تحریر : قادر خان یوسف زئی بھارت کی عدالتی تاریخ میں اُس وقت تاریخی بھونچال آگیا جب بھارتی سپریم کورٹ کے 4 سنیئر ترین ججوں جسٹس جے چلاسپیشمر، جسٹس رانجن گوگوئی، جسٹس مدن لوکر اور جسٹس کرین جوزف نے بھارت عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف مشترکہ پریس کانفرنس کر دی۔ دیپک مشرا بھارتی عدالت عظمیٰ کے 45ویں چیف جسٹس ہیں جنھوں نے اپنے عہدے کا حلف اگست2017میں اٹھایا تھا ان کے عہدے کی معیاد اکتوبر2018میں ختم ہونے جا رہی ہے لیکن ان کی ریٹارمنٹ سے قبل ہی سپریم کورٹ کے سنیئر ترین جج سمیت تین مزید ججوں نے عدالت عظمیٰ کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے نئی عدالتی تاریخ رقم کردی۔چیف جسٹس اپنے کئی متنازعہ فیصلوں کی وجہ سے میڈیا کی سرخیوں میں جگہ پاتے رہے ہیں ۔ جسٹس مشرا پٹنہ اور دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی رہ چکے ہیں۔
تین اکتوبر 1953 کو پیدا ہونے والے جسٹس مشرا کو 17 فروری 1996 کو اڈیشہ ہائی کورٹ کا ایڈیشنل جج بنایا گیا تھا۔ تین مارچ 1997 کو ان کا تبادلہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں کر دیا گیا۔ اسی سال 19 دسمبر کو انہیں مستقل تقرری دی گئی۔ 23 دسمبر 2009 کو انہیں پٹنہ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنایا گیا اور 24 مئی 2010 کو دہلی ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنایا گیا۔ وہاں رہتے ہوئے انہوں نے پانچ ہزار سے زیادہ مقدمات کا فیصلہ سنایا ۔ انہیں 10 اکتوبر 2011 کو ترقی دے کر سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا تھا۔ جسٹس مشرا نے ہی ملک بھر کے سینما گھروں میں قومی ترانہ گائے جانے کا حکم جاری کیا تھا۔ نومبر2016 میں یہ فیصلہ سنایا گیا تھا کہ بھارت کے تمام سینما گھروں میں ہر فلم کی نمائش سے پہلے قومی ترانے کا چلایا جانا ضروری ہے اور جب تک قومی ترانہ چلتا رہے گا، تمام فلم بین ‘ترانے کی عزت میں کھڑے’ رہیں گے۔
بھارت میں یہ متنازعہ عدالتی فیصلہ اس وقت سنایا گیا جب بھارتی شدت پسند جماعت ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی انتہا پسندی میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا تھا۔ ماضی میں سینما گھروں میں قومی ترانے کے دوران کھڑے نہ ہونے کی وجہ سے متعدد لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔ ان میں کئی اپاہج اور مسلم اقلیتی افراد بھی شامل تھے۔ ۔متعدد تنازعات کا شکار چیف جسٹس کے خلاف ان کی اپنی ہی عدالت عظمیٰ کے حاضر سروس ججوںنے عدلیہ میں پسندیدہ ججوں کو مخصو ص مقدمات دینے کے علاوہ اہم مقدمات بھی جونیئر ججوں کو دیئے جانے کے الزامات عائد کئے ہیں ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے چیف جسٹس سے بات کرکے معاملہ سلجھانے کی کوشش کی لیکن چیف جسٹس نے کوئی توجہ نہیں دی ۔ انہوں نے چیف جسٹس پر الزام کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا کہ آزاد عدلیہ کے بغیر بھارت میں جمہوری نظام برقرار نہیں رہ سکے گا اور اگر اس ادارے کو تحفظ نہ ملا تو جمہوریت خطرے میں ہوگی۔ سپریم کورٹ کے سینئر ترین ججوںکا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کا موخذاہ کرنے والے ہم نہیں لیکن نہیں چاہتے کہ ہم پر الزام لگے کہ عدلیہ کیلئے آواز نہیں اٹھائی گئی۔ججوںکا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کو بتایا گیا کہ بعض اہم چیز ین قواعد کے مطابق نہیں جس پر انہوں نے مسائل سے نمٹنے کے اقدامات کا کہا مگر تبدیلی نہیں ہوئی ۔ سپریم کورٹ کے سنیئر ترین ججوںنے چیف جسٹس کو لکھا گیا خط بھی میڈیا کے سامنے پیش کیا۔
عدالت عظمیٰ کے ججوں کے غیر متوقع اقدام کے بعد مودی حکومت سکتے میں آگئی ۔ فوری ردعمل میں حکومت کے مملکتی وزیر پی پی چودھری نے پریس کانفرنس کو عدلیہ کا اندرونی معاملہ قرار دیکر نظر انداز کی کوشش کی گئی لیکن معاملے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے وزیر قانون روی شنکر پرساد کے ساتھ تفصیلی میٹنگ کی تو دوسری جانب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا نے بھارت کے اٹارنی جنرل کے وینو گوپال کے ساتھ صلاح و مشورہ کیا ۔بھارت میں سپریم کورٹ کے سنیئر ترین ججوں کی پریس کانفرنس کو ایک بڑا دھماکہ قرار دیا گیاہے ۔ کیونکہ متذکرہ پریس کانفرنس میں چیف جسٹس کے بعد سنیئر ترین جسٹس جے چلاسپیشمر، کے ساتھ جسٹس رانجن گوگوئی، جسٹس مدن لوکر اور جسٹس کرین جوزف پریس کانفرنس میں شریک تھے۔12جنوری کو چاروں ججوں نے اچانک ساڑھے گیارہ بجے صبح عدالتی امور ترک کرکے تغلق روڈ پر واقع سنیئر ترین جسٹس جے چلاسپیشمر کے گھر میں جمع ہوگئے اور دنیا بھرمیں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔ عدالت عظمیٰ میں بد عنوانیوں پر میڈیا کے سامنے حاضر سروس سنیئر ججوں کا بیان انتہائی سنجیدہ نوعیت کا ہے جیسے آسانی سے نظر انداز کرنا ممکن نظر نہیں آتا ۔اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ چیف جسٹس کو ہٹانے کیلئے چاروں ججوں نے فیصلہ بھارتی عوام پر چھوڑ دیا کہ اس کا فیصلہ قوم کریں۔پریس کانفرنس کا جواز دیتے ہوئے ان ججوں کا کہنا تھا کہ” ہم ملک کو یہ باتیں اس لئے بتا رہے ہیں تاکہ بیس برس بعد کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہم نے اپنی روح گروی رکھ دی تھی ۔”چاروں ججز نے اپنے الزامات میں مقدمات کی تفصیل بتانے سے اجتناب برتتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ذاتی پسند کی بنیاد پر بنچوں کو الاٹ کئے جانے والے مقدمات کی تفصیل اس لئے نہیں بتا رہے کیونکہ اس سے عدالت عظمیٰ کی سبکی ہوگی۔
تاہم ججوں نے سہراب الدین فرضی تصادم معاملے کی تفتیش کرنے والے سی بی آئی کے جج بی ایچ لویا کی پر اسرار موت کی تحقیقات ایک جونیئر جج کے سپرد کرنے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ۔اس معاملے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی صدر امت شاہ کلیدی ملزم ہیں ۔جو اس معاملے میں جیل بھی کاٹ چکے ہیں ۔ پراسرا ر موت کا شکار جج جسٹس لویا اس معاملے پر حتمی فیصلہ سنانے والے تھے ۔ لیکن ایک شادی کی تقریب میں ان کی اچانک موت واقع ہوگئی ، جسٹس لویا کے پر اسرا ر موت پر اہل خانہ نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ مقدمے کا فیصلہ اپنے حق میں کروانے کیلئے جسٹس لویا پر کافی دبائو تھا اور انہیں کروڑوں روپے کی پیش کش بھی کی گئی تھی۔کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے پریس کانفرنس میں اٹھائے گئے نکات پر تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے جسٹس لویا کی موت کے معاملے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا کہ سپریم کورٹ کے ججوں کے الزامات کی ایس آئی ٹی کے ذریعے آزادانہ تحقیقات ضروری ہوگئی ہیں۔مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ ممتاز بنیر جی نے مرکز کی جانب سے عدلیہ پر اثر انداز ہونے کے الزامات کو تکلیف دہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ عدلیہ میں مرکز کی مداخلت جمہوریت کے لئے خطرہ ہے۔
عدلیہ میں مرکزی حکومت کی مداخلت انتہائی خطرناک ہے۔سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) کے قومی صدر اے سعید نے سپریم کورٹ کے چار سینئر ججوں کی طرف سے چیف جسٹس دیپک مشرا پر اور ملک کی اعلی ترین عدالت میں انتظامی اصولوں پرپر عمل نہ کئے جانے کے الزامات اور انکشافات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سینئر ججوں کے بیانات کو ہمیں سنجیدگی سے لینا چاہئے ۔سینئر ججوں نے سپریم کورٹ پر سنگین الزامات لگائے ہیں جیسے غیر منظم طور پر احکامات جاری کرنے، غیر قانونی طور پر مقدمات کی تفویض وغیرہ ملک اس بات کی طرف واضح طور پر اشارہ کرتی ہیںکہ اب وقت آگیا ہے کہ عدلیہ اور ساتھ ہی ساتھ ملک کی جمہوریت کو بچانے کے لیے عوام کو آگے آنا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ سہراب الدین انکائونٹر معاملہ میں بی جے پی صدر امیت شاہ کے خلاف درج مقدمہ کی انکوائری کرنے والے سی بی آئی جج بی۔ایچ لویا کی پراسرار موت سے کئی سوالات اور شکوک و شبہات اٹھتے ہیں۔ اس تناظر میں چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف چار ججوں کی حیرت انگیز بغاوت واقعی غور طلب اور تشویش کی بات ہے۔ بھارت کے کئی مرکزی اور ریاستی سطح کے سیاست دانوں اور ماہرین نے عدالت عظمیٰ کے سنیئر ججوں کی بغاوت کو سنجیدگی سے لینے اور عائد الزامات پر شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ سہراب الدین کو گجرات پولیس نے نومبر 2005 میں مبینہ طور پر لشکر طیبہ کا دہشت گرد بتا کر ہلاک کر دیا تھا۔ لیکن جب اس کی تفتیش کی گئی تو پتہ چلا کہ وہ ایک جعلی پولیس مقابلے میں مارے گئے تھے۔ گجرات کی ریاستی حکومت سپریم کورٹ میں داخل کیے گئے اپنے ایک حلف نامے میں یہ بات تسلیم کر چکی ہے کہ سہراب الدین کو جعلی مقابلے میں مار دیا گیا تھا۔سپریم کورٹ کی ہدایات پر ہی سی بی آئی اس معاملے کی تفتیش کر رہی ہے۔ اس مقدمے میں اب تک انسداد دہشت گردی اور کرائم برانچ کے سر براہوں سمیت دس سے زیادہ پولیس اہلکار گرفتار کیے جاچکے ہیں۔ فرد جرم میں امت شاہ پر اغوا اور قتل کی سازش کا الزام لگایا گیا تھا۔تفتیش کے مطابق پولیس نے راجستھان کے باشندے سہراب الدین کی بیوی کو بھی قتل کر دیا تھا۔ لیکن ان کی لاش یا باقیات کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ہے۔ پولیس نے اس واقعہ کے ایک چشم دید گواہ اور سہراب الدین کے ساتھی تلسی رام پرجا پتی کو بھی ایک سال بعد مینہ طور پر ایک فرضی جھڑپ میں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس معاملے کی بھی تفتیش چل رہی ہے۔سی بی آئی نے امت شاہ کو طلب کرنے سے پہلے ان کے خلاف کافی ثبوت جمع کیے تھے۔ سی بی آئی کو شک تھا کہ امت شاہ کو سہراب ا لدین کے ‘جعلی پولیس مقابلے’ کے بارے میں پہلے سے معلوم تھا اور وہ پولیس اہلکاروں سے مسلسل رابطے میں تھے۔ ماتحت عدالتوں نے امت شاہ کو بری کردیا تھا تاہم نظر ثانی مقدمے کی سماعت سی بی ائی کے جسٹس برج گوپال لویا کررہے تھے جن کی مشتبہ حالات میں موت واقع ہوگئی تھی۔ یکم دسمبر 2014میں سی بی ائی کے ایک جج برج گوپال لویا کی ناگپور میں ہارٹ اٹیک بتائی گئی تھی لیکن ان موت اُس وقت شکوک کا شکار ہوگئی تھی جب اہل خانہ کو جسٹس لویا کی موت کی خبر تاخیر سے دی گئی اور ان کے موبائل فون سے بھی تمام ڈیٹا ڈیلیٹ کردیا تھا۔ یہ فون کسی حکومتی اہلکار کے بجائے آر ایس ایس کے ایک کارکن نے اہل خانہ کو فراہم کیا تھا ۔اسی طرح جج لویا کی نعش کو ممبئی کے بجائے لاتور میں ان کے آبائی گھر پہنچائی گئی تھی۔ جن حالات میں لویا کی موت ہوئی ہے اور جس طرح کے واقعات موت سے لیکر آخری رسومات تک انجام پائے ہیں اس پر لویا کی بہن ڈاکٹر انورداھا بیانی نے شبہ ظاہر کیا تھا کہ سی بی ائی ممبئی کے جج برج گوپال ہرکشن لویا کی موت کی جامعہ تحقیقات ضروری ہے۔ دہلی میں اس ضمن میں ایک پریس کانفرنس بھی ہوئی مگر چند ایک اخبارات نے ہی اس نیوزکو شائع کیا۔ بھارتی میڈیا نے ہندومسلم نصاب پر مشتمل موضوعات کو فوقیت دی اور جسٹس لویا کی موت کے واقعہ کو اٹھنے نہیں دیا تھا۔
سہراب الدین فرضی مقابلہ مقدمہ ہندو انتہا پسند حکومت کے لئے سبکی و عالمی طور پر کئے گئے جھوٹے پروپیگنڈے کا پردہ چاک کئے جانے کا سبب بن رہا تھا ۔ کیونکہ بھارتی حکومت و میڈیا نے سہراب الدین قتل کیس میں لشکر طیبہ کے حوالے سے پاکستان کے خلاف بے بنیاد و منفی پروپیگنڈا کیا تھا۔ بی جے پی کے رہنما امانت شاہ ، پولیس اور بی جے پی پر سہراب الدین جعلی پولیس مقابلے میں مارائے عدالت قتل میں ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت فراہم ہوگئے تھے جس پر جسٹس لویا اس جعلی پولیس مقابلے پر ریاست کے خلاف فیصلہ سنا نے والیتھے جو ہند و انتہا پسند حکومت کے شدت پسند رویئے اور جھوٹے پروپیگنڈے کے منہ پر بھرپور طمانچہ ہوتا ۔عموماََ بھارت میں لاکھوں مقدمات کی سماعت نہ ہونے کی شکایات تو عوام کی جانب سے کی جاتی رہی ہیں لیکن حساس معاملات خاص کر بھارتی شدت پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے کرتوتوں پر مبنی سنگین مقدمات کے فیصلوں کو برسوں برس ٹالے جانے کی روایت پڑ چکی ہے۔ جس میں سب سے مشہور مقدمہ بابری مسجد کا بھی ہے جس کا فیصلہ25برس سانحہ کے ہونے کے بعد بھی نہیں سنایا جاسکا ہے ۔ 