ممبئی (جیوڈیسک) یہ سوال اس لیے پیدا ہو گیا ہے کہ ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر رہنما اور بھارت کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ نے دعویٰ کر دیا ہے کہ بھارتی فوج ’’مودی جی کی سینا (فوج) ہے‘‘۔
شدت پسند تنظیم ہندو یووا واہنی کے بانی اور ماضی میں اشتعال انگیز تقریروں کے باعث تنقید کی زد میں رہنے والے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ اپنے مذکورہ دعوے کے بعد الیکشن کمیشن کی پکڑ میں آگئے ہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ موجودہ اور سابق فوجی افسران نے یوگی کے بیان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ بھارتی بحریہ کے سابق سربراہ ایڈمرل ایل رام داس نے الیکشن کمیشن سے باضابطہ طور پر شکایت کی ہے۔
یوگی نے سابق آرمی چیف اور امور خارجہ کے نائب وزیر جنرل(ریٹائرڈ) وی کے سنگھ کی حمایت میں قومی دارالحکومت دہلی سے ملحق غازی آباد میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’مودی کی فوج‘ دہشت گردوں کو گولی مارتی ہے بریانی نہیں کھلاتی۔ یوگی کے الفاظ تھے،’’کانگریس کے لوگ دہشت گردوں کو بریانی کھلاتے تھے اور مودی جی کی سینا دہشت گردوں کو گولی اور گولا(بم) دیتی ہے، یہی فرق ہے۔کانگریس کے لوگ مسعود اظہر کے لیے’جی‘ کا استعمال کرتے ہیں لیکن وزیراعظم مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت دہشت گردوں کے کیمپ پر حملے کر کے ان کی کمر توڑتی ہے۔‘‘
یوگی کے اس بیان پر اپوزیشن جماعتوں نے سخت اعتراض کیا ہے۔ کانگریس نے کہا کہ یوگی ادتیہ ناتھ کا بھارتی فوج کو ’مودی کی فوج‘ قرار دینا ہمارے ان کے ’بہادر جوانوں کی شجاعت اور قربانی‘ کی توہین ہے۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے یوگی کے بیان پر ’حیرت‘ کا اظہار کیا۔ بائیں بازو کی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے کہا کہ یوگی کا بیان رائے دہندگان کو ڈرانے دھمکانے اور ان کے دل میں خوف پیدا کرنے کی ایک چال ہے، ’’فوج کسی مخصوص پارٹی کی کیسے ہو سکتی ہے؟ یہ بھارت کی فوج ہے، مودی کی فوج نہیں ہے۔‘‘
فوج بھی وزیر اعلیٰ یوگی کے بیان سے ’ناخوش‘ ہے۔ ذرائع کے مطابق فوج کا کہنا ہے کہ اس طرح کے بیانات کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ اس نے وزارت دفاع سے کہا ہے کہ بھارتی فوج کو انتخابات میں سیاسی فائدہ کے لیے استعمال کرنے سے گریز کیا جانا چاہئے۔ بری، بحری اور فضائیہ کے متعدد افسران کا کہنا ہے کہ فوج کے کچھ جوانوں کا کسی مخصوص سیاسی جماعت کی طرف جھکاؤ تو ہو سکتا ہے لیکن بھارتی مسلح افواج اس بات پر فخر کرتی ہیں کہ آزادی کے بعد سے اب تک اس کا ریکارڈ ’غیر سیاسی اور سیکولر‘ رہا ہے۔ فوجی افسران کا کہنا ہے کہ سیاسی اکھاڑے میں اپنی کامیابی کے لیے بھارتی مسلح افواج کا استعمال کرنا انتہائی تشویش ناک ہے۔ بھارتی تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت کی فوج کوئی پرائیویٹ ملیشیا یا سینا نہیں ہے۔ یہ اقتدار میں رہنے والی کسی سیاسی جماعت کی نہیں بلکہ ملک کی خدمت کرتی ہے۔ پاکستان کے ساتھ کارگل تصادم کے دوران آرمی چیف کے عہدے پر فائز رہنے والے جنرل (ریٹائرڈ) وی پی ملک کا کہنا تھا، ’’مسلح افواج کو سیاست میں گھسیٹنے سے ہر قیمت پر بچنے کی ضرورت ہے۔ میں کارگل تصادم کے بعد ہوئے عام انتخابات کے دوران بھی اس طرح کی کوشش دیکھ چکا ہوں اور آرمی چیف کے طور پر میں نے اس پر اعتراض کیا تھا۔ میں نے یہ معاملہ اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے سامنے رکھا تھا جنہوں نے اس بات سے اتفاق کیا تھا کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔‘‘
بحریہ کے سابق سربراہ ایڈمرل ارون پرکاش کا خیال ہے، ’’بھارتی مسلح افواج کسی سیاسی پارٹی کی جاگیر نہیں ہیں۔ یہ بھارتی آئین کو سربلند رکھنے کا حلف لیتی ہیں۔ اگر (وزیر اعلیٰ) یوگی کا بیان درست ہے تو یہ انتہائی افسوس ناک اور نامناسب ہے۔ ہمیں امید ہے کہ وزیر اعظم (مودی) اس پر اپنی ناراضی کا اظہار کریں گے۔‘‘
بحریہ کے سابق سربراہ ایڈمرل رام داس نے وزیر اعلیٰ یوگی کے بیان کے خلاف آج چیف الیکشن کمشنر سنیل اروڑہ کو ایک احتجاجی خط سونپا ہے۔ ایڈمرل رام داس نے بعد میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس طرح کی غیر ذمے دارانہ حرکتوں پر روک لگانے کے لئے الیکشن کمیشن سے مناسب اقدامات کے لیے کہا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’مسلح افواج کوئی ذاتی فورس نہیں ہے، یہ کسی فرد یا سیاسی جماعت کی فوج نہیں ہے۔ اس لیے اس طرح کا بیان یکسر ناقابل قبول ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ کئی سابق اور موجودہ فوجی افسران بھی یوگی کے بیان سے ناراض ہیں۔
الیکشن کمیشن نے وزیر اعلیٰ یوگی کے بیان کا نوٹس لیتے ہوئے اترپردیش کے صوبائی اعلیٰ انتخابی افسر کو اس معاملے کی تفصیلی رپورٹ آج دو اپریل تک پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ الیکشن کمیشن نے انیس مارچ کو تمام سیاسی جماعتوں کو ایک ایڈوائزری جاری کر کے انتخابی مہم کے دوران سیاسی فائدے کے لیے فوج اور فوجی آپریشنز کا ذکر کرنے سے گریز کرنے کے لیے کہا تھا۔ کمیشن نے ایسا نہ کرنے کو مثالی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پچھلے پانچ برسوں کے دوران بی جے پی کے کئی لیڈروں نے اس طرح کے بیانات دے کر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔گزشتہ فروری میں پلوامہ واقعے کے بعد پاکستان میں بھارتی فضائیہ کی کارروائی نیز ونگ کمانڈر ابھی نندن ورتھمان کی رہائی کے واقعے سے بھی سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی تھی، جس پر الیکشن کمیشن نے ناراضی ظاہر کی تھی۔ تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں فوج کو اس کے بنیادی کردار کی بجائے سویلین مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا رجحان بھی بڑھا ہے۔