تحریر : مہر بشارت صدیقی پاکستان کشمیر کے بغیر نامکمل ہے اور اس کی تکمیل اس دن ہو گی جب مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کے غاصبانہ قبضہ سے آزاد ہو گا۔ بھارت سرحدوں پر گولہ باری کر کے اور معصوم شہریوں کو نشانہ بنا کر اگر سمجھتا ہے کہ اس کے خوف سے پاکستان اپنے قومی موقف سے پیچھے ہٹ جائے گا تو یہ اس کی خام خیالی ہے، عالمی برادری اور اقوام متحدہ خطے کو جنگ کے شعلوں سے بچانے کیلئے کشمیر کے متعلق قرار دادوں پر عمل درآمد کرائیں۔مودی کی مسلم دشمنی اور انتہا پسندی سے خطے کے امن کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں ،پاکستان میں کسی حکمران کو یہ جرات نہیں ہوسکتی کہ وہ کشمیر پر قومی پالیسی سے انحراف کرے۔ بھارت کیلئے اب ممکن نہیں کہ وہ زیادہ دیر کشمیر پر اپنے قبضہ کو جاری رکھ سکے۔عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیاں اس بات کی نشاندہی کررہی ہیں کہ کشمیری مسلمان بہت جلد پنجہ یہود و ہنود سے آزاد ہونے والے ہیں۔
قومی اسمبلی نے سرحدی خلاف ورزی اور بھارتی جارحیت کے خلاف مذمتی قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور انہیں استصواب رائے کا حق نہ دینے پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ وزیر اعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے واضح کیا ہے دو طرفہ تعلقات کی خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے، مسلح افواج ملک کے دفاع کیلئے پوری طرح تیار اور پوری قوم و ریاستی ادارے یکسو ہیں، ملکی سالمیت پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا یہ ایوان بھارت کی جانب سے ایل او سی اور ورکنگ بائونڈری پر بلا اشتعال فائرنگ کی شدید مذمت کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں 14 افراد کی شہادت اور املاک کے نقصانات پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتا ہے۔ اس کے جواب میں پاک فوج نے جس جرات اور بہادری سے کارروائی کی یہ ایوان پاک فوج کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ یہ ایوان عالمی برادری سے مطالبہ کرتا ہے مسئلہ کشمیر کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل کرانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔
مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سمیت بھارتی طرز عمل اور ایل او سی پر فائرنگ کے معاملے پر ایوان کی تجاویز کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ یہ مسئلہ اتنا اہم ہے کہ صرف وزارت خارجہ اور حکومت میں نہیں پوری قوم کو اس پر آواز بلند کرنی چاہیے کہ ہم ملک پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے’ پاک فوج ملک کے تحفظ اور سلامتی کے لئے پوری طرح تیار ہے۔ دو طرفہ تعلقات کی خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔ کشمیر کوئی مسئلہ نہیں تو پھر کشمیر میں سات لاکھ فوجیوں کی تعیناتی کا کیا جواز ہے اور لائن آف کنٹرول پر آر پار فوجیں ایک دوسرے پر بندوقیں تانے کیوں کھڑی ہیں۔ پاکستان مسئلہ کشمیر کو حل کئے بغیر چین سے نہیں بیٹھے گا۔ بھارتی وزیر اعظم کی تقریب حلف برداری کے موقع پر نواز شریف سے جو ملاقات ہوئی تھی اس میں بھارتی وزیراعظم نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور مذاکرات بحال کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی لیکن اس میں کشمیر کو نان ایشو بنانے کی بات کی تھی تاہم پاکستان کشمیریوں کو نظر انداز کر کے مذاکرات کی گاڑی کو آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔
Narendra Modi and Nawaz Sharif
