تاجکستان (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے دوشنبے میں افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ ملاقات کی اور افغان امن مساعی کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔ پاکستانی وزیر خارجہ کے ساتھ ان کی ملاقات پر قیاس آرائیاں جاری ہیں۔
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر ’ہارٹ آف ایشیا‘ کانفرنس میں شرکت کے لیے تاجکستان کے شہر دوشنبے میں موجود ہیں۔ بھارت اس کانفرنس میں افغانستان میں قیام امن اور ترقی کے حوالے سے اپنا موقف پیش کرے گا۔
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ’ہارٹ آ ف ایشیا کانفرنس‘ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں دیرپا امن کے لیے ہمیں حقیقی ’دوہرے امن‘ کی ضرورت ہے۔ یعنی افغانستان کے اندر بھی اور افغانستان کے اطراف میں بھی۔ اس میں ملک کے اندر اور ملک اطراف کے تمام فریقین کے مفادات کا خیال رکھا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ اس امن مساعی کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں تو اس امر کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ بات چیت میں شامل تمام فریقین ایک دوسرے پر اعتماد کریں اور سیاسی حل کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔
بھارتی وزیر خارجہ نے افغان صدر اشرف غنی سے پیر کے روز اپنی ملاقات کی اطلاع ایک ٹوئٹ کے ذریعہ دی۔ انہوں نے کہا”صدر اشرف غنی سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ ہم نے امن مساعی کے حوالے سے اپنے موقف سے ایک دوسرے کو آگاہ کیا۔“
افغان امن مساعی کے حوالے سے بھارت اور افغانستان کے درمیان حالیہ عرصے میں صلاح و مشورہ کا سلسلہ تیز ہوگیا ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی افغانستان کے وزیر خارجہ محمد حنیف اتمر بھارت کے دورے پر آئے تھے اور جے شنکر کے علاوہ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کے ساتھ بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا تھا۔
اس وقت افغان وزیر خارجہ نے بھارت سے افغان امن مساعی میں زیادہ بڑا اور کلیدی کردار ادا کرنے کی اپیل کی تھی۔
حالانکہ بھارتی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مودی حکومت کے سامنے ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ بھارت افغانستان میں کس طرح زیادہ بڑا یا کلیدی کردار ادا کر سکے گا۔
اسٹریٹیجک امور کے ماہر اور ہارڈ نیوز میگزین کے چیف ایڈیٹر سنجے کپور نے ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر بھارت افغانستان میں زیادہ بڑا کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو اسے زیادہ بڑی ذمہ داری بھی لینی ہوگی۔ اس میں امریکا کی جانب سے بھارتی فوج کی افغانستان میں تعیناتی کی تجویز بھی شامل ہے جبکہ سابقہ بھارتی حکومتیں اس تجویز کو مسترد کرتی رہی ہیں۔
سنجے کپور کے مطابق بھارت کے سامنے تو ابھی اپنے تقریباً دو ارب ڈالر کی اس سرمایہ کاری کو بچانے کا بڑا مسئلہ ہے جو اس نے افغانستان میں کر رکھی ہے اور ”اگر وہاں دوستانہ حکومت نہیں رہی تو اسے بچانا بھارت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔“
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ترکی کے اپنے ہم منصب میلود چاوش اوگلو سے بھی ملاقات کی اور افغانستان کے حوالے سے حالیہ پیش رفت نیز باہمی تعلقات پر بات چیت کی۔ ترکی اگلے ماہ افغانستان امن مساعی کے سلسلے میں کانفرنس کی میزبانی کرنے والا ہے۔
اس دوران بھارتی وزیر خارجہ کی پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ ملاقات کی قیاس آرائیا ں جاری ہیں۔ دونوں ملکوں کی طرف سے اس حوالے سے کوئی واضح اشارہ ابھی تک نہیں ملا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے دوشنبے روانہ ہونے سے قبل پاکستانی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا”فی الحال ان کی بھارتی وزیر خارجہ سے ملاقات طے نہیں ہے اور نہ ہی اس کی درخواست کی گئی ہے۔“
’ہارٹ آف ایشیا‘ ایک علاقائی پہل ہے جس کا آغاز افغانستان اور ترکی نے نومبر 2011 میں کیا تھا۔ اس کانفرنس میں بھارت اور پاکستان کے علاوہ چین، ایران، سعودی عرب، ترکی اور متحدہ عرب امارات سمیت پندرہ ممالک شرکت کر رہے ہیں۔