تحریر : شہزاد سلیم عباسی 13 جولائی 1933 کو ایک ایسا دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا جس میں سینکڑوں کشمیری سری نگر سینٹرل جیل کے سامنے جمع ہوئے ۔یہ لو گ نوجوان عبد القدیر سے اظہار یکجہتی کے لیے نکلے تھے جسے ڈوگرہ راج نے بغاوت کا الزام لگا کر گرفتار کیا تھا۔ اس دوران نماز کا وقت ہوا اور اجتماع میں سے ایک نوجوان اٹھا اوراذان دینے لگا،ڈوگرہ سپاہیوں نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا، مسلمان کی اذان ادھوری رہی ۔پھر ایک دوسرا نوجوان جذبہ اسلام سے اٹھا، اذان کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا وہی سے دوبارہ جوڑ ا اور پھر اس نہتے کشمیری کو بھی شہید کر دیاگیا حتی کہ 22 کشمیریوں کی شہادت کے بعد اذان مکمل ہوئی۔کہتے ہیں دنیائے اسلام کی یہ واحد اذان تھی جسے بائیس مسلمانوں کی شہادتوں کا شرف حاصل ہوابائیس شہیدوں کا خون بہا اور اذان مسلماں مکمل ہوئی۔وہ دن اورآج کا دن کہ جذبہ جدو جہد آزادی اور اسلام سے محبت کی چنگاری کبھی ٹھنڈی نہ ہوئی اور نہ ہی کوئی محبوبہ مفتی یا دوسری کٹھ پتلی حکومت اسے ماند کر سکی۔
بھارت کا 68 سال سے کشمیر پر غاصبانہ قبضے کے نتیجے میں 500,000 سے زائد لوگ موت کی نیند سو گئے ۔اس بار بھارتی جنتا پارٹی نے اپنے مکرو فریب کے جال سے کشمیری عوام کو لولا، لنگڑااور اندھا کرنے کی ناپاک سازش کی۔حریت رہنما آسیہ اندرابی کا کہنا ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کو کچلنے کے لیے 120 سے زیادہ بچوںکی آنکھیں نکالی گئیں ۔نوجوان عبد القدیر کی اذان کے ٹھیک 92 سال بعدبرہان وانی شہیدنے سر اٹھایا ہے اور اسے بھی کر دیا گیا ہے لیکن اب کی بار کوئی خاموش نہیں بلکہ ہر شخص کشمیر میں سڑک پر ہے ۔تحریک آزادی سے نمٹنے کے لیے بھارتی کٹھ پتلی سرکار مودی کی ایما ء پر سیدھی گولیاںبرسا کر بے گناہ معصوم کشمیریوں کا قتل عام کررہی ہے۔
برہان الدین وانی کی شہادت سے بلا شبہ آزادی کی تحریک میں ایک جان ڈل گئی ، انکی شہادت پر سینکڑوں کشمیروں نے اپنی جانوں نظرانہ دیکر کر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اب کوئی مذموم ارادے اور تابے بانے مقبوضہ کشمیر کے عوام کے فولادی عزم و حوصلہ کو متزلزل نہیں کر سکتے۔پچھلے 4 ماہ میں تو ایل او سی اور ورکنگ بائونڈی پر بھارتی جارحیت جاری ہے جس سے اب تک پچاس سے زائد پاکستانی شہید ہو چکے ہیں۔پہلی بار نواز شریف نے کشمیریوں کا موقف یواین اسمبلی میں لڑااوراقوام متحد ہ کی گزارشات، سفارشات اور قراردادوں کا حوالہ دیا۔
General Raheel Sharif
وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم انسانی بنیادی حقوق کی روشنی میں مضبوط انداز سے کشمیر کا مقدمہ لڑیں۔آل پارٹیز کانفرنس بلا کر تمام جماعتوں کے نمائندوں کوا عتمادلیں ۔ دائیں اوربائیں بازئوں کی جماعتوں کو کشمیر ایشو پر بریفنگ دی جائے ۔کشمیر سے بھارتی فوج کے انخلا ء پر بات کی جائے۔مولانا فضل الرحمان کی کشمیر کمیٹی کی سیٹ پر از سر نو غور کر کے ایسا سیاستدان لگایا جائے جو نہ صرف کشمیری مسائل سے شناسا ئی رکھتا ہوبلکہ سفارتی معاملات اور انسانی حقوق سے آگاہ ہو بلکہ انگلش زبان پر عبوراوربھارت، امریکہ اور اقوام متحدہ میں اپنا اثر ورسوخ رکھتا ہو۔ سینٹر مشاہد حسین، حنا ربانی کھر، مشاہد حسین سید،خورشید قصوری اورعبد الغفار عزیز، ڈاکٹر شہزاد وسیم اسکی بہترین مثالیں ہیں۔
جنرل راحیل شریف عز م وہمت کی وہ مثال ثابت ہوئے ہیں کہ دو عشروں کی تاریخ میں کسی بھی آرمی چیف کی یہ پہلی شاندار اور با کمال رخصتی ہے جسے ہر طبقہ فکر، حکومت اپوزیشن اور خود فوج نے بھی سراہا ہے جو کہ صد لائق تحسین اور قابل تقلید عمل ہے ۔ امریکہ سے تعلقات ہوں ، چائینہ، روس، بھارت ،برطانیہ ، ایران، سعودیہ ، ترکی یا کوئی دوسرا ملک ، جنرل راحیل شریف نے ہر معاملے پر حکومت اور اپنے ملک کو سپورٹ کیا۔جنرل راحیل شریف کے کئی بڑے کارنامے ہیں جن کی بدولت آپ کو قوم کا محسن کہا گیا ۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے فوج کا تشخص بحال کرنے میں جو کردار دا کیا اور جس بہادری سے دہشت گردوں کا قلع قمع کیا، اس کیلئے وہ ہمیشہ اچھے الفاظ میں یاد رکھے جائیں گے۔ملک کی سرحدو ں کو محفوظ کیا ۔سی پیک جیسے عظیم منصوبے پر موجودہ حکومت کی ہر طرح سے مدد کی۔ بلوچستان میںسال ہا سال سے بگڑے حالات کو درست کیا۔
وزیراعظم ہائوس میں جس خوبصورتی سے وزیراعظم میاں نواز شریف نے آرمی چیف کا الوداعی عشائیہ میں استقبال کیااور پھر رخصت کیا ، بے مثال ہے۔ شنید ہے کہ جنرل راحیل شریف کے سامنے سعودی عرب کے قائم کردہ 34 ملکی فوجی اتحاد کی سربراہی یا سعودی عرب کے ملٹری ایڈوائزر کی پیشکش موجود ہے۔ جس انس و محبت اور پیار سے جنرل راحیل جارہے ہیں ، دعا ہے کہ آنے والے آرمی چیف بھی ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں کام کریں۔ تمام لیفٹننٹ جنرلز کی سنیارٹی تقریباً ایک جیسی ہے البتہ ہر ایک کی مہارت،پس منظر، شخصیت اور ساکھ یقیناً الگ الگ ہے۔چاروں سینئرز زبیر محمود حیات، اشفاق ندیم، جاوید رمدے اور قمر جاوید باجوہ، کا تعلق باسٹھویں پی ایم اے لانگ کورس سے ہے۔بری فوج کے سربراہ کو فوج کی کمان کا منصب سنبھالتے ہی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر پڑوسی ملکوں کے جارحانہ عزائم کا سامنا کرنا ہوگا۔دہشت گردی کی لعنت سے چھٹکارا، مودی حکومت کی شاطر پالیسیوںاور کشمیر میں سنگین صورحال اور سی پیک کی بحفاظت تکمیل کے چیلنجز بھی سامنے ہونگے۔