بھارت میں خواتین اتنی غیر محفوظ ہو چکی ہیں کہ سپریم کورٹ کا جج، بھارتی فوج کا میجر بھی خواتین کے ساتھ زیادتی کرنے میں ملوث پائے ہیں۔ بھارت میں اقلیتیں تو پہلے ہی غیر محفوظ تھیں اب خواتین سے زیادتی کی خبروں نے بھارت کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا۔بھارتی خواتین کو عوامی جگہوں، خاندانوں اور دفتروں میں ہراساں اور جنسی تشدد کا نشانہ بنانا ایک معمول ہے ہر جگہ عدم تحفظ کی فضاء ہے۔ عوامی مقامات ہوں یا پھر پبلک ٹرانسپورٹ، عورتوں کو کہیں بھی جنسی طور پر ہراساں کر لیا جاتا ہے یا پھر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔بھارت نے خواتین پر ہونے والے مظالم کے باب میں نہ صرف ہندوستان کیدیگر شہروں بلکہ دنیا بھر کو مثلاً نیویارک ، لندن، پیرس اور بیجنگ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔خوش قسمتی سے یہ بدنام فہرست اسلامی دنیا کے ذکر سے خالی ہے۔نام نہاد ترقی یافتہ اور حقوقِ نسواں کے علمبردار ممالک اس معاملے میں پیش پیش ہیں۔ بھارتی معاشرے میں اب تک جنسی زیادتی کو عورت کے لیے شرمندگی کا سبب تصور کیا جاتا تھا جس کی وجہ سے اس زیادتی کا شکار ہونے والی اکثر خواتین معاشرتی خجالت سے بچنے کے لیے خاموش ہو جاتی تھیں۔مقامی خواتین ہی نہیں بلکہ بیرون ممالک سے آنی والی سیاح خواتین بھی آئے دن اس درندگی کا نشانہ بنتی رہتی ہیں ۔امریکا سے بھارت آئی ایک طالبہ نے کھلے الفاظ میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ”بھارت سیاحوں کے لیے جنت ،پر خواتین کے لیے جہنم۔۔۔”یہ الفاظ ہیں ایک امریکی طالبہ کے، جس نے یہ جملے بھارت کا دورہ کرنے کے بعد لکھے۔ بھارت میں خواتین کی حالت زار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو کہ بھارتی اخبارات میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی کوئی خبر نہ آتی ہو۔بھارت میںاس صورتحال کی ایک بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ بھارتی ”مذہبی” پیشوا بھی اس گھناونے فعل میں ملوث پائے جاتے ہیں۔
جس ملک کے مذہبی پیشوا ہی برائی میں پیش پیش ہوں پھر وہاں سے برائی کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے۔ بھارت میں خواتین کے ساتھ پیش آ.نے والے جنسی زیادتی کے مسلسل واقعات نے ملک کی بڑی سیاحتی صنعت کو شدید متاثر کیا ہے۔ بھارت میں خواتین بھارتی فوج،عدلیہ کے ججوں،سرکاری اداروں میں غیر محفوظ ہیں ،کئی ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں ۔ بھارتی شہر بنگلور میں ایک بھارتی فوجی میجر نے خاتون فوجی افسر کو ہوس کانشانہ بنا ڈالا۔ خاتون فوجی افسر ایک پارٹی سے گھر واپس آئی تو اس کے سینئر فوجی افسر نے اسے فون کر کے ڈرائیو پر جانے کے لیے کہا جس پر خاتون فوجی افسر تیار ہو گئیں اور میجر کے ساتھ چلی گئیں لیکن بھارتی میجر گاڑی کو بنگلور کے پرانے ائیر پورٹ روڈ پر لے گیا جو کہ زیادہ تر سنسان رہتا ہے، بھارتی میجر نے گاڑی کو سنسان سڑک کے کنارے روک کر خالی سڑک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خاتون افسر کے ساتھ زیادتی کر ڈالی۔ بھارتی میجر کو بھارتی پینل کوڈ کی دفعہ 376اور 323 کے تحت مقدمہ درج کر کے گرفتار کر لیا گیا، بھارتی میجر کی گرفتاری 8مارچ کو عمل لائی گئی لیکن21مارچ کو اسے ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ بھارت میں ایسے واقعات پہلے بھی سننے میں آتے رہے ہیں، بھارت کو عورتوں کے لیے دنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دیا جا چکا ہے کیوں کہ وہاں عورتوں کو تحفظ حاصل نہیں ہے۔
بھارت میں جنسی زیادتی اور تیزاب گردی کا شکار بننے والی لاکھوں خواتین بد ترین زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس سے پہلے بھی ایک بھارتی فوج کے افسر کو 19سالہ لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے کیس میں گرفتار کیا گیا ہے اور بھارت سے باہر کابل میں ایک بھارتی سفیر پر بھی جنسی زیادتی کا کیس ثابت ہونے پر اسے ملک بدر کیا جا چکا ہے۔ بھارتی فوج اپنی خواتین کو جنسی ہرانساں کرنے کے حوالے سے دنیا بھر میں بدنام ہے ابھی بھی بنگلور میں پیش اآنے والا یہ واقع اسی بات کا ثبوت ہے۔بھارتی سپریم کورٹ کی سابق اسٹاف ممبر نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ میں جونیئر کورٹ اسسٹنٹ کے طور پر تعینات خاتون نے عدالت کے 22 ججوں کو ایک لیٹر بھیجا جس میں حلف نامہ بھی لگایا گیا ہے. خاتون نے لیٹر میں لکھا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رانجن گوگوئی نے انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا ہے. خاتون نے مزید کہا کہ چیف جسٹس رانجن گوگوئی نیاپنیگھر پر10اور11اکتوبر2018 کوجنسی ہراساں کیا .