بھارت: پانچ برس میں صحافیوں پر 198 حملے، 40 صحافی ہلاک ہوئے

Protest

Protest

انڈیا (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے پچھلے پانچ برسوں کے دوران کم از کم 40 صحافیوں کو اپنی جان گنوانا پڑی ہے۔ جمہوریت کا چوتھا ستون کہلانے والے صحافت کے شعبے سے وابستہ افراد پر سن 2014 سے 2019 کے درمیان 198 سنگین حملے ہوئے۔ صرف رواں سال میں ان حملوں کی تعداد 36 رہی جب کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جاری مظاہروں کی رپورٹنگ کے دوران صحافیوں پر اب تک چھ حملے ہوچکے ہیں۔

صحافی گیتا سیشو اور اروشی سرکار نے ‘گیٹنگ اوے ود مرڈر‘ کے عنوان سے پچھلے پانچ برسوں کے دوران صحافیوں پر ہونے والے حملوں کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کی ہے، جس میں کئی چونکانے والے حقائق سامنے آئے ہیں۔

رپورٹ میں صحافیوں پر ہونے والے حملوں کے لیے سرکاری ایجنسیوں، سیاسی جماعتوں سے وابستہ افراد، مذہبی جماعتوں سے عقیدت رکھنے والوں، طلبہ گروپوں، جرائم پیشہ گروہوں اور مقامی مافیا کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

جنوبی ایشیائی ممالک میں میڈیا کو سب سے زیادہ آزادی بھوٹان میں حاصل ہے اور اس برس کے پریس فریڈم انڈکس میں بھوٹان 94 ویں نمبر پر رہا ہے۔ گزشتہ برس کے انڈکس میں بھوٹان 84 ویں نمبر پر تھا۔

رپورٹ میں خواتین صحافیوں پر ہونے والے حملوں کا بھی ذکر ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین صحافیوں کو آن لائن ذہنی اذیت دی جاتی ہے اور ‘فیلڈ‘ میں کام کے دوران انہیں ‘زیادتی‘ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

رپورٹ تیار کرنے والی صحافی اروشی سرکار نے اس رپورٹ کے حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا، ”ہماری رپورٹ کا ایک مقصد یہ جاننا بھی تھا کہ کیا جن صحافیوں پر حملے ہوئے ہیں انہیں انصاف ملا یا نہیں؟ اس کے علاوہ ہم یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ صحافیوں پر حملے کے اسباب کیا ہیں؟”

اروشی کا کہنا تھا کہ کسی واقعہ کی رپورٹنگ کے دوران بھی صحافیوں پر حملے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ صحافی کئی مرتبہ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث مافیا یا مجرمانہ امیج والے رہنماؤں کے نشانے پر بھی آجاتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا، ”ہم نے اپنی تحقیق میں پایا کہ کئی طرح کے مافیا صحافیوں پر حملے کررہے ہیں۔ مثلاً ریت مافیا، غیر قانونی کاروبار کرنے والے مافیا وغیرہ۔ کئی مرتبہ تاجر بھی اپنی بدعنوانی کے خلاف ہونے والی رپورٹنگ سے ناراض ہوکر صحافی پر حملہ کرا دیتے ہیں۔”

اروشی نے کہا کہ وہ اس رپورٹ کے ذریعہ دنیا کو یہ بتانا چاہتی ہیں کہ بھارت میں صحافیوں کے لیے کام کرنا کتنا مشکل ہے اور پچھلے چار پانچ برسوں کے دوران صحافیوں کے ساتھ کیسا سلوک ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں صحافیوں پر حملوں کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پچھلے پانچ برسوں کے دوران جن 40 صحافیوں کو ہلاک کیا گیا، ان میں 21 کے سلسلے میں اس بات کی تصدیق ہوچکی ہے کہ انہیں ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کی وجہ سے ہلاک کیا گیا۔ رپورٹ تیار کرنے والوں نے صحافیوں پرحملوں کے جن 63 معاملات کی تفصیلی جانچ کی ان میں صرف 25 کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی۔ 18میں معاملہ ایف آئی آر سے آگے نہیں بڑھا۔ صرف تین معاملات میں چارج شیٹ داخل کئی گئی لیکن معاملہ آگے جا کر رک گیا۔ جب کہ سزا کی شرح تقریباً صفر رہی۔

اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بعض اوقات صحافی اپنے اوپر ہونے والے حملوں کی رپورٹ پولیس میں درج کرانے سے گھبراتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ جس میڈیا ادارے سے وابستہ ہوتے ہیں، وہ ادارہ ان کی قانونی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جاری مظاہروں کی رپورٹنگ کے دوران بھی متعدد صحافیوں کو زیادتیوں کا شکار ہونا پڑا۔ 20 دسمبر کو کرناٹک میں مظاہروں کی رپورٹنگ کے لیے کیرالا سے آئے ساتھ ٹی وی جرنلسٹوں کو پولیس نے سات گھنٹے تک حراست میں رکھا۔ ان صحافیوں کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ ‘مجرموں جیسا سلوک‘ کیا گیا۔ کیرالا کے وزیر اعلی کی مداخلت کے بعد ہی ان صحافیوں کو رہائی مل سکی تھی۔ اسی طرح لکھنؤ میں مظاہروں کے دوران صحافی عمر رشید کو دو گھنٹے تک تھانے میں رکھا گیا اور ان سے غیر ضروری سوالات پوچھے گئے۔

صحافیوں کی تنظیم ‘ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا‘ نے صحافیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے اقدامات ‘جمہوریت کا گلا گھونٹنے‘ کے مترادف ہیں۔

صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم ‘رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ کا کہنا ہے کہ بھارت میں صحافیوں کی حالت بہت اچھی نہیں ہے۔ دنیا میں پریس کی آزادی کے انڈکس میں سن 2019 میں بھارت 180ملکوں میں 140ویں نمبر پر تھا۔