پاکستان بھارت کی بالادستی قبول نہیں کریگا بلکہ ملکی سالمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتا رہے گا اور اسی بنیاد پر بھارت نے مذاکراتی عمل منسوخ کر دیا۔ہماری پارلیمنٹ کشمیر کے حوالے سے اہم فیصلے لے رہی ہے اور دنیا کے ساتھ بھارت کو بھی آئندہ چند روز کے اندر کڑا پیغام ملے گا۔ بھارت نے رواں سال ورکنگ بائونڈری کی 224 خلاف ورزیاں کی ہیں، یہ ایک سوچا سمجھا اور گیم پلان کا حصہ ہے، پاکستان کی مسلح افواج نے بھارت کو منہ توڑ جواب دیا ہے، بھارت نے چالیس سال میں کبھی مذاکرات کو سنجیدہ نہیں لیا، بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد کشیدگی بڑھ گئی ہے، اس کے عزائم واضح ہو گئے ہیں۔ بھارت جو بھی کر لے کشمیر کی حیثیت تبدیل ہو گی نہ سلامتی کونسل کی قراردادوں پر اثر پڑے گا، بھارت کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالیوں کو بے نقاب کرنے کیلئے بین الاقوامی سطح پر مہم چلائیں گے، امریکہ کی طرف سے سلامتی کونسل کے مستقل ممبر کے لئے بھارت کی حمایت کوئی بات نہیں لیکن وہ کبھی بھی سلامتی کونسل کا مستقبل ممبر نہیں بن سکتا۔ بھارت کا منصوبہ ہے کسی طرح کشمیر کو ہڑپ کرلیں جو کبھی بھی نہیں ہونے دیا جائیگا۔ سیلاب کے موقع پر بھارتی حکومت کی بے حسی پوری دنیا نے دیکھی۔
بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر کو یونین کا حصہ بنانا چاہتی ہے۔ کشمیر کو 3 حصوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بی جے پی مقبوضہ کشمیر کے علاقوں کو بھارت کا حصہ بنانا چاہتی ہے۔ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے بھارت سرحد پر فوجی بنکر تعمیر کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس کی اجازت کسی صورت نہیں دی جائے گی۔ بھارت کئی ہفتوں سے پاکستان کی بین الاقوامی سرحد اور کنٹرول لائن پر جنگ بندی معاہدہ کی خلاف ورزی کر رہا ہے جبکہ پاکستان دفاع کا حق استعمال کرتے ہوئے موثر جوابی کارروائی کر رہا ہے۔ پاکستان نے بھارت کی جارحیت کا معاملہ اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی فورمز پر اٹھایا ہے۔سارک سربراہ کانفرنس 26 اور 27 نومبر کو نیپال میں ہو رہی ہے، وزیراعظم نواز شریف کانفرنس میں شرکت کریں گے تاہم بھارتی وزیراعظم سے ان کی ملاقات کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
پاکستان نے اقوام متحدہ سے کہا ہے وہ اپنے فوجی مبصرین کو متحرک کرے۔ ورکنگ باؤنڈری سے متعلق معاہدے کے تحت بھارت اور پاکستان سرحد کے 500 میٹر اندر تک کسی قسم کی تعمیرات نہیں کرسکتے اس لیے پاکستان بھارت کو ورکنگ باؤنڈری پر نئے بنکرز بنانے کی اجازت نہیں دے گا۔ بھارت جنگ بندی معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر شہری آبادی کو نشانہ بنا رہا ہے، پاکستان نے بھارتی جارحیت کا معاملہ اقوام متحدہ اور دوسرے فورموں پر بھی اٹھایا ہے جبکہ یہ اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے بھارت اور پاکستان کے لیے اپنے فوجی مبصر گروپ کو مزید موثر بنائے۔ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ورکنگ باؤنڈری سے متعلق معاہدے کے تحت بھارت اور پاکستان سرحد کے 500 میٹر اندر تک کسی قسم کی تعمیرات نہیں کرسکتے لیکن بھارت کی جانب سے نئے بنکروں کی تعمیر کی کوشش معاہدے کی خلاف ورزی ہے جس کی پاکستان اجازت نہیں دیگا۔ پاکستان کے بھارت کے ساتھ تنازعات ان بنیادی معاملات پر مبنی ہیں جنہیں بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔قومی اسمبلی میں بھارتی جارحیت کے خلاف قرارداد کی منظوری خوش آئند ہے بھارت کو اس کی زبان میں جواب دینے سے ہی پاکستان مستحکم ہو گا۔