بھارت نے ایک بار پھر دریائے چناب کا پانی روک لیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں دریائے چناب کا 92 فیصد حصہ خشک ہو چکا ہے اور اس سے پاکستانی زرعی رقبہ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ پاکستان کا دریائے چناب مقبوضہ کشمیر سے آتا ہے اور سندھ طاس معاہدہ کے تحت بھارت دریائے چناب میں روزانہ 55 ہزار کیوسک پانی چھوڑنے کا پابند ہے لیکن بھارت نے دریائے چناب کا پانی مقبوضہ کشمیر میں بنائے گئے متنازعہ بگلہار ڈیم پر روک لیا ہے۔ پانی کی کمی کی وجہ سے دریا خشک ہو چکا ہے اور اس سے نکلنے والی نہریں بھی بند ہو چکی ہیں۔ انڈیا جب چاہتا ہے پاکستان کی طرف آنے والے دریائوں کا پانی روک لیتا ہے اور جب چاہتا ہے پانی چھوڑ کر پاکستان کو سیلاب کی آفت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ہمارے حکمران اسی انڈیا کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں جو ایک طرف آبی جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے تو دوسری طرف وطن عزیز میں ہونے والی دہشت گردی و تخریب کاری میں بھی انڈیا ملوث ہے۔ سینیٹر طلحہ کہہ چکے ہیں کہ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریکوں کو انڈیا کہ شہہ حاصل ہے۔ حکومت بھارت کی طرف سے ڈیمز بنا کر پاکستان کو بنجر اور ریگستان بنانے کے منصوبے کا نوٹس لے، پاکستانی دریائوں کو روک کر پاکستان کی معیشت تباہ کی جا رہی ہے، ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے صوبوں میں اتفاق رائے پیدا کیا جائے، سندھ طاس معاہدے پر نظر ثانی کرکے ترمیم لائی جائے۔
گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں بیلم حسنین کی جانب سے پیش کردہ قرارداد پر جاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے منزہ حسن نے کہا پاکستان کا مستقبل پانی میں ہے۔ بھارت کی طرف سے پانی روکنے کے اقدامات اسی طرح جاری رہے تو پھر پاکستان کو پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے گا، حکومت کو اس حوالے سے اقدامات اٹھانے ہونگے۔ انڈیا پاکستان کا پانی روک کر غیر قانونی ڈیم بنا رہا ہے، حکومت کو اپنا مقدمہ بھر پور انداز میں لڑنا چاہئے۔ پاکستان کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے، پانی کا مسئلہ بین الاقوامی بن چکا ہے، سندھ کے لہلہاتے کھیت ہمارے دیکھتے دیکھتے بنجر بن چکے ہیں، بھارت کو ڈیم بنانے سے نہ روکا تو یہ پاکستان کی تباہی کا سبب بن جائیگا، دریائے نیلم پر بھی بھارت ڈیم بنانے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس معاملے پر عالمی عدالت انصاف میں بھر پور پیروی کی جائے بصورت دیگر پورا پاکستان بنجر ہو جائے گا۔ پانی پاکستان کیلئے دہشت گردی سے کہیں بڑا مسئلہ ہے، بھارت پانی روک کر پاکستان کے خلاف دہشت گردی کر رہا ہے، کسی بھی ڈیم کے معاملے پر یہاں سیاست شروع ہو جاتی ہے۔ ہمیں ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے ترجیحی بنیادوں پر اتفاق رائے پیدا کرنا چاہئے اور بھارت کو اس کھلی دہشت گردی سے روکا جائے۔
Sindh Waters Treaty
سندھ طاس معاہدے پر نظرثانی کر کے ترمیم لائی جائے۔ بھارت کھلے عام پاکستان کے پانیوں پر قبضہ کر رہا ہے یہ پاکستان کو بنجر کرنے کی کھلی سازش ہے، حکومت کو اس حوالے سے عملی اقدامات اٹھانے چاہئے، پانی کے مسئلے کو ابھی سے ترجیح نہ دی گئی تو ہم خانہ جنگی کا شکار ہو جائیں گے۔ افغانستان میں دریائے کابل پر ڈیم بنانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ قبائلی علاقوں کے پہاڑوں کے گلیشیئرز سے مستفید ہونے کے لئے ڈیموں کی تعمیر کی جائے۔ہمیں اپنے پانی کے مسئلے پر ٹھوس اقدامات اٹھانے چاہئے، پانی سے بجلی پیدا کرنے کے لئے منصوبے شروع کر نے کی اشد ضرورت ہے، اپنا حق لینے کے لئے موثر انداز میں بات کرنی چاہئے۔ ڈیموں کی مخالفت کرنے والے محب وطن نہیں ہوسکتے ہمیں کالا باغ ڈیم سمیت دیگر ڈیم بنانے کے لئے فوری اقدامات اٹھانے چاہئے، ڈیموں کی تعمیر جیسے اہم معاملے پر قوم کو متحد ہونا چاہئے۔ انڈیا پاکستان کی طرف آنے والے دریائوں پر ڈیم بنا بنا کر ایک طرف پانی کے حق پر ڈاکہ ڈال رہا ہے تو دوسری طرف ہمارے ہی پانی سے بنائی گئی بجلی ہمیں ہی فروخت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وزیراعظم کو عوام نے بہت بڑا مینڈیٹ دیا ہے وہ قوم کو کالا باغ ڈیم کے معاملے پر متحد کریں ہماری تمام معیشت زراعت پر مبنی ہے۔
سندھ اور بلوچستان میں کئی چھوٹے چھوٹے دریا ہیں’ ان علاقوں کو آباد کرنے کے لئے ان دریائوں پر وقت ضائع کئے بغیر چھوٹے ڈیم تعمیر کئے جائیں۔ قومی اسمبلی میں بھارت کی پاکستانی پانیوں پر ڈیم بنانے کی مذمت کی گئی ارکان اسمبلی نے کہا آنے والے دنوں میں پاکستان پانی بحران کا شکار ہو جائیگا، بھارت پاکستان کو بنجر بنانے کی سازش کر رہا ہے، پاکستان اور بھارت میں پانی پر جنگ ہو سکتی ہے، حکومت پانی کے مسئلہ کو دہشت گردی مسئلہ جیسی اہمیت دیکر آل پارٹیز کانفرنس بلائے۔ پاکستان کیخلاف بھارتی آبی جارحیت پر شدید اظہار برہمی کیا گیا اور دونوں اطراف کے ارکان نے حکومت سے مطالبہ کیا بڑے آبی ذخائر کی تعمیر پر قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے اور بھارتی آبی دہشت گردی کے خلاف ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں، بھارت کے ساتھ پانی کے معاملے پر افغانستان سے بھی بات کرنی چاہئے۔ قومی اسمبلی میں انڈیا کی آبی جارحیت پر قرارداد خوش آئند ہے، حکومت کو انڈیا کے ساتھ دوستی کی بجائے اپنے حقوق کی بات کرنی چاہئے۔ بھارت نے ہمیشہ پاکستان کو دھوکا دیا۔ مذاکرات کی آڑ میں بھارت مقبوضہ کشمیر پر اپنا قبضہ مستحکم کر رہا ہے۔ بھارت کے ساتھ تجارت اور ویزہ پالیسی میں نرمی ملک کو تباہی کے گڑھے میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ حکومت پاکستان لاکھوں شہداء کی قربانیاں پس پشت ڈالتے ہوئے بھارت کے ساتھ دوستی، تجارت اور ویزا پالیسی میں نرمی جیسے فیصلے کر رہی ہے۔ بھارت سے تجارت اور بجلی خریدنے کے معاہدے کرنے کے لئے نہیں بلکہ آزادی کشمیر اور پاکستان میں بھارتی مداخلت ختم کرنے کے حوالے سے بات کی جائے۔
حکومت پاکستان’ بھارت کی خوشنودی کیلئے اسے پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دیکر دوستی، تجارت اور ویزہ پالیسی میں نرمی جیسے اقدامات اٹھانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ پاکستان کی ایٹمی قوت اور قربانیوں و شہادتوں کے جذبہ سے محض بھارت ہی نہیں امریکہ اور اس کے اتحادی سب سخت خوفزدہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان پر دباؤ بڑھا کر اور سازشوں میں الجھا کر اسے بھارت کی منڈی بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی دریاؤں پر مسلسل ڈیم تعمیر کر رہا ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ حکمرانوں و سیاستدانوں کی طرف سے بھارتی آبی جارحیت روکنے کیلئے وہ کردار ادا نہیں کیا گیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا۔ پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کے بعد انڈیا اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ وہ طاقت کے زور پر پاکستان کو زیر نہیں کر سکتا اس لئے وہ معاشی طور پر پاکستان کو اپاہج بنانے کی کوششیں کر رہا ہے۔
بھارتی لابیاں پاکستان میں بیٹھ کر کام کر رہی ہیں۔ مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر بھارت سے یکطرفہ دوستی و تجارت کے فیصلے قوم قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ بھارت معاشی طور پر پاکستان سے آگے نکل گیا ہے اس لئے ہمیں ترقی کیلئے اس سے دوستانہ تعلقات آگے بڑھانا ہوں گے۔ یہ سوچ درست نہیں ہے۔ حکومت کو پالیسی بنانی چاہئے کہ جب تک انڈیا مقبوضہ کشمیر سے اپنی آٹھ لاکھ فوج نہیں نکالتا، آبی جارحیت اور بلوچستان، سندھ خیبر پختونخواہ اور ملک کے دیگر علاقوں میں تخریب کاری و دہشت گردی ختم نہیں کرتا انڈیا سے کئے جانے والے سارے معاہدات اسے شہ دینے کے مترادف ہیں۔ عوام کے مینڈیٹ کا خیال کرتے ہوئے حکومت کو صرف فیصلے نہیں کرنے چاہئے بلکہ عوام کے جذبات کی ترجمانی بھی کرنی چاہئے۔