تحریر : انجینئر افتخار چودھری ویسے آج ایک معروف اینکر پرسن نے کہا کہ اڑی سیکٹر میں ہونے والے واقعے پر بھارت سخت غصے میں ہے ان کا کہنا تھا ککہ اس غصے کی وجہ سے وہ محدود سٹرائیکس کرسکتا ہے ۔معروف اینکر نے یہ بتایا کہ یہاں پاکستان میں ایک ایسہ طبقہ سامنے آیا ہے جو بھارت کے غصے کو ٹھنڈہ کرنے کے لئے ایک تجویز سامنے لایا ہے اور وہ ہے کہ اسے کسی غیر معروف جگہ پر حملہ کرنے کی اجازت دے دی جائے۔کیا منطق اور اور فلسفہ ہے دنیا کو ایٹمی جنگ سے بچانے کے لئے انڈیا کو اجازت دی جائے کہ وہ پاکستان پر حملہ کر کے اسے نقصان پہنچایا جائے۔ہم سب ہی پاکستان کو ماں کہتے ہیں اور کون ہیں وہ مردار جو ماں کو محدود پیمانے پر بھارت کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔تف ہے لعنت ہے ایسے بے ضمیر بے غیرتوں پر۔جو قوم غیرت کے نام پر قتل کرتی ہے وہ قتل ہو بھی سکتی ہے۔ہم نے کب کہا ہے کہ لڑائی ہو۔ہمیں بھی علم ہے کہ اس کے نقصانات کیا ہیں؟لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کی سپرمیسی مان لی جائے؟۔
انڈیا میں صرف ایک کشمیر ہی نہیں جل رہا وہاں کی متعدد ریاستیں آزادی کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں۔واہ کیا منطق ہے؟ اڑی سیکٹر میں ہونے والا حملہ ،ابھی تک یہ نہیں فیصلہ ہو سکا کہ کس نے کیا ہے؟خود بھارت میں سوال اٹھا دئے گئے ہیں کہ پاکستان پر الزام لگانے سے پہلے ثابت تو کریں کہ پاکستان نے یہ حملہ کیا ہے،کروایا ہے؟بھارت کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ اس نے دنیا کو ڈرا کے رکھ دیا ہے کہ پاکستان نے در اندازی کر کے تیسری عالمی جنگ کے لئے فلیش پوئینٹ میں حرکت پید ا کر دی ہے اور ایٹمی لڑائی کسی لمحے بھی ہو سکتی ہے۔انڈینز کی پالیسی چانکیہ کی پالیسی ہے۔
کہتے ہیں گوئبلز نے بھی روحانی طور پر چانکیہ کو اپنا استاد مان لیا تھا۔کسی زمانے میں جھوٹ کی نانی آکاش وانی کہا جاتا تھا اب تو کئی آکاش وانیاں بن گئی ہیں۔اور خیر سے ہمارے سنپولئے چینیلز بھی روٹی ٹکڑ کے لئے واہگہ پار کی بولی بولتے ہیں۔ان فسادیوں سے پوچھ لیں آپ کی ماں دھرتی یہی پاکستان ہے نا؟۔
Kashmir Curfew
جس طرح یہاں پاکستان میں کہا جاتا ہے ناں ہنگامے دھماکے جو مرضی کر لو رسیدیں دکھائو اسی طرح کشمیریوں نے تہیہ کرلیا ہے کہ ابھی ورنہ کبھی نہیں۔ان کی جو جہد جاری ہے اڑھائی ماہ ہو گئے ہیں کرفیو لگا ہوا ہے اور وہ شیر کے بچے لڑ رہے ہیں ایسی لڑائی تو فلسطینیوں نے بھی نہیں لڑی کشمیری اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔یہاں ایک منفی سوچ کا اظہار کر کے پاکستان کی اخلاقی مالی جانی مدد کو دھتکارا گیا اور حزب المجاہدین اور خاص طور پر حافظ سعید کی طرف توپوں کا رخ موڑ دیا گیا۔اس میں سوچی سمجھی سازش کرنے والے اور چند بھولے قسم کے لوگ بھی میدان میں آ گئے ان کے الفاظ کسی لبرل فسادئیے کے لفظوں سے کم نہ تھے۔
یرت کی بات ہے قربانی ادھر والے دے رہے ہیں اور یہاں کچھ لوگ ان کی قربانیوں کے ٹھیکے دار بن کراپنے قلم زبان سے پاکستان کے حساس اداروں کو کسی اور کی آڑ میں نشانہ بنانے میں لگ گئے ہیں۔یارو!کشمیری کشمیریوں کا تو ہے ہی لیکن پاکستان کی ڈومین میں رہ کر کشمیریوں کا ہے۔ہم پاکستانیوں کو الگ کرنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہم نے تو کشمیری لوگوں کو اس وقت خوش آمدید کہا جب وہ ڈوگرا سامراج کے ظلم کا شکار ہو کر آئے۔اور ویسے بھی سری نگر کی منڈی راولپنڈی ہی ہوا کرتی تھی۔ہم عجیب لوگ ہیں ٧٠ سال کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ الاپتے ہیں اور اس طویل مدت کے بعد کہتے ہیں ہم غلط تھے۔
تقسیم ہند کا غیر مکمل ایجینڈہ مکمل ہو گا اور وہ ہو گا کشمیر بنے گا پاکستان سے۔یہاں مجھے پاکستانیوں کی قربانیوں کا تذکرہ نہیں کرنا۔یہ بات تو اللہ نے کیا اگر آزادی ملی توسری نگر میں جا کر بات ہو گی۔جو میں سمجھتا ہوں نائن الیون کے بعد یہ منزل دور سی ہو کر رہ گئی ہے۔ادھر دشمن اتنا چالاک ہے اس نے اپنے لوئر درجے کے فوجی مار کر الزام پاکستان پر لگا دیا۔کشمیریوں کی جدوجہد نے برہان وانی کی شہادت کے بعد ایک نیا رخ ااثر ختیار کیا ہے۔یہ اس خونی لکیر کے پار کے کشمیریوں کی کوشش تھی۔ادھر والے تو گزشتہ الیکشن میں خون تو اس پار والوں جتنا دیا ہے لیکن آپس میں لڑتے ہوئے۔کشمیر بنے گا پاکستان۔