں کی ضرورت تھی، امریکہ نے اِس ضمن میں پاکستانی موقف تسلیم کیا اور جب طے کیا کہ یہ طیارے پاکستان کو دیئے جائیں گے تو بھارت نے قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کر دیں اور اب تک ان سے باز نہیں آیا۔
India and America
اِس تناظر میں بھارت کی جنگی تیاریاں خطے کے امن کے لئے بڑا خطرہ ہیں۔ بھارت خود تو ہر قسم کے اسلحے، گولہ بارود اور جدید ترین طیاروں کے آرڈر دھڑا دھڑ دے رہا ہے، اپنے ہاں اسلحہ ساز فیکٹریاں بھی لگا رہا ہے، لیکن اگر پاکستان کو کہیں سے چند طیارے ملنے لگتے ہیں تو اس پر شور مچا دیتا ہے۔ بھارت ایک بڑا مْلک ہے اس کے زرمبادلہ کے ذخائر بھی360 ارب ڈالر تک جا پہنچے ہیں۔ اس کے وسائل بھی بہت زیادہ ہیں، لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ یہ وسائل اسلحے کی بھٹی میں جھونکے جائیں؟ اور علاقے میں غربت بڑھائی جائے، بھارت میں کروڑوں لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
ممبئی جیسے شہر میں لاکھوں لوگ سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر زندگی گزارتے ہیں اور ساری عمر میں انہیں چھت نصیب نہیں ہوتی، انتہا پسند ہندو تنظیم شیو سینا بھی اسی شہر میں سرگرم ہے اور وہ بھی انسانوں کی بھلائی کے لئے کچھ کرنے کی بجائے پاکستان کے خلاف جذبات اْبھارنے میں سرگرم ہے۔ پاکستان کے نامور سیاست دان اور سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی کتاب کی تقریب رونمائی کے میزبان کلکرنی کا مْنہ کالا کرنے کا واقعہ یہیں پیش آیا تھا۔
پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو دھمکیوں کا سلسلہ بھی یہیں سے شروع ہوتا ہے اور اگر کوئی پاکستانی آرٹسٹ اپنے فن کا مظاہرہ کرنے ممبئی جانے کا پروگرام بناتا ہے تو منتظمین کو دھمکیاں دے کر شو ملتوی کرا دیا جاتا ہے۔ ان حالات میں بھارت کو اسلحے کی بھوک اور اس کا جنگی جنون خطے کو غیر مستحکم کرنے کا باعث ہی بنے گا ابھی چند روز پہلے امریکہ نے بھارت اور پاکستان دونوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنا ایٹمی اسلحہ کم کریں، حالانکہ پاکستان کا اپنے دفاع کے لئے ایٹمی اسلحے پر انحصار مجبوری ہے۔
پاکستان بیک وقت چالیس چالیس مہنگے رافیل طیارے اور ڈرون نہیں خرید سکتا، نہ اس کے اتنے وسائل ہیں، اِس لئے اسے ایٹمی ڈیٹرنس کا سہارا لینا پڑتا ہے، امریکہ اگر چاہتا ہے کہ علاقے میں امن کی فضا پیدا ہو تو بھارتی فوجوں کو ڈرونوں سے لیس کرنے کی بجائے اسے عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ دینے کا نہ صرف مشورہ دے، بلکہ اس کا عملی اظہار بھی کرے۔