نیپال (اصل میڈیا ڈیسک) نیپال کے وزیر دفاع نے اپنے ملک کے حوالے سے بھارتی آرمی چیف کے بیان کو نیپال کی توہین قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے بیانات نیپال کی تاریخ کو نظرانداز کر کے ہی دیے جا سکتے ہیں۔
ایک ایسے وقت جب بھارت اور نیپال کے درمیان سرحدی تنازع کے حوالے سے تعلقات کشیدہ ہیں، نیپال نے بھارتی آرمی چیف منوج مکند ناروانے کے بیان پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک فوجی سربراہ کو سیاسی نوعیت کے بیانات سے گریز کرنا چاہیے۔ نیپالی وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ بھارتی آرمی چیف نے نیپال کی توہین کی ہے۔
بھارت کے بعض میڈیا اداروں کے مطابق نیپال کے وزیر دفاع ایشور پوکھریال نے ایک مقامی اخبار سے بات چیت کرتے ہوئے بھارتی فوجی سربراہ کے بیان پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بیان سے نیپالی نژاد بھارت کے گورکھا فوجیوں کے جذبات کو بھی ٹھیس پہنچی ہے۔ انہوں نے کہا، ”یہ بیان نیپال کے لیے انتہائی توہین آمیز ہے۔ یہ بیان نیپال کی تاریخ، اس کی معاشرتی خصوصیات اور آزادی کو نظرانداز کر کے توہین کرنے کے لیے ہے۔ اس سے، بھارتی آرمی چیف نے نیپال کے ان گورکھا فوجیوں کے احساسات کو بھی ٹھیس پہنچائی ہے، جنہوں نے بھارت کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ اوراب بھارتی جنرل کے لیے گورکھا فوجیوں کے سامنے سر اونچا کر کے کھڑا ہونا بھی آسان نہیں ہوگا۔”
نیپالی وزیر دفاع نے یہ باتیں مقامی اخبار ‘دی رائزنگ نیپال’ سے بات چیت کے دوران کہیں۔ بھارتی آرمی چیف جنرل منوج مکند ناروانے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ نئے راستے کی تعمیر کے حوالے سے نیپال ” کسی دوسر کے کہنے پر” اعتراضات کر رہا ہے۔ بھارتی فوجی سربراہ کا اشارہ واضح طور پر چین کی طرف تھا۔ نیپال کا کہنا ہے کہ اس طرح کا بیان نیپال کی خودمختاری پر سوال اٹھانے کے مترادف ہے۔
بھارت نے پہاڑی ریاست اترا کھنڈ میں نیپال اور چین کی سرحدسے متصل متنازعہ علاقے میں اسّی کلو میٹر طویل ایک نئی سڑک تعمیر کی ہے۔ یہ راستہ اترا کھنڈ کو تبت کی سرحد پر لیپو لیکھ درّے سے جوڑتا ہے۔ نیپال کا کہنا ہے کہ لیپو لیکھ درہ اس کا اپنا ہے جبکہ بھارت نیپال کے اس دعوے کو مسترد کرتا ہے۔ اس ماہ کے اوائل میں بھارت نے جب اس سڑک کا افتتاح کیا تو نیپال نے یہ کہہ کر سخت اعتراض کیا تھا کہ یہ اس کی سرزمین پر بنایاگیا ہے اور وہ اپنی ایک انچززمین بھی بھارت کو دینے کے حق میں نہیں ہے۔
نیپال نے حالیہ دنوں میں اس روڈ کی تعمیر کے رد عمل میں بھارت مخالف کئی سخت بیانات دیے اور پارلیمان میں بحث کے دوران نیپالی وزیر اعظم نے بھارت پر سخت الفاظ میں تنقید کی تھی۔ اس سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ہی بھارتی آرمی نے اشارتاًیہ بیان دیا تھا کہ نیپال یہ سب کچھ چین کے کہنے پر کر رہا ہے۔
نیپالی وزیر دفاع نے بھارتی فوجی سربراہ کے اس بیان پر کہا، ”فوجی سربراہ کی حیثیت سے سیاسی بیان بازی کس قدر پیشہ وارانہ بات ہے؟ ہمارے یہاں تو اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہے۔ نیپال کی فوج تو ایسے معاملات پر شور نہیں مچاتی ہے۔ فوج اس طرح کی باتوں سے گریز کرتی ہے۔”
نیپال کا کہنا ہے کہ سن 1816 میں اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے جو معاہدہ کیا تھا اس کے تحت مغرب میں دریائے کالی تک اس کی سرحد ہے اور دریا سے متصل مشرق میں جو بھی زمین ہے وہ نیپال کا حصہ ہے۔ نیپال نے اس سلسلے میں حال ہی میں اپنا نقشہ بھی بدلا ہے اور متنازعہ علاقوں کو اپنے نئے نقشے میں شامل کیا ہے۔ لیکن بھارت نیپال کے ان دعوں کو مسترد کرتا ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ متنازعہ علاقے میں جو نئی روڈ تعمیر کی گئی ہے وہ دفاعی نکتہ نظر سے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس نئی سڑک کی مدد سے بھارت کو اب نیپال اور چین کے ساتھ مشترکہ سرحد تک براہ راست رسائی حاصل ہوگئی ہے۔
دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روایتی طور پر بھارت اور نیپال کے درمیان تعلقات بہت اچھے رہے ہیں لیکن بھارت کی موجودہ خارجہ پالیسی کچھ ایسی ہے کہ تقریباً تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ پاکستان کے ساتھ تو پہلے سے کشیدگی تھی اور آج کل چین اور بھارت کی فوجیں آمنے سامنے کھڑی ہیں۔ نیپال کے ساتھ بھی رشتے بگڑتے جا رہے ہیں جبکہ سری لنکا کے ساتھ بھی پہلے جیسی بات نہیں رہی۔