تحریر : محمد عتیق الرحمن ذکی الرحمن لکھوی کا نام آتے ہی بھارتیوں کا سانس تک رک جاتا ہے اور ان کو اپنی موت نظر آنا شروع ہو جاتی ہے۔ یہ ان کے اپنے میڈیا کا قصور ہے کہ اس نے ایک سادے سے پاکستانی کو ان کے سامنے ایک ڈراؤنا خواب بنا دیا ہے جھوٹے پروپیگنڈا کے ذریعے بھارتی عوام کے دلوں میں پاکستان کی نفرت میں اضافہ کرنے کی کوشش کی۔
ذکی الرحمن لکھوی وہ پاکستانی ہے جس پر بھارت سرکار اور میڈیا نے 26/11 کو بھارتی شہرممبئی میں ہونے والے حملوں کا الزام ڈال رکھا ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے ادھر ممبئی میں حملہ ہوتا ہے ادھر انڈین نیوز چینلز اس کی پلاننگ اور اس کے مامسٹر مائنڈ کے نام تک بتانے شروع کردیتے ہیں اگر ان کے پاس اتنی معلومات تھیں تو حملوں کو روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی ۔ اتنا بڑا حملہ کیوں ہونے دیا گیا کہ جس سے پوری دنیا میں بھارت کے دفاع کی جگ ہنسائی ہوئی۔بھارتی میڈیا نے اس میں پاکستانی اداروں خصوصاََ آئی ۔ایس ۔آئی ،کشمیری جماعت لشکر طیبہ ،جماعۃ الدعوہ ،حافظ سعید ،ذکی الرحمٰن لