تحریر: طارق حسین بٹ انسانی افعال کے نتائج ظاہر ہونے میں کچھ وقت تو ضرور لگ سکتا ہے لیکن اتنا بہر حال اٹل ہے کہ افعال اپنا رنگ دکھا کر ضروررہتے ہیں۔ افعال انسانی تحریروں کی شکل میں ہوں،تقاریر کی شکل میں ہوں یا پھر عملی افعال کی شکل میں ہوں وہ اپنا مستقل وجود اور اثر رکھتے ہیں۔سائنس کی ایک توجیہ تو یہ بھی ہے کہ انرجی ضائع نہیں ہوتی لہذا ہمارے تمام اعمال اسی فضا میں کسی نہ کسی رنگ میں موجود رہتے ہیں اور انسانوں کو اپنے حلقہِ اثر میں تھامے پھرتے ہیں۔یہ توممکن ہے کہ ان افعال کا اثر مختلف افراد پر مختلف ہو لیکن اتنا بہر حال طے ہے کہ اثر ہو کر ضرور رہتا ہے۔ایم کیو ایم ١٩٨٤ میں تشکیل پائی تو کسے خبر تھی کہ یہ جماعت مہاجر ازم کی پہچان بن جائے گی اور اس کے اندر سے دھشت گردی کا خو نخوار جن بر آمد ہو کر پورے کراچی کو لہو لہان کر دیگا؟ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اپنی شعلہ فشانی کی وجہ سے کافی شہرت رکھتے ہیں اور اپنی شعلہ فشانی کی رو میں اکثر و بیشتر کسی دوسری راہ پر نکل جاتے ہیں۔اپنی شعلہ فشانی کے بعد انھیں جب ہوش آتاہے تو پھر انھیں احساس ہوتا ہے کہ انھوں نے وہ کچھ بھی کہہ ڈالا ہے جو انھیں نہیں کہنا چائیے تھا لہذا معافی کے طلب گار بن جاتے ہیں۔ان کی دو ہفتے قبل کی وہ تقریر جس میں انھوں نے فوج کے خوب لتے لئے تھے اور انھیں جی بھر کر مغلیات سے نوازا تھا پورے پاکستان میں انتہائی غم و غصہ کے ساتھ سنی گئی تھی۔
مہاجروں کو روزانہ فوجی تربیت حاصل کرنے اور اسلحہ خریدنے کیلئے علیحدہ فنڈز بچانے کی ان کی ترغیب نے سارے پاکستانیوں کو ہلا کر رکھ دیاتھا۔ ایم کیو ایم پر یہ الزام تو کافی عرصے سے لگتا چلا آ رہا ہے کہ ایم کیو ایم کے بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ساتھ گہرے روابط ہیں اور وہ را کے ہراول دستے کا کرادر ادا کرتی ہے لیکن الطا ف حسین نے فوج کے خلاف خود اپنی زبان سے را سے مدد کی اپیل کر کے سارے الزامات کو نہ صرف وزن عطا کر دیا بلکہ اس بات کا برملا اعتراف کر لیا کہ ایم کیو ایم کے را کے ساتھ گہرے روابط ہیں ۔ پاکستان کی دونوں بڑی جماعتوں نے ایم کیو ایم کے قائد کی اس انتہائی متنازعہ تقریر سے جس طرح صرفِ نظر کیا ہے وہ بھی انتہائی تشویشناک ہے ۔بجائے اس کے کہ وہ ا لطا ف حسین کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کر کے ان پر پاکستان سے بغاوت کا مقدمہ درج کرواتے انھوں نے الطا ف حسین کے زبانی معا فی نامے کو کافی سمجھتے ہوئے انھیں ہر قسم کی جوابدہی سے بالا تر قرار دے دیا۔ میاں محمد نواز شریف نے صرف یہ کہنے پر اکتفاکیا کہ ہر سیاست دان کو الفاظ کے چنا ئو میں احتیاط برتنی چائیے کیونکہ اس سے دوسروں کی دل آزاری کے کئی پہلو نکل آتے ہیں۔اپوزیش لیڈر خو رشید شاہ کا استدلا ل تھا کہ الطاف حسین کی معافی کے بعد معاملہ پر مٹی ڈال دینی چائیے۔ چند دوسرے سکے بند سیاست دانوں کی بھی یہی رائے تھی کی ہمیں ماضی کی تلخیوں کو بھول کر آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چائیے۔صرف عمران خا ں ایک ایسے سیا ستدان ہیں جھنوں نے ایم کیو ایم پر پابندی اور الطاف حسین پر بغاوت کا مقدمہ دائر کر نے کا مطا لبہ کیاہے۔
یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ کسی پاکستانی سیاست دان کی تقریر تھی کیونکہ کسی بھی محبِ وطن سیاستدان سے اس طرح کے خطاب کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی جس میں وہ کھلے عام را سے مدد کی اپیل کرے ۔یہ ٹھیک ہے کہ نائن زیرو پر یلغار کے بعد فوج کے خلاف ایم کیو ایم کے جذبات میں کافی تندی ہے لیکن اس کے معنی یہ تو کہیں بھی نہیں کہ قائدِ تحریک پاکستان اور اس کی مسلح افواج کے خلاف ہرزہ سرائی کریں اور اپنے پیرو کاروں کو ہتھیار اٹھانے کا درس دیں۔ انھیں بھی علم ہے کہ آئینِ پاکستان کی روح سے فوج کے خلاف ہرزہ سرائی بغاوت کے زمرے میں آتی ہے اور الطاف حسین نے دل کھول کر پاک فوج کی تذلیل کی اور انھیں مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ان کا کہنا تھا کہ کاش فوج ہتھیار ڈالنے کی بجائے موت کو گلے لگاتی تو آج میں بھی فوج پر فخر کر رہا ہو تا ۔ہمارے ہاں دسمبر ١٩٧١ میں مشرقی پاکستان میں فوجی کارکردگی کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن کوئی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ ایسا کن نا مساعد حالات میں ہوا تھا؟اگر مشرقی پاکستان میں کارکردگی بری تھی تو بھارت کے خلاف دوسری جنگوں کا بھی تو ذکر کیا جائے جہاں پاک فوج نے اپنے سے چھ گنا بڑی طاقت کوخاک چاٹنے پر مجبور کیا تھا۔
Pak Army
یہ پاک فوج کے جوانوں کی لازوال قربانیوں اور جراتوں کا ثمر ہے کہ ہم دنیا میں ایک آزاد اور خوددار قوم کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں اور ہمارے جذبہِ ایمانی کو دنیا کی ساری اقوام سراہتی ہیں۔جو قوم مرنے کے خوف سے بالا تر ہو جائے اسے شکست دینا ممکن نہیں ہوتا اورپا ک فوج ایسے ہی انمٹ جذبوں کی تصویر ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایم کیو ایم کے کارکن دھشت گردی کی سرگرمیوں میںملوث ہیں اور ان میں سے کئی حکو متی تحویل میں ہیں جو آج کل میڈیا پر ایم کیو ایم کی ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان کی ہوش ربا کہانیاں سنا رہے ہیں۔صولت مرزا ہو ،معظم علی خان ہو،اجمل پہاڑی ہو یا عامر خان ہو سب کا لبِ لباب یہی ہے کہ ایم کیو ایم دھشت گرد کاروائیوں میں ملوث ہے ۔ ایم کیو ایم محرومیوں کی جس بنیاد پر اپنے وجود کو قائم رکھے ہوئے ہے اس نے اسے ایک ایسی ڈگر پر ڈال دیا ہے جس کا حتمی ہدف کراچی کی پاکستان سے علیحدگی ہے۔جناح پور کا قضیہ کوئی انہونی کہانی، فرضی قصہ یا کوئی ہوائی خبر نہیں ہے بلکہ یہ ایک مائنڈ سیٹ کی داستان ہے ۔ایم کیو ایم کو اس بات کا علم ہے کہ کراچی پاکستانی معیشت کی شہ رگ ہے کیونکہ پاکستا ن کے محصولات( ریوینیو )کا بیشتر حصہ کراچی سے حاصل ہوتا ہے لہذا اس نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ اسے ایک دن کراچی کو پاکستان سے علیحدہ کر کے ایک آزاد ریا ست قائم کرنی ہے جس کا نام جناح پور ہو گا۔
