مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔کشمیری قوم ہے کہ قربانیاں دینے کے باوجود پاکستان سے رشتہ کیا کے نعرے لگا رہی ہے۔ بھارت کا کوئی حربہ کشمیریوں کو انکے مقصد، جدوجہد آزادی سے دور نہیں کر سکا۔
بھارت فوج نے کشمیری نوجوانوں کواٹھا اٹھا کر لاپتہ کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے تا کہ تحریک آزادی کمزور ہو۔1996ء میں بھارتی فوج کے ہاتھوں لاپتہ ہوجانے والے مقبوضہ کشمیر کے وسطی ضلع بڈگام کے غلام محی الدین کا آج تک کوئی سراغ نہیں ملا ، باپ کے دیدار کیلئے جواں سال بیٹی شاہینہ بانو آج بھی اْس راہ کو تک رہی ہے جہاں سے فوج کی 20 آر آر اسے لے گئی تھی۔
شاہینہ کا ارباب اقتدار سے سوال ہے کہ اس کا باپ کہاں ہے اور کیوں فوج سے اس بارے میں دریافت نہیں کیا جاتا، ڈور بڈگام کی شاہینہ نے بتایا کہ سال 1996ء میں اْس کے والد غلام محی الدین ڈار کو اس وقت فوج کی 20 آر آر گھر سے اٹھا لے گئی جب وہ گھر کا کام کررہے تھے، اس نے بتایا کہ آر آر سے وابستہ اہلکاروں نے اْن کے مکان پر چھاپہ مارا اور ایک میجر جس نے اپنا نام سلیم خان رکھا تھا، نے اہلکاروں کو حکم دیا کہ اس آدمی کو گاڑی میں ڈالو، اس کا کہنا تھا ” ہم چیخ و پکار کرتے رہے کہ ہمارے والد کو چھوڑ دو لیکن ہمارے رونے کی آوازیں فوج نے نظر انداز کر کے ہمارے والد کر اٹھا کر اپنے ساتھ لیا اور تب سے اب تک اْن کا کوئی اتہ پتہ نہیں”، شاہینہ نے بتایا 18 سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی والد کا کوئی پتہ نہ چل سکا ہے۔
میری والدہ حاجرہ بیگم اور چھوٹا بھائی فاروق احمد ڈار کئی مرتبہ اْن کی تلاش میں پولیس اسٹیشن اور فوجی کیمپ گئے لیکن صرف یہی کہا گیا کہ وہ جلد آجائے گا، شاہینہ کا کہنا ہے کہ اگر اس کے والد زندہ ہیں تو کہاں ہیں اور اگر ان کو مار دیا گیا ہے تو اْن کی لاش کیوں ابھی تک واپس نہیں کی گئی۔
شاہینہ نے بتایا کہ انہوں نے اپنے والد کی تلاش کے سلسلے میں کئی مرتبہ حکومت سے بھی گزارش کی لیکن صرف یقین دہانیوں کے سوا کچھ نہیں ملا، ہم انصاف چاہتے ہیں اور جس فوجی افسر نے میرے والد کو اپنے ساتھ لیا اْس کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں، شاہینہ کو شکایت ہے کہ ان کی مدد کسی نے نہیں کی اور ہر ایک جگہ سے انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا، اس کا کہنا ہے کہ والد کے چلے جانے کے بعد گھر کا نظام بری طرح سے متاثر ہوگیا اور اہل خانہ در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگئے، شاہینہ نے کہا کہ اس وقت ہمارے گھر میں میرے علاوہ 4 بہنیں اور ایک چھوٹا بھائی ہے۔
والد کا سر سے سایہ اٹھ جانے کے بعد بھائی نے محنت مزدوری کر کے ہمارا پیٹ پالا لیکن مہنگائی کے اس دور میں کمسن بھائی کیلئے سب لوگوں کی کفالت کرنا مشکل ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس کی والدہ حاجرہ بیگم والد کا انتظار کرتے کرتے تھک ہار چکی ہے اور وہ ہمیشہ یہی دہائی دیتی رہتی ہے کہ اگر وہ زندہ ہیں تو واپس کیوں نہیں آتے اور اگر مار دیا گیا ہے تو لاش کیوں نہیں دی جارہی ہے، شاہینہ کہتی ہیں اب 20 آر آر کے کیمپ کا بھی کوئی پتہ نہیں جسے کہیں دوسری جگہ منتقل کردیا گیا ہے کہ نہ جانے والد کو لیجانے والے فوجی اہلکار کہاں ہیں اور ان کا کیمپ کہاں گیا، ہمیں اس بارے میں بھی کوئی پتہ نہیں۔انسانی حقوق کے حکومتی کمیشن میں گزشتہ 15 برسوں کے دوران 6 ہزار کیس دائر کئے گئے ہیں جبکہ اس مدت میں انسانی حقوق کے اس ادارے نے 5 ہزار کے قریب کیسوں میں اپنی سفارشات پیش کر کے ان کو نمٹا دیا۔