4 دسمبر2017کو مقدمے کی حتمی سماعت کے دوران موقف اختیار کیا گیا کہ مقدمے کی جولائی2019مقرر کی جائے ۔نئے سال کے موقع پر پہلی ہی حتمی سماعت کو ملتوی کرتے ہوئے شنوائی کی تاریخ 8فروری مقررکردی گئی ۔ اسی طرح بھارتی سپریم کورٹ میں مقبوضہ کشمیر میں مظاہرین کے خلاف بھارتی فورسز کی طرف سے پیلٹ گن جیسے مہلک ہتھیار کے استعمال سے متعلق کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن میں پٹیشن داخل ہے۔کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھارتی سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے اضافی بیان حلفی میں موقف اختیار کیا ہے کہ جموں و کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق پراسرا، مبہم اور متنازعہ ہے۔اسی طرح بار ایسوسی ایشن نے اپنے بیان حلفی میں مقبوضہ کشمیر میں اب تک بھارت کے زیر انتظام تمام انتخابی عمل کو ڈھونگ اور دھاندلیوں پر مبنی قرار دے کر بھارت میں ہلچل پیدا کردی ہے۔اس مقدمے کی سماعت بھی موجودہ چیف جسٹس دیپک مشرا کررہے ہیں۔چیف جسٹس دیپک مشرا نے کشمیر ہائی کورٹ بار کے بیان حلفی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پیلٹ گن مقدمے کی سماعت 18جنوری2018مقرر کی ۔ کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے الحاق پر سوال اٹھائے جانے کی وجہ سے بھارتی حکومت اور عدالتی عظمٰی کو سخت دبائو کا سامنا ہے اور مذکورہ مقدمہ عدالت عظمیٰ میں چھایا رہا ۔
بھارت میں ججوں کے درمیان تنازعات کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل بھی بھارت ہائی کورٹ و سپریم کورٹ کے ججوں کے درمیان ایک حیران کن واقعہ پیش آیا تھا۔ جب سپریم کورٹ نے کلکتہ ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس کرنن کی دماغی حالت چیک کروانے کا حکم دیا تو دوسری جانب جسٹس کرنن نے سپریم کورٹ کے سات ججوں کی دماغی صحت پر سوالات اٹھادیئے تھے۔سپریم کورٹ آف انڈیا کے جج جسٹس چنا سوامی اور کلکتہ ہائی کورٹ کے جج سوامی ناتھن کرنن کے درمیان توہین عدالت کے معاملے میں ایک قانونی جنگ چھڑی ہوئی تھی۔سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جگدیش سنگھ کیہر کی صدارت والے سات رکنی بینچ نے صوبہ مغربی بنگال کے محکمہ صحت کے ڈائریکٹر کو حکم دیا تھاکہ وہ جسٹس کرنن کی دماغی حالت کا معائنہ کرنے کے لئے ڈاکٹروں کا ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دیں۔ عدالت عظمیٰ نے صوبائی ڈائریکٹر جنرل پولیس کو بھی ہدایت دی ہے کہ وہ اس حکم کی تعمیل کروانے کے لئے پولیس کا ضروری بندوبست کریں اور معائنہ رپورٹ عدالت عظمیٰ میں پیش کی جائے، تاہم سپریم کورٹ کے اس حکم پر جسٹس کرنن نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا،”یہ غلط،مضحکہ خیز اور قانوناً ناشائستہ ہے۔ یہ حکم مجھے ہراساں کرنے کے لئے دیا گیا ہے اور یہ میرے وقار کے منافی ہے۔ یہ ایک بے گناہ اور(پسماندہ ذات) دلت کی توہین ہے۔ لہذا میں سپریم کورٹ کے مذکورہ حکم کو کالعدم قرار دیتا ہوں۔” بھارتی اعلیٰ عدلیہ میں دلت جج کے خلاف اس معاملے نے اہم رخ اختیار کرلیا تھا کیونکہ بھارت میں ہندو دلتوں کے ساتھ انتہائی معتصبانہ سلوک روا رکھا جاتا ہے اور خود جسٹس کرنن نے اپنے ردعمل میں اس کا اظہار بھی کیا۔جسٹس کرنن کا مزید کہنا تھا، ”اگر ڈائریکٹر جنرل پولیس نے میری مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھایا تو میں اسے برخاست کرنے کا حکم سنا دوں گا۔”جسٹس کرنن نے ایک قدم آگے بڑھ کر دہلی کے ڈائریکٹر جنرل پولیس کو حکم دیا کہ وہ سپریم کورٹ کے مذکورہ بینچ کے ساتوں ججوں کا میڈیکل ٹیسٹ کرائیں۔ سپریم کورٹ کے چار ججوں نے جن عدالتی بد عنوانیوں کا ذکر کیا تھا اس کی باز گشت جسٹس کرنن ن کی جانب سے بھارتی وزیر اعظم کے دفتر کو دو صفحات پر مشتمل ایک خط میں سنائی دی چکی تھی، جس میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے تقریباً بیس ججوں کے خلاف بدعنوانی کے سنگین الزامات عائد کئے گئے تھے۔ اس خط کے بعد سپریم کورٹ نے جسٹس کرنن کے خلاف توہین عدالت کامقدمہ درج کرلیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے ملک کی تمام عدالتوں’ ٹریبونل اورکمیشنوں کو یہ ہدایت جاری کہ جسٹس کرنن کے جاری کردہ کسی بھی حکم کو قابل عمل نہ سمجھا جائے۔
عدالت عظمی نے جسٹس کرنن سے کلکتہ ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے ان کے تمام انتظامی اور عدالتی اختیارات بھی چھین لئے تھے۔ تاہم جسٹس کرنن کی دلیل تھی کہ سپریم کورٹ کا سات رکنی بینچ ان کے کسی بھی حکم کوکالعدم قرار نہیں دے سکتا کیوں کہ ساتوں جج ملزم ہیں۔جسٹس کرنن نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور ساتوں ججوں کو اپنی عدالت میں حاضر ہونے کا حکم سنایا اور ایئر پورٹ کنٹرول اتھارٹی کو ہدایت دی کہ یہ معاملہ طے ہونے تک جسٹس کیہر اور سپریم کورٹ کے دیگر ججوں کو وہ ملک سے باہر سفر کرنے کی اجازت نہ دے۔ معاملہ اس وقت مزید پیچیدہ ہوگیا جب سپریم کورٹ نے جسٹس کرنن کے خلاف ضمانتی وارنٹ جاری کر دیا اور اس کے جواب میں جسٹس کرنن نے شیڈولڈ کاسٹ/شیڈولڈ ٹرائب قانون کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے سپریم کورٹ کے ساتوں ججوں کے خلاف سمن جاری کر دیا۔عدلیہ امور کے ماہر اشوک باگڑیا کا کہنا ہے کہ ایسے حالات سے نمٹنے کے لئے بھارتی آئین نے ججوں کے مواخذے کے لئے پارلیمان کو مجاز بنایا ہے تاہم سپریم کورٹ نے اس معاملے میں از خود مداخلت کر کے ایک نئی بحث شروع کرد ی ہے۔ اس پورے معاملے نے بھارتی عدالتی نظام کو زبردست نقصان پہنچایا ہے اور ججوں کا امیج بھی خراب ہوا ہے۔ان کامزید کہنا تھاکہ ایسے وقت میں جب کہ ججوں کی تقرری کے مسئلے پر عدلیہ اور انتظامیہ میں رسہ کشی چل رہی ہے، اس بات کا شدید خدشہ ہے کہ جسٹس کرنن واقعے کے بعد عدلیہ میں انتظامیہ کی دخل اندازی کا راستہ کھل جائے گا۔ان کا خدشہ درست ثابت ہوا اور سپریم کورٹ کے چار سنیئر ججوں نے عدلیہ کے کردار پر انگلی اٹھا دی۔اب آنے والا وقت ہی فیصلہ کرے گا کہ چیف جسٹس کے خلاف چار سنیئر ججوں کی عملاَََ بغاوت کیا رخ اختیار کرے گی۔