ایک تو بھارتی سر زمین سے تعلق رکھنے کی بدولت اور دوسرے غیر سندھی ہونے کی وجہ سے سندھ سے ایم کیو ایم کا کوئی جذباتی تعلق نہیں ہے۔انھیں تقسیمِ ہند کے بعد طوعا و کرہا کراچی میں آباد ہو نا پڑا جہاںکے رسم و رواج، ثقافت اور زبان کا ان سے کوئی تعلق واسطہ نہ تھا ۔شائد یہی وجہ ہے کہ ان کے درمیان جو دوریاں پہلے دن سے تھیں انھیں کسی بھی صورت میں پاٹا نہیں جا سکا۔بھارت تو پہلے دن سے کسی ایے موقع کی تلاش میں تھا جہاں انھیں ایسے عناصر مل جائیں جو پاکستان کی یکجہتی کے دشمن ہو ں تا کہ دنیا کے نقشے سے پاکستان کا نام مٹا کر اکھنڈ بھارت کے خواب کو زندہ حقیقت بنایا جائے۔بھارتی عزائم کی تکمیل ایم کیو ایم کے سیاسی فلسفے سے ممکن تھی لہذاایم کیو ایم اور بھارت ایجنسی را میں رابطوں کا سلسلہ شروع ہوا جو دھیرے دھیرے گہر اہو تا چلا گیا۔اس سلسلے کو مشرقی پاکستان کی سیاسی جماعت عوامی لیگ سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔شیخ مجیب الرحمان بھی بھار تی اثر میں تھے اور ان کے چھ نکات کی تدوین بھارتی خفیہ ایجنسی را کی مدد سے عمل پذیر ہوئی تھی۔مشرقی پاکستان اور کراچی میں زمین و آسمان کا فرق ہے لہذا ایم کیو ایم کو سو بار سوچ لینا چائیے کہ وہ کس سمت میں محوِ سفر ہے کیونکہ بغاوت جب کچلی جاتی ہے تو پھر کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔
خالصتان کی تحریک شائد یہ سمجھانے کیلئے کافی ہے کہ اپریشن بلو سٹار میںجرنیل سنگھ بھنڈرا والا اور اس کے ساتھیوں کو کس طرح آگ کے شعلوں کی نذر کیا گیا تھا اور ہزاروں سکھوں کو کس بے رحمی سے تہہ تیغ کر دیا گیا تھا۔اب حالت یہ ہے کہ ایم کیو ایم اور را میں خطِ امتیاز کھینچنا ممکن نہیں ہے کیونکہ مقاصد کے لحاظ سے دونوں ایک ہی مقام پر کھڑے ہیں۔ایک زمانہ تھا کہ خان عبدالغفار خان (باچہ خاں) کانگریسی ہونے کے ناطے بھارتی قیادت کے انتہائی قریب تصور ہوتے تھے اور پختونستان کے نعرے کے بانی تھے جس نے کئی دہائیاں پاکستانی سیاست کو پرا گندہ کئے رکھا لیکن پختونستان کا ہوا پھر بھی حقیقت کا لباس پہننے سے قاصر رہا کیونکہ پاک فوج اور اسٹیبلشمنٹ نے اس نعرے کو کبھی بھی پنپنے نہ دیا۔سندھی راہنما جی ایم سید کے سندھو دیش کا نعرہ بھی نقار خانے میں طوطی کی آواز ثا بت ہوا ۔سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ذولفقار علی بھٹو کی سیاست نے بھی سندھو دیش اور پختونستان جیسے نعروں کو پنپنے نہیں دیا تھا لہذا ورفاق کی سیاست کے سامنے علاقائی سیاست کو گھٹنے ٹیکنے پڑے تھے لہذا سندھو دیش اور پختونستان کے نعرے اخبارات کی حد تلک ہی محدود ہو کر رہ گئے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایم کیو ایم کا نعرہ بھی پختونستان اور سندھو دیش کے نعروں کی طرح بے اثر ہو جائیگا یا عوامی طاقت سے ایم کیو ایم اپنا ہدف حاصل کر لیگی؟