ممبئی (جیوڈیسک) بھارت میں انتخابی مہم کے دوران عوامی مسائل کے بجائے اب بہت زیادہ زور ’چوکیدار‘ پر ہے۔ اپوزیشن ’چوکیدار چور ہے‘ کا نعرہ لگا رہی ہے اور وزیر اعظم مودی جواباﹰ ہر ایک سے ’میں بھی چوکیدار بنوں گا ‘ کی اپیل کر رہے ہیں۔
بھارت میں آئندہ پارلیمانی انتخابات کے پیش منظر میں ’چوکیدار‘ کا یہ انتخابی نعرہ لگا کر اقتدار حاصل کرنے کی خواہش مند سیاسی جماعتیں اپنی اپنی انتخابی مہم تو جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن ان میں سے کسی بھی پارٹی کی توجہ اصل چوکیداروں کے حالت زار پر نہیں ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے دعوی کیا ہے کہ ’چوکیدار نہ تو کوئی سسٹم ہے، نہ ہی یونیفارم میں ملبوس کوئی مخصوص شناخت کا حامل کوئی فرد بلکہ چوکیدار ہونا تو محض ایک جذبہ ہے، ایک عمل ہے اور میں ایک چوکیدار کے طور پر اپنی ذمہ داری نبھاؤں گا۔‘‘ وزیر اعظم مودی کا مزید کہنا تھا، ’’میں بھی چوکیدار کی سوچ دراصل مہاتما گاندھی کے ٹرسٹی شپ کے اصول پر مبنی ہے۔ پڑھے لکھے، ان پڑھ، کسانوں، مزدوروں اور ملازمت پیشہ افراد سے لے کر اس ملک کے ہر شہری تک، ہر آدمی چوکیدار ہے اور اب جب ہر شخص چوکیدار ہے، تو پھر چور کہاں بچیں گے۔ عوام چوکیدار کو پسند کرتے ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ چوکیدار کا جذبہ مسلسل پھیل رہا ہے۔‘‘
دراصل ’چوکیدار‘ کا معاملہ رافیل جنگی طیاروں کی خریداری میں ہوئی مبینہ بدعنوانی کے الزام سے شروع ہوا تھا۔ کانگریس پارٹی کے صدر راہول گاندھی نے رافیل طیاروں کی خریداری میں مبینہ گھپلوں کی تفصیلات جب عوام کے سامنے رکھنا شرو ع کیں، تو انہوں نے کچھ ایسے ٹھوس شواہد کے ساتھ یہ الزامات لگائے، کہ عوام کو یقین ہونے لگا کہ رافیل طیاروں کی خریداری میں کہیں نہ کہیں دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ اس الزام کے توڑ کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے عوامی جلسوں میں کہنا شروع کیا کہ وہ ملک کے ’چوکیدار‘ ہیں اور ملک کو کانگریس کے ہاتھوں برباد نہیں ہونے دیں گے۔
دوسری طرف راہول گاندھی نے جوابی حملہ کرتے ہوئے اپنے جلسوں میں عوام سے پوچھنا شروع کیا، ’’اگر چوکیدار ہی چور ہو، تو ملک کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟‘‘ اس کے ساتھ ہی ملک بھر میں ’چوکیدار چور ہے‘ کا نعرہ بھی پھیلنا شروع ہو گیا۔ نعرے بازی کی اس مہم سے وزیر اعظم مودی کے امیج کو نقصان پہنچا۔ لوگوں میں یہ پیغام گیا کہ وزیر اعظم مودی خود تو ایماندار ہو سکتے ہیں لیکن ان کے بعض سرمایہ کار دوستوں نے ملک کی دولت ضرور لوٹی ہے۔ ایسے میں جب ہزاروں کروڑ روپے کے گھپلے کے ملزمان وجے مالیا، نیرو مودی اور میہول چوکسی جیسے بڑے تاجر ملک سے فرار ہو گئے، تو عوام کا شبہ یقین میں بدلنے لگ گیا تھا۔
برصغیر پاک و ہند کی تحریک آزادی کے بڑے رہنماؤں میں شمار ہونے والے جواہر لال نہرو پریانکا گاندھی کے پڑدادا تھے۔ وہ آزادی کے بعد بھارت کے پہلے وزیراعظم بنے اور ستائیس مئی سن 1964 میں رحلت تک وزیراعظم رہے تھے۔ اندرا گاندھی اُن کی بیٹی تھیں، جو بعد میں وزیراعظم بنیں۔
وزیر اعظم مودی نے ایسے میں ایک پینترہ بدلا۔ انہوں نے ٹوئٹر پر اپنے پیغامات میں خود کو ’چوکیدار نریندر مودی‘ لکھنا شروع کر دیا اور اپنی کابینہ اور پارٹی کے سینئر رہنماؤں، نیز بھارتیہ جنتا پارٹی کے صوبائی وزرائے اعلیٰ سے بھی اپنے نام سے پہلے’چوکیدار‘ لکھنے کی اپیل کر دی۔ یہ معاملہ یہیں پر نہ رکا بلکہ وزیر اعظم مودی نے عوامی جلسوں میں ’ہم سب چوکیدار ہیں‘ کے نعرے بھی لگوانا شروع کر دیے۔ آج حال یہ ہے کہ بی جے پی کے بیشتر رہنما اور کارکنان اپنے نام سے پہلے ’چوکیدار‘ لکھ رہے ہیں۔
کانگریس کے ترجمان اور سابق رکن پارلیمان ایم افضل نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’وزیر اعظم مودی کا اب چل چلاؤ ہے۔ لیکن وہ ملکی عوام کو چوکیدار بنا رہے ہیں۔ آخر مودی عوام کو چوکیدار کیوں بنانا چاہتے ہیں؟ نوجوان روزگار کے بارے میں پوچھ رہے ہیں، کسان قرضوں کی معافی کے بارے میں سوال کر رہے ہیں، ملکی عوام پریشان ہیں لیکن مودی سب کو چوکیدار بنا رہے ہیں۔‘‘ ایم افضل کا مزید کہنا تھا، ’’اگر حکومت بے شرم ہو جائے تو کیا کیا جا سکتا ہے؟ رافیل طیاورں کی سودے بازی میں جو چوری ہوئی، اس کا جواب کون دے گا؟‘‘
