کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور دنیا کے ديگر حصوں میں رہنے والے کشمیری بھارت کی ڈومیسائل پالیسی پر چراغ پا ہیں اور ان کا الزام ہے کہ نئی دہلی حکومت جابر حکومتوں کے آزمائے ہتھکنڈے کشمیریوں کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔
واضح رہے کہ نئی دہلی نے حال ہی میں بھارتی شہریوں اور اپنے زیر انتظام کشمیر کے حوالے سےنئے قوانین کا اعلان کیا ہے۔ جس کے مطابق اگر کوئی بھارتی شہری بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پندرہ برس سے رہے رہا ہے تو وہ وہاں کے ڈومیسائل کا حق دار ہو گا۔ اس کے علاوہ جو طالبعلم اس متنازعہ علاقے میں سات برس تک پڑھا ہے اور اس نے دسویں یا بارہویں کلاس کا امتحانبھی وہاں دیا ہے تو وہ بھی اس ڈومیسائل کے لئے درخواست دے سکتا ہے۔
نئی دہلی حکومت حالیہ کچھ عرصے سے کشمیر کے حوالے سے متنازعہ فیصلے کر رہی ہے۔ گزشتہبرس نئی دہلی نے اپنے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی تھی، جس پر دنیابھر میں رہنے والے کشمیری مشتعل ہیں جب کہ خود بھارت کےزیر انتظام کشمیر میں بھی کئیمہینوں سے حالات کشیدہ ہیں، جس کی وجہ سے وہاں پر بھارتی فوج اور پولیس کی بھاری نفریمتعین ہے جب کہ علاقہ مکینوں پر کئی طرح کی پابندیاں بھی لگائی گئی ہیں۔
اب ان نئے قوانین نے کشمیریوں میں بالعموم اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں رہنے والےکشمیریوں میں بالخصوص بہت بے چینی پیدا کر دی ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جموںو کشمیر لبریشن فرنٹ کی سربراہی کرنے والے ڈاکٹر توقیر گیلانی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہنا تھاکہ بھارت وہ ہی ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے، جو اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف استعمال کئے،”اس پالیسی کا مقصد بہت واضح ہے کہ کشمیریوں کو اکثریت سے اقلیت میں تبدل کیا جائے۔ ابغیر کشمیریوں کو لا کر ہمارے علاقوں میں آباد کیا جائے گا۔ ہم اس مسئلے پر خاموش نہیں بیٹھیںگے اور اس نا انصافی کو ہر پلیٹ فارم پر اٹھائیں گے۔”
تاہم کچھ کشمیری رہنماوں کا کہنا ہے کہ بھارت چاہے جتنے بھی قوانین بنا لے لیکن عملی طور پروہ ان پر عمل درآمد نہیں کرا سکے گا۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیر اعظم سردارعتیق احمد نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “نئی دہلی کو ا س بات کا ڈرہے کہ آج یا کل کشمیر کے مسئلے کو حل ہونا ہے۔ کشمیری اسٹیٹس کو کو برداشت نہیں کر سکتے۔اس لئے ڈومیسائل پالیسی کے تحت وہ کشمیر کی آبادی کے تناسب کو بدلنا چاہتا ہے تاکہ مستقبلمیں جب بھی کشمیر کا مسئلہ حل کی طرف جائے تو وہ اسے متنازعہ کہہ کر بتائیں کہ دیکھیںکشمیر کی آبادی کا ایک بڑا حصہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔ تاہم ایسا ممکن نہیں ہو گا۔”
ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کے فوجی افسران اور سپاہی اپنی فیملیوں کو کشمیر میں نہیں لاسکتے،”تو سوال یہ ہے کہ عام بھارتی کیسے اپنی جان کا رسک لے کر اپنے گھر والوں کو کشمیرمیں لائے گا یا وہاں پر پیسہ خرچ کرے گا۔ عملی طور پر یہ ہونا ناممکن ہے۔ تاہم اس فیصلے کامقصد بالکل صاف ہے کہ بھارت کشمیریوں کو اقلیت میں بدلنا چاہتا ہے، جس کو کوئی کشمیرینہیں مانے گا، چاہے اس کا تعلق کسی بھی مکتبہ فکر یا مذہب سے ہو۔”
کچھ کشمیری ناقدین مسئلے پر بین الاقوامی برادری کی خاموشی کو افسوس ناک قرار دیتے ہیں۔برطانیہ کی میڑوپولیٹین یونیورسٹی سے وابستہ کشمیری دانشور ظفر خان کا کہنا ہے کہ بینالاقوامی برادری اپنے معاشی مفادات کی وجہ سے خاموش ہے، “تاہم یورپی یونین، برطانویپارلیمنٹ اور امریکی کانگریس میں کئی ایسے افراد ہیں، جو اس ظلم و زیادتی پر کشمیریوں کاساتھ دے رہے ہیں اور ایک دن بین الاقوامی برادری کو یہ احساس ہو گا کہ کشمیر میں اسٹیٹس کوکو بر قرار نہیں رکھا جا سکتا۔”
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بھی ان کی مدد کے لئے کوئی خاص کام نہیں کر رہا، “اسلام آباد بھیاس مسئلے پر خاموش ہے۔ پاکستانی حکمراں ٹوئیٹس کے آگے کوئی کام نہیں کرنا چاہتے۔ تاہمکشمیری ڈومسائل قانون ہو یا ریاست کی خصوصی حیثیت کے خلاف قانون، وہ ہر اس قانون کیکھل کر مخالفت کریں گے، جو کشمیریوں کے خلاف ہو گا۔”