Kashmir
ریاست میں انسانی حقوق کمیشن میں دائر کئے گئے ان کیسوں میں سال 2007ـ08 کے دوران سب سے زیادہ 716 کیسوں سے متعلق عرضی دہندگان نے اس ادارے کا دروازہ کھٹکھٹایا جبکہ 2003ـ04 کے دوران سب سے کم 152 کیس کمیشن میں دائر کئے گئے دستاویزات کے مطابق درج کئے گئے کیسوں میں ابتدائی سال کے دوران 51 جبکہ 1998ـ99 میں 227 اور اس کے ائندہ برس میں 309 کیس درج کئے گئے جبکہ سال 2001ـ02 کے دوران 395 کیس درج کئے گئے ادھر اس کے آئندہ سال 474 اور 2003ـ04 کے دوران مجموعی طور پر 482 عرضی دہندگان نے اس ادارے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ سال 2004ـ05 کے دوران 406 جبکہ اس کے آئندہ سال 312 کیسوں کو درج کیا گیا سال 2006ـ07 کے دوران 366 کیس ایس ایچ آر سی میں درج کئے گئے اور یہ کہ سال 2008ـ09 کے دوران مجموعی طور پر 404 شکایت دہندگان نے اس کمیشن میں اپنی عرضی دائر کی موجو مخلوط سرکار کے ابتدائی دال کے آعآز مین کیسو467 سے متعلق عرضی اس کمیشن میں دی گئی اس سلسلے میں سال 2010ـ11 کے دوران 300 اور اس کے آئندہ سال 463 کیس درج کئے گئے۔
جبکہ گزشتہ برس کے دوران 485 کیسوں سے متعلق ادارے نے درخواستیں وصول کی اس سلسلے میں دستیاب اعدادو شمار کے مطابق لاپتہ کئے گئے افراد کی تحقیقات سے متعلق 784 کیسوں میں بشری حقوق کے ریاستی کمیشن کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا گیا جبکہ اس مدت کے دورنا ہراساں کرنے سے متعلق 963 کیس بھی درج کئے گئے۔ 15 سالوں کی مدت کے دوران اگرچہ 1191 فراد نے ایکس کریشا حاصل کرنے کے لئے کمیشن کے پاس رجوع کیا تاہم 237 حراستی ہلاکتوں کے لئے بھی بشری حقوق کے انسانی کمیشن میں باز گشت سنائی دی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ 1997ـ98 سے قید خانوں سے رہائی کے لئے 290 عرضیاں کمیشن نے وصول کی جبکہ عصمت ریزی کے 65 واقعات کی طرف بھی کمیشن کو شکاتیں موصول ہوئیں۔
دیگر کیسوں میں قتل کے حوالے سے 203 درخواستیں کمیشن میں جمع کرائی گئی جبکہ دیگر اموات کی 361 کیسوں میں بھی کمیشن کے پاس رجوع کیا گیا۔ ادھر ان 15سالوں کے دوران بشری حقوق کے ریاستی کمیشن میں ناجائز قبضے کو ہٹانے کے لئے 39 درخواستیں بھی موصول ہوئیں جبکہ 290 افراد نے مختلف محکموں میں معاوضے کے طور انہیں تعینات کرنے کے لئے بھی کمیشن کے دروازے پر دستک دی ادھر سیکورٹی کی فراہمی کے لئے 52 جبکہ ملازمت کے مسائل سے متعلق 181 اور کرایہ کیسوں کے 51 عرضیاں بھی کمیشن کو موصول ہوئیں۔
اس دوران مختلف تحقیقاتوں سے متعلق 368 درخواستیں اور اغواء کاری کے 16 معاملوں کے علاوہ 776 دیگر معاملات کے لئے بھی بشری حقوق کے ریاستی کمیشن کے سامنے رجوع کیا گیا۔