بھارتی تاریخ کے سب سے بڑے اور طویل انتخابات سات اپریل سے شروع ہوں گے، نو مرحلوں میں انتخابات بارہ مئی کو مکمل ہوں گے اور سولہ مئی کو لوک سبھا کے نتائج جاری کر دیئے جائیں گے، اس بار دس کروڑ ووٹرز میں اضافے سے اکیاسی کروڑ 45 لاکھ افراد ووٹ کاسٹ کریں گے جو نہ صرف عالمی ریکارڈ ہے بلکہ یہ براعظم یورپ کے تمام ووٹرز سے زیادہ بڑی تعداد ہے۔
لوک سبھا کی 543 نشستوں میں سے سادہ اکثریت کے لیے 272 نشستیں درکار ہوں گی لیکن حالیہ سروے رپورٹس کے مطابق کانگریس اور بی جے پی دونوں تن تنہا یہ تعداد حاصل کرنے میں ناکام نظرآتی ہیں ، حکومت بنانے کے لیے اکثریتی جماعت کو اتحاد کی ضرورت پڑے گی۔ بھارت میں عام انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں، ایک دوسرے پرالزامات کی بارش اور پاکستان مخالف بیان بازی، سیاسی جماعتوں کے وہ ہتھکنڈے ہیں جن سے وہ اپنے ووٹرز کو لبھا رہے ہیں۔
اس وقت کی اپوزیشن جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے نریندر مودی کو اپنی جماعت کا وزیراعظم نامزد کیا انہوں نے تو خود کو بھارتی وزیراعظم بھی کہنا شروع کر دیا اور بات یہیں ختم نہیں ہوتی، بلکہ وہ تو حکمران جماعت کانگریس کو دھرتی پر بوجھ بھی سمجھنے لگے ہیں، چندی گڑھ میں انتخابی ریلی سے خطاب میں مودی نے کہا کہ بھارت کو کانگریس سے پاک کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف اتر پردیش میں انتخابی جلسے سے خطاب میں راہول گاندھی کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نفرت کی سیاست پر یقین نہیں رکھتی۔ جبکہ بھارتی وزیر دفاع اے کے انٹونی نے بھی نریندر مودی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ ان پر پاکستان کا ایجنٹ ہونے کا الزام حب الوطنی کے خلاف ہے۔
بھارتی جھارکنڈ کے مختلف علاقوں میں ماو باغیوں کی طرف سے لوگوں کو دھمکی دی گئی ہے کہ وہ عام انتخابات کا بائیکاٹ کریں، اور اس کے لیے انہوں باغیوں نے دھمکی آمیز پمفلٹ بھی تقسیم کیے ہیں۔ ماو باغیوں کے علاقوں میں انتخابات کے لیے سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ بھارتی وزیر خزانہ چدم برم کہتے ہیں کہ گجرات فسادات میں نریندر مودی کو کلین چٹ نہیں ملی۔ مودی کو بری کرنیوالی خصوصی ٹیم کی رپورٹ کو عدالت میں چیلنج کردیا گیاہے جبکہ بہوجن سماج وادی پارٹی کی رہنما مایاوتی کہتے ہیں مودی وزیراعظم بنے تو دوبارہ مسلمانوں کی نسل کشی شروع ہو سکتی ہے۔ گجرات میںانکی حکومت میں ہزاروں مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا۔
Aamir Khan
بالی ووڈ کے مسٹر پرفیکٹ عامر خان نے کہا ہے کہ بھارتی پارلیمنٹ مجرموں کی آماجگاہ بن چکی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان مجرموں میں اضافہ ہورہا ہے۔ ریاست کے منتخب ادارے ہوں یا بھارتی پارلیمنٹ، تمام جگہوں پر جرائم یشہ افراد بیٹھے ہوئے ہیں۔ قانون ساز ادارے ان جرائم پیشہ افراد کیلئے گنگا کی طرح ہیں جہاں اشنان کرکے نہ صرف وہ ”پاک” ہوجاتے ہیں بلکہ انہیں آئندہ 5 سال کیلئے بھی کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔ عامر خان کے مطابق صورتحال یہ ہے کہ اس وقت بھارتی لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے 30 فیصد سے زائد ارکان جرائم پیشہ ہیں۔ ان ارکان پر قتل، اقدام قتل، زیادتی، اغوا برائے تاوان اور انسانی سمگلنگ سمیت مختلف سنگین جرائم کے تحت مقدمات زیر سماعت ہیں اور بدقسمتی سے ہر الیکشن میں جرائم پیشہ افراد کی شمولیت بڑھتی جارہی ہے۔ عامر خان کا کہنا تھا کہ کسی بھی جمہوری ملک کی طرح بھارت میں بھی عوام ہی سیاستدانوں کو پیدا کرتے ہیں، اس لئے عوام اپنے چھوٹے سے مفاد کیلئے ووٹ جیسی طاقت کو نہ بیچیں کیونکہ ایسا کرنا ان کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ عوام اپنے ہی ووٹ سے خود پر جبر کا نظام مسلط کرتے ہیں۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزارت عظمی کے لیے نامزد امیدوار نریندر مودی کے دو قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ اگر مودی الیکشن جیت گئے، تو سرحدی تنازعات میں ہمسایہ ملک چین اور روایتی حریف پاکستان کے ساتھ سخت رویہ اپنایا جائے گا۔ایک رپورٹ کے مطابق ابھی تک کے جائزوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کے آئندہ انتخابات میں سخت گیر موقف رکھنے والے ہندو قوم پرست رہنما نریندر مودی جیت سکتے ہیں۔ مودی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ہمسایہ ملکوں چین اور پاکستان کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ وہ اپنی حالیہ تقریروں میں چین کو توسیع پسندانہ ذہنیت پر خبردار کر چکے ہیں اور بھارت میں ہونے والے عسکریت پسندوں کے حملوں کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرا چکے ہیں۔
