لکھنو (اصل میڈیا ڈیسک) لکھنو کی عدالت نے 28 سال بعد بابری مسجد شہادت کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے تمام ملزمان کو بری کر دیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق لکھنو کی عدالت نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سینئر رہنما ایل کے ایڈوانی سمیت تمام 32 ملزمان کو کیس سے بری کردیا ہے۔
عدالت نے مرلی منوہر جوشی اور اما بھارتی سمیت دیگربی جے پی رہنماؤں کو بھی بری کردیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق کیس کے فیصلے کے موقع پر 26 ملزمان عدالت میں موجود تھے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ بابری مسجد کا واقعہ منصوبہ بندی کےتحت نہیں کیا گیا۔
عدالتی فیصلے میں واقعے کی ویڈیو کو جعلی قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہےکہ تحقیقاتی ٹیم تصاویر کے نیگٹو پیش نہیں کرسکی جب کہ ملزمان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت بھی موجود نہیں ہے۔
عدالت نے کہا کہ مقامی انٹیلی جنس کی رپورٹ میں اس طرح کے واقعات کے تسلسل کے بارے میں پہلے آگاہ کردیا گیا تھا لیکن اسے نظر انداز کیا گیا۔
491؍ سال قدیم بابری مسجد کے تنازع پر تاریخی موقف پر نگاہ دوڑائی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مسجد کی ملکیت کا تنازع پہلی بار 1853ءمیں اٹھا اور اسی سال فسادات ہوئے، 1859ء میں برطانوی راج میں باڑ لگا کر مسجد اور مندر کو الگ کیا گیا۔
دسمبر 1949ء میں ہندوؤں نے بت لاکر مسجد کے اندر رکھ دیے ، 1949ء ہی میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو نے وزیراعلیٰ یوپی گووند پنت کو مسجد سے مورتیاں ہٹانے کا حکم دیا۔
1992ء میں جب مسجد کو شہید کیا گیا تو اس کے ردعمل میں پھوٹ پڑنے والے مسلم کش فسادات میں پورے بھارت میں دو ہزار سے تین ہزار افراد مارے گئے۔ اس کے بعد ممبئی کے بم دھماکوں میں 250؍ افراد اپنی جانوں سے گئے۔ 2002ء میں بھارتی ریاست گجرات کی بدامنی میں ایک ہزار افراد قتل ہوئے اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
بھارتی سپریم کورٹ نے گزشتہ برس 9 نومبر کو بابری مسجد کیس کا فیصلہ سنایا تھا جس میں عدالت نے مسجد کی زمین کو ہندوؤں کے حوالے کرتے ہوئے مندر تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ مسجد کی جگہ پر رام کی جنم بھومی تھی اور بابری مسجد کے نیچے اسلامی تعمیرات نہیں تھیں، بابری مسجد کو خالی پلاٹ پر تعمیر نہیں ہندو اسٹرکچر پر تعمیر کی گئی۔
چیف جسٹس رانجن گنگوئی نے بابری مسجد کی زمین ہندوؤں کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو ایودھیا میں متبادل جگہ دی جائے، سنی وقف بورڈ کو 5 ایکڑ متبادل زمین دی جائے۔