اور اس کے دو ماہ بعد مجھے نوکری سے نکال دیا گیا. خاتون نے کہا کہ مجھے ،میرے خاندان کو چپ نہ رہنے پرہراساں کیا گیا،نوکری سے برخاست کیاگیا، واضح رہے کہ عالمی ماہرین کی رائے پر مشتمل ایک سروے میں جنسی زیادتی اور جبری مشقت کے واقعات کی بناء پر بھارت کو خواتین کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ملک قرار دے دیا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس فہرست میں پہلا نمبر ظاہر کرتا ہے کہ بھارت میں خواتین کے تحفظ کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جارہے۔۔
بھارت میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں گزشتہ کچھ سالوں میں بہت زیادہ اضافہ دیکھا گیا۔ خاص طور پر 2012 میں دارالحکومت نئی دہلی میں ایک طالبہ کو چلتی بس میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا، جو بعدازاں دوران علاج دم توڑ گئی تھی۔جس کے بعد ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا اور نئی دہلی کو ‘ریپ کیپیٹل’ بھی کہا جانے لگا۔حکومتی اعدادوشمار کے مطابق بھات میں 2007 سے 2016 کے دوران خواتین کے خلاف جرائم میں 83 فیصد اضافہ ہوا ہے، جہاں ہر گھنٹے میں جنسی زیادتی کے 4 کیسز ہوتے ہیں۔بھارت کے نیشنل کرائم بیورو (این سی آربی) کی طرف سے 2018 میں جاری کی گئی ایک رپورٹ میں انکشاف کیاگیا کہ بھارت میں ایک گھنٹے میں دو عورتوں کو آبرورزی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور گزشتہ سال ملک میں آبروریزی کے واقعات میں 7.2فیصد اضافہ ہوا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال 133 معمر عورتوں کو بھی آبروریزی کا نشانہ بنایا گیا .خواتین کو عصمت ریزی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے حوالے سے ریاست مدھیہ پردیش سرفہرست ہے۔ پولیس اور سرکاری اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ سال بھارت میں آبروریزی کے 20737 کیس درج کئے گئے۔
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں 602 عورتوں کو آبروریزی کا نشانہ بنایا گیا، جبکہ ریاست اترپردیش ، مغربی بنگال اور راجستھان میں بھی اسی بارے میں صورتحال انتہائی خراب ہے .ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ، بھارتی ریاست اتر پردیش میں موبائل ری چارج یا بیلنس ڈالنے والی دکانیں لڑکیوں کے موبائل فون نمبروں کو فروخت کر رہی ہیں۔مقامی پولیس کے مطابق ان نمبروں کی قیمت لڑکیوں کی شکل وصورت کے مطابق 50 سے 500 روپے تک ہوتی ہے اور انہیں خریدنے والے لڑکے ان خواتین کو فون کرکے اور دیگر غیر اخلاقی تصاویر بھیج کر تنگ کرتے ہیں۔پولیس نے جن نوجوانوں کو حراست میں لیا ان کے خلاف مقدمہ درج نہیں کرسکی کیونکہ ریاستی قوانین میں فون پر ہراساں کرنا جرم تصور نہیں کیا جاتا۔بھارت کے ایک گاوں میں مردوں سے بات چیت سے خواتین کو روکنے کیلئے ان کے عوامی مقامات پر موبائل فون کے استعمال پر پابندی عائد کردی گئی ہے جبکہ اس کی خلاف ورزی کرنے والی خاتون کو بھاری جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔
گاوں کے بزرگوں نے پابندی لگاتے ہوئے کہا کہ اپنے گھروں سے باہر موبائل فون کا استعمال کرنے والی خواتین کو 21000 روپے جرمانہ ادا کرنا ہوگا. بھارت کے دیہی علاقوں میں یہ رقم جمع کرنے کیلئے لوگوں کو کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔اس قانون کا اعلان بھارت کی شمالی ریاست اتر پردیش کے ایک گاوں مادورا میں کیا گیا ہے،بھارت میں ہر برس جنسی زیادتی کے ہزاروں واقعات کے باوجود بھارتی معاشرے میں انسانیت کے خلاف اس بھیانک جرم کی جڑ تک جانے اور ان پر قابو پانے کے طریقوں پر کبھی کوئی منظم اور موثر بحث نہ ہوسکی۔بھارت کے پالیسی سازوں ،قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس مجرمانہ ذہنیت کو شکست دینے کی کوشش نہیں کی جس نے آج پورے بھارتی معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔جنسی زیادتی کے واقعات بھارتی معاشرے کا غیر پسندیدہ حصہ بن چکے ہیں۔ مجرموں کو سزا دینے کے لئے سو برس پرانے جو قوانین نافذ ہیں وہ اتنے پیچیدہ، اتنے مبہم اور اتنے تکلیف دہ ہیں کہ کوئی بھی شخص اپنی مرضی سے قانون کی مدد نہیں لینا چاہے گا۔