تحریر : صباء نعیم وزیراعظم نواز شریف نے بھارتی فوج کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر تازہ ترین خلاف ورزیوں کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ بھارت کی عسکریت پسندی اور جنگ جویانہ مہمیں مسئلہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش ہے۔ انہوں نے بھارت کو متنبہ کیا ہے کہ وہ کسی غلط فہمی میں نہ رہے’ ہم مادر وطن کے دفاع کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں’ دریں اثناء آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے گزشتہ روز بھارتی جارحیت کے نتیجے میں شہید ہونے والے سات جوانوں کی نماز جنازہ میں شرکت کے بعد اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ ہر قیمت پر ملک کے دفاع اور تحفظ کے لیے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی جائے گی۔
بھارت حد سے بڑھ گیا ہے’ آئے روز کی فائرنگ سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کو کسی بڑی جنگ میں گھسیٹنا چاہتا ہے۔ اگر اب تک سرحدی جھڑپوں نے کسی خونی یا آل آئوٹ تصادم کی شکل اختیار نہیں کی تو اس میں پاکستان کے صبر و تحمل کا اہم اور بنیادی کردار ہے جو بھارت کی ہر فائرنگ پر یہ سمجھ کرہائی کمشنرز کے توسط سے احتجاج پر اکتفا کر رہا ہے کہ شاید بھارت برصغیر کے امن کو تباہ کرنے کی کوششوں سے باز آ جائے۔ لیکن برداشت کی ایک حد ہوتی ہے۔ کوئی غیور قوم برداشت نہیں کر سکتی کہ اس کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری چیلنج ہوتی رہے’ اور وہ خاموش رہے۔ خود پاک فوج بھی اس صورتِ حال پر سخت مضطرب ہے۔ ساتھی فوجیوں کا خون بہتا دیکھ کر ہر فوجی کا خون کھول رہا ہے۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ سات فوجی براہ راست بھارتی جارحیت کا نشانہ بن جائیں اور وہ خاموش رہیں۔ سرحدوں پر جھڑپیں اور فائرنگ محض اتفاق نہیں یہ سلسلہ کافی عرصہ سے جاری ہے۔ اس عرصے میں بھارت کی بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری سے سرحدی دیہات کے دو درجن سے زائد بے گناہ شہری شہید اور ایک سو سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
Firing by Indian Army at LoC
مکانوں’ فصلوں اور ڈھور ڈنگروں کی ہلاکت کی صورت میں ہونے والا کروڑوں روپے کا نقصان الگ ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم مسئلے اور صورتِ حال کی سنگینی کی طرف عالمی اداروں اور بین الاقوامی برادری کی توجہ دلائیں۔ دو تین روز پہلے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے بتایا تھا کہ کنٹرول لائن پر بھارتی فائرنگ کے بارے میں احتجاجی یادداشتیں امریکہ کو بھجوائی جائیں گی’ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے’ اگر یہی یادداشتیں دوسرے بڑے ممالک اور دوست ملکوں تک بھی پہنچا دی جائیں تو اس طرح انہیں بھی مسئلے کی سنگینی سے آگاہی ہو جائے گی۔ انہیں پاکستان کی اس تشویش سے آگاہ کیا جائے کہ دو ایٹمی قوتوں میں کشیدگی خطے کے امن کے لیے تباہ کن ہو گی اور یہ کہ بھارتی اقدامات سٹرٹیجک غلطی کا باعث ہو سکتے ہیں اور یہ بھی کہ پاکستان کب تک دفاعی پوزیشن پر بیٹھا رہے گا۔
عالمی برادری کو یہ بھی بتا دیا جائے کہ بھارت کی جارحیت کسی اشتعال کے بغیر ہے۔سرحدوں کی موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے بعض تجزیہ کاروں کے یہ خدشات بھی بے بنیاد نہیں’ کہ ”بھارتی طرز عمل ظاہر کر رہا ہے کہ وہ بڑی جنگ کی تیاری میں ہے” اور سرحدی جھڑپیں پاکستان کو اکھاڑے میں گھسیٹنے کی کوشش ہیں۔ اگر خدانخواستہ تصادم کی نوبت آ گئی تو لڑائی محض روایتی ہتھیاروں تک محدود نہیں رہے گی۔ پاکستان اپنے دفاع کے لیے ہر وہ ذریعہ اور وسیلہ اختیار کرے گا جو بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے سکے۔
مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ تقریباً چار ماہ سے جاری آزادی کی تحریک اس قدر زور پکڑ گئی ہے کہ بھارت اس پر قابو پانے یا اس کی شدت کم کرنے سے قاصر ہے۔ وہ پاکستان کو بھی کشمیریوں کی اخلاقی’ سیاسی اور سفارتی مدد سے روک نہیں سکتا۔ کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق پاکستان تنازع کشمیر میں ایک فریق اور کشمیریوں کو حق خودارادیت دلانے کا پابند ہے۔ بھارت کشمیر کو مقبوضہ علاقہ سمجھ بیٹھا ہے ‘ کشمیر کو اٹوٹ انگ فرض کر لینے کی غلطی ہی بنائے فساد ہے۔ بھارت کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے پر آمادہ ہو جائے’ تو سارے جھگڑے ختم ہو جائیں اور برصغیر امن کا گہوارہ بن جائے۔ بھارت کو اس راہ پر لانے کے لیے پاکستان کے اندر مکمل ہم آہنگی اور یکجہتی کا ہونا ضروری ہے۔ اندریں حالات سول اور ملٹری گیپ ختم کیا جائے۔ بھارتی جارحیت کا سفارتی سطح پر مقابلہ سیاسی حکومت ہی کر سکتی ہے’ فوج نہیں۔