افریقی ملک صومالیہ 9 پوائنٹس حاصل کر کے 180ویں نمبر پر ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق سن 2016 میں صومالیہ کے دس پوائنٹس تھے جب کہ اس سے گزشتہ تین برسوں کے دوران بھی یہ ملک آٹھ کے اسکور کے ساتھ کرپٹ ترین ملک رہا تھا۔
اس کانگریسی رہنما نے سوال کرتے ہوئے کہا، ’’کانگریس پارٹی ساٹھ برس میں اپنا دفتر نہیں بنا سکی لیکن بی جے پی نے صرف دوسال میں پندرہ سو کروڑ روپے کا اپنا دفتر بنا لیا۔ بی جے پی نے ہر صوبے میں اپنے دفاتر بنائے۔ آخر ان سب کے لیے پیسے کہاں سے آئے؟ کیا بی جے پی کماتی ہے یا کوئی تجارت کرتی ہے؟بی جے پی کے صدر امیت شاہ کی آمدنی پانچ برسوں میں تین گنا زیادہ ہوگئی جب کہ ان کے بیٹے کا پچاس ہزار روپیہ اسی کروڑ روپے میں بدل گیا۔ تو کیا یہ سب کچھ ایمانداری سے ہوا؟ وزیر اعظم نے یہ کیسی چوکیداری کی ہے؟‘‘
’چوکیدار‘ بننے کی اس لہر میں تاہم خود بی جے پی میں بھی بعض مخالف آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ بی جے پی کے سینئر رہنما اور رکن پارلیمان سبرامنیم سوامی نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ’’میں اپنے نام سے پہلے چوکیدار نہیں لکھ سکتا۔ میں برہمن ہوں، برہمن چوکیدار نہیں ہو سکتا۔ میں چوکیداروں کو حکم دوں گا اور چوکیداروں کو اس پر عمل کرنا ہوگا۔ ہر کوئی چوکیدار سے یہی امید رکھتا ہے۔‘‘
معروف سماجی کارکن انیس درانی کا اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہنا تھا، ’’سبرامنیم سوامی کا یہ بیان ہندو دھرم میں پھیلی ہوئی ذات پات کی زہریلی جڑوں کی مضبوطی اور گہرائی کی نشاندہی کرتا ہے۔ سوامی کے بیان نے نہ صرف مودی کے نعرے ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کی قلعی اتار دی ہے بلکہ (بی جے پی کی مربی تنظیم) آرا یس ایس کی ذات پات کے زہرسے آلودہ ذہنیت کو بھی ننگا کر دیا ہے۔‘‘
دی اکانومسٹ کے تحقیقی ادارے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق آئندہ پانچ برسوں کے لیے یہ تینوں ممالک ایک جتنے نمبر حاصل کر کے مشترکہ طور پر پہلے نمبر پر ہیں۔ سن 2013 تا 2017 کے انڈیکس میں فن لینڈ پہلے، سویڈن دوسرے اور آسٹریلیا تیسرے نمبر پر تھا۔
’چوکیدار چور ہے‘ بمقابلہ ’میں بھی چوکیدار‘ کے نعروں پر کانگریس اور بی جے پی میں جاری مقابلہ کے عین بیچ میں کسی بھی سیاسی جماعت نے آج تک اصل چوکیداروں کو درپیش پریشانیوں پر کوئی توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور نہ ہی اپنے اپنے انتخابی منشور میں ان کا کبھی ذکر کیا ہے۔
بھارت میں صنعت وتجارت کی نمائندہ تنظیم فیڈریشن آف انڈین چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی ایک رپورٹ کے مطابق 2019ء میں سکیورٹی گارڈ یا چوکیدار مہیا کرنے کا ملکی کاروبار سالانہ تقریباً ایک لاکھ کروڑ روپے کا کاروبار ہے، جس کی مالیت 2020ء تک سوا لاکھ کروڑ روپے ہو جائے گی۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں تقریباً چوہتر لاکھ چوکیدار ہیں۔ ان کے لیے کام کے اوقات طے نہیں ہیں۔انہیں آٹھ سے بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی دینا پڑتی ہے۔ 80 فیصد چوکیداروں کو ہفتہ وار چھٹی بھی نہیں ملتی۔ انہیں ماہانہ صرف آٹھ سے بارہ ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے۔ چوکیداری کرنے والے 70 سے 80 فیصد لوگ نقل مکانی کرنے والے ہوتے ہیں۔ اس لیے ان میں سے بیشتر کے نام رائے دہندگان کی فہرست میں بھی درج نہیں ہوتے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ حقائق ثابت کرتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں ’چوکیدار‘ کے پیشے کا استعمال نعرے کے طور پر کر کے اپنا لیے فائدہ تو حاصل کر لیتی ہیں لیکن اصل چوکیداروں کے حقیقی مسائل سے انہیں کبھی کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