تحریر : علی عمران شاہین پاکستان تاریخ کے ایک بدترین سیلاب کا پانی پنجاب سے گزر کر سمند کی جانب بڑھ رہا ہے۔ تادم تحریر سیلابی پانی سمند ر تک نہیں پہنچ پایا ہے۔اس سیلاب کی حیران کن بات یہ ہے کہ جتنا پانی اس بار دریائے چناب میں آیا ہے، اتنا پانی اس کی تاریخ میں کبھی نہیں آیا۔ بھارت کہتا ہے کہ اس نے سیلاب نہیں بھیجا لیکن سوال یہ ہے کہ آخر سیلاب صرف چناب میں ہی کیوں آیا؟دنیا جانتی ہے کہ اسی دریا پر بھارت نے مقبوضہ کشمیر کا اپنا سب سے بڑا ڈیم بگلیہار بنا رکھا ہے جس کی لمبائی 12کلو میٹر ہے اور جہاں سے پانی کے بڑے ریلے چھوڑنا اور پاکستان کو ڈبونا بھارت کے لئے نہایت آسان ہے۔ بھارت کے بھیجے اس سیلاب سے پاکستان میں ہزاروں گھر تباہ ہو چکے ہیں تو سینکڑوں لوگ جانوں سے جا چکے ہیں۔ اس کے ساتھ پاکستانی ریاست اور عوام کی معیشت پر بھی سب سے بڑی ضرب لگ چکی ہے کیونکہ لاکھوں ایکڑ پر پھیلی چاول، کپاس کے علاوہ مکئی کی فصلیں اور دیگر کاشت کی گئی سبزیاں تباہ ہو گئی ہیں۔ اس موسم میں صوبہ پنجاب کے عوام کی آمدن اور معیشت کا سب سے بڑا انحصار چاول اور کپاس کی فصل پر ہی ہوتا ہے، جن کے خاتمے کے بعد اب انہیں نجانے کیسے اگلے سال تک وقت گزارنا ہو گا اور نجانے اس کے ساتھ جو ان کے گھر، املاک تباہ اور ہزاروں مویشی ہلاک ہوئے اس کا مداوا کیسے ہو گا؟ اس سوال کا بھی کوئی جواب نہیں۔ سیلاب سے جن لوگوں کے گھر، املاک، فصلیں تباہ، مویشی ہلاک ہوئے وہ تو متاثر ہوئے ہی ہیں لیکن وہ جو شہروں میں بیٹھے ہوئے ہیں، اس نقصان کا اثر ان پر بھی براہ راست پڑے گا کیونکہ شہروں کی زندگی کی چہل پہل اور رونق تو دیہات کی محنت اورپیداوار پر ہی ہوتی ہے۔ اب سارے ملک میں مہنگائی اور اشیائے خورونوش کی قلت کا ایک طوفان بھی آ سکتا ہے۔ حکومت تو اسلام آباد میں جاری چند ہزار افراد کے دھرنوں سے ہونے والے 600ارب کے نقصان کا رونا رو رہی تھی لیکن سیلاب سے ہونے والی تباہی اور نقصان اس سے کئی گنا زیادہ ہیں۔
یہ سیلاب آیا کیسے اور اس کی وجوہات کیا تھیں اور کیا انہیں کسی طرح روکا نہ سہی کم بھی کیا جاسکتا ہے کہ نہیں؟ اس پر ہمارے ہاں کبھی غور کرنے کی زحمت نہیں ہوئی۔ ویسے تو اس سال توقع اور تجربات سے ہٹ کر ستمبر کے مہینے میں بارشیں اور سیلاب آ گئے لیکن بارش تو اس قدر نہیں تھی کہ وہ اتنا بڑا سیلاب بپا کر دیتی۔ اصل مسئلہ اور مشکل اس وقت کھڑی ہوئی جب بھارت نے دریائے چناب نہ صرف پانی کے زبردست ریلے چھوڑے بلکہ پاکستان کو اس حوالے سے پہلے مکمل لاعلم رکھا اور پھر بعد میں غلط معلومات دیں۔ بھارت کی جانب سے بتایا گیا کہ چناب میں 3لاکھ کیوسک تک پانی آئے گا لیکن ایک تو وہ بتائے وقت سے بہت پہلے آ گیا اور دوسرا پانی 3لاکھ کیوسک نہیں، پہلے 9لاکھ تو پھر ساڑھے 11لاکھ کیوسک سے بھی تجاوز کر گیا۔ یوں پاکستان اپنے عوام کو سیلاب سے آگاہ بھی نہ کر سکا کیونکہ اندازہ تھا کہ 3لاکھ کیوسک تک کا پانی قابل برداشت ہو گا لہٰذا زیادہ پریشانی کی ضرورت نہیں ہو گی۔ بھارت چاہتا تو یہ پانی روک کر اور کنٹرول کر کے بھی چھوڑ سکتا تھا لیکن اس نے ایسا بالکل نہیں کیا بلکہ گزشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی پاکستان کو بے پناہ پانی میں بہا کر تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔
بھارت کی طرف سے چھوڑا جانے والا یہ پانی جس طرف بھی جا تا، تباہی مچا تا رہا لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جب یہ خبریں آ رہی تھیں کہ ہمیں ڈبونے اور سیلاب کے ذریعے سے برباد کرنے والا بھارت ہے تو عین اس وقت پاکستان کے وزیراعظم جناب نوازشریف وزیراعظم ہند نریندر مودی کو منہ میٹھا کرنے کے لئے آموں کا تحفہ بھیج رہے تھے۔ حیران کن بات ہے کہ حکومت ایک طرف تو اسلام آباد کے دھرنوں میں پھنسی نظر آتی ہے، اپوزیشن کو ساتھ ملائے رکھنے کیلئے ان کی ہر طرح کی ”گستاخیاں” برداشت کی جا رہی ہیں اور ان کے ناز نخرے اٹھائے جا رہے ہیں لیکن بھارت ایسے دشمن، جناب وزیراعظم، جناب صدر پاکستان یا وزیراعلیٰ پنجاب جن کا صوبہ سب سے زیادہ برباد ہوا ہے، کے خلاف زبان سے کوئی معمولی کلمہ بھی ادا کرنے کو تیار تک نظر نہیں آتے۔ وزیراعظم نے سیلاب زدہ علاقوں کاجب پہلی بار دورہ کیا تو اس موقع پر بھی انہوں نے سیلاب کی وجہ صرف بارشیں قرار دیں اور بھارت کو بالکل ہی نہیں معاملے سے صاف ہی گول کر گئے، جیسے اس کا تو وجود ہی کہیں نہیں ۔حالانکہ اسی روز کے اخبارات میں بھارت کی جانب سے غلط معلومات اور بروقت اطلاع نہ کرنے پر ”معافی” بھی چھپی ہوئی تھی جو ایک روز پہلے مانگی گئی تھی۔ ویسے تو بھارت نے ہمارے ساتھ یہ دوہرا مذاق کیا ہے کہ ہمارے سارے ملک کو پانی میں ڈبو کر کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو دائو پر لگا کر ایک چھوٹے موٹے اہلکار کے ذریعے سے محض معافی مانگ کر ساری واردات سے جان چھڑا لی ہے۔ بلکہ اپنا اخلاقی پہلو زیادہ مضبوط و بہتر کریں،7ستمبر کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی مقبوضہ کشمیر بھی پہنچا جہاں آ کر اس نے پاکستان کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کیلئے مدد کی پیشکش کی جو کہ اس سے بڑا مذاق بلکہ تماشا ہے۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ آپ کسی کو مار مار کر ادھ موا کر ڈالیں اور پھر بعد میں کہنا شروع کر دیں کہ میں آپ کے زخموں پر کچھ مرہم رکھ دوں؟
Hafiz Mohammad Saeed
اس موقع پر جماعت الدعوة پاکستان کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید نے جو سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی کاموں کی ہمہ وقت خود نگرانی کر رہے ہیں اور جن کے ہزاروںجاںنثار آج بھی لوگوں کو بچانے میں مصروف ہیں، کہنے پر مجبور ہو گئے کہ بھارت پانی بھیج کر اور پھر امداد کا جھانسہ دے کر ہمارے ساتھ مذاق نہ کرے۔ وزیراعظم آزادی کشمیر چودھری عبدالمجید کا کہنا بھی بجا تھا کہ اگر بھارت نے کشمیریوں کو کچھ دینا ہے تو وہ انہیں حق خودارادیت اور وہ آزادی دے جو وہ اس سے مانگتے ہیں،انہیں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔
بھارت نے ہمیں پانی میں ڈبونے سے پہلے ہماری سرحدوں اور کنٹرول لائن کو زبردست بمباری کا نشانہ بنا رکھا تھا۔ ہمارے کتنے لوگ شہید ہوئے، کتنی املاک نشانہ بنیں، ہزاروں لوگ علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ ابھی ہم اس مصیبت سے نکلے نہیں تھے کہ بھارت نے سیلاب بھیج دیئے۔ کیا ہم اس سب کے بعد بھی بھارت کی دشمنی اور چالاکی و مکاری سے ہمیں قتل کرنے کی سازش کو نہیں سمجھیں گے؟ بھارت میں اس وقت بی جے پی کی حکومت ہے تو ان کے ملک کا سب سے بڑا اسلام و پاکستان دشمن شخص وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھا ہے، ہمیں اور ہمارے وزیراعظم کو کم از کم اس پارٹی اور اس شخص سے تو کسی خیر کی امید نہیں رکھنی چاہئے اگر ہم بھارت کے ہاتھوں بار بار سیلابوں میں یوں ڈوب ڈوب کر بھی اس کی دشمنی کو سمجھ کر اس کا تدارک نہیں کریں گے تو کب کریں گے۔ جب ہمیں پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو بھارت ہمارے دریائوں پر بنے غیر قانونی ڈیموں کے ذریعے سے پانی روک کر ہمیں بنجر بنانے کی کوشش کرتا ہے اور جب پانی زیادہ ہو جاتا ہے تو پھر انہی ڈیموں سے پانی چھوڑ کر ہمیں ڈبو کر مارتا ہے۔ اس کے بعد تو ہر ذی شعور انسان کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں کہ جب تک ہم بھارت سے اپنے دریا آزاد نہیں کرواتے اس وقت تک ہم یوں ہی کبھی پیاس سے تو کبھی پانی میں ڈوب کر مرتے رہیں گے۔ مسئلہ کا سیدھا اور آسان حل ہے لیکن ہم بھارت کے ساتھ پیار و محبت کی پینگیں بڑھانے میں مصروف ہیں، دوستی و یارانے کی یک طرفہ جبری کوششوں سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ وہی کرنا پڑے گا جس کا تقاضا حالات و واقعات کرتے ہیں۔ پاکستان آنے والے دریائوں کے پانی پر ہماراہی حق ہے اور یاد رکھیے کہ جب کوئی حق دینے پر تیار نہ ہو تو وہ چھین کر ہی لیا جاتا ہے۔