گزشتہ ماہ اروناچل پردیش میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی کا کہنا تھا، مجھے اس مٹی کی قسم، میں اس ملک کی حفاظت کروں گا۔بھارت چین اور پاکستان ، تینوں ایٹمی طاقتیں ہیں اور افغانستان سے بین الاقوامی افواج کا انخلا بھی نئی دہلی کے لیے تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔ حال ہی میں مودی نے برسر اقتدار کانگریس پارٹی پر، جو گزشتہ 67 برسوں میں 50 برس سے زائد برسر اقتدار رہ چکی ہے، الزام عائد کیا کہ وہ قومی سلامتی کو مضبوط بنانے میں ناکام رہی ہے۔ جبکہ رپورٹوں کے مطابق سن 2007 سے 2011 کے درمیان بھارت دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والا ملک رہا ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے منشور کی تیاری میں شامل دو مشیروں کا کہنا ہے کہ مودی اپنی خارجہ پالیسی کو مزید مضبوط کریں گے لیکن علاقائی تنازعات کو معیشت پر حاوی نہیں ہونے دیا جائے گا۔ مودی کی طرف سے خارجہ پالیسی پر کبھی بھی اپنا تفصیلی نقطہ نظر واضح نہیں کیا گیا ہے لیکن بی جے پی کے ایک پالیسی ساز کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا وہ ایٹمی دھماکوں کے بڑے حامی رہے ہیں اور شکتی (طاقت) اور شانتی امن کی پالیسی کی طرف جھکا رکھتے ہیں۔ بھارتی حکومت پاکستانی بندرگاہ گوادر میں چینی موجودگی سے بھی پریشان ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی جلد از جلد ملکی بحریہ کو مضبوط کرنا چاہتی ہے۔ اس کے علاوہ اس پارٹی کے منشور میں سرحدی علاقوں میں نئی سڑکوں کی تعمیر اور مواصلاتی رابطوں میں اضافہ کرنا بھی شامل ہے۔
اس سکیورٹی ایڈوائزر کے مطابق جلد ہی پارٹی منشور عوام کے سامنے پیش کر دیا جائے گا۔پاکستان میں سابق بھارتی سفیر راجیو ڈوگرا کا کہنا ہے کہ مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی پاکستان کے خلاف مزید طاقتور پالیسیاں اپنائے گی۔ ان کے مطابق اس کی ایک وجہ تو قومی دبا ہوگا اور دوسری وجہ تبدیل ہوتی ہوئی علاقائی صورتحال ہو گی۔ راجیو ڈوگرا کے مطابق ابھی تک بھارتی خارجہ پالیسی تسلسل کے ساتھ چلائی آ رہی ہے لیکن حکومت کے تبادلے سے اس روایتی پالیسی میں تبدیلی آ سکتی ہے۔ جموںوکشمیر سمیت بھارت میں پارلیمانی انتخابات کو پرامن بنانے کیلئے دو لاکھ فورسز اہلکاروں کی تعیناتی کے علاوہ ہزاروں کے تعداد میں گاڑیوں اور درجنوں ہیلی کاپٹروں کی مدد حاصل کی جائیگی۔ 9مرحلوں میں انتخابات ہونے جارہے ہیں ، جو دو مہینوں میں مکمل ہونگے، یہ بہت ہی وسیع مشق ہے اور اس کے لئے ملک کی43حلقہ انتخابات میں 81.4کروڑ رائے دہندگان کی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے ایک پلان مرتب کرلیا گیا ہی۔ اس بھاری مشق کے دوران خصوصی طور پر جموںوکشمیر کے علاوہ شمالی مشرقی ریاستوں نکسل واد سے متاثرہ علاقوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہی۔ اس مقصد کی خاطر 2لاکھ سی آر پی ایف، بی ایس ایف، آئی ٹی بی پی، ایس ایس بی اور آسام رائفلز کی خدمات حاصل کی گئیں ہیں۔ وزارتِ داخلہ فورسز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لیجانے کیلئے 100 ٹرینوں کا انتظام کریگی۔ ایک درجن کے قریب ائرفورس ہیلی کاپٹروں کی مدد بھی حاصل کی جائیگی۔
مرکزی وزارتِ داخلہ نے ایسے 33 علاقوں کی نشاندہی کی ہے جو نکسل واد سے زیادہ متاثر ہیں اور جہاں گذشتہ پارلیمانی انتخابات کے دوران بڑے پیمانے پر تشدد ہوا تھا۔ یہ اضلاع جہارکھنڈ، بہار اور اڑیسہ کے علاوہ آندھرا پردیش میں ہیں تاہم ریاست جموں و کشمیر کے کسی بھی خاص علاقے کی مرکزی وزارتِ داخلہ نے نشاندہی نہیں کی ہے البتہ اتنا کہا گیا ہے کہ ریاست میں بالخصوص وادی کے کچھ علاقے ضرور حساس ہیں جن کیلئے سیکورٹی پلان پہلے ہی مرتب کیا جا چکا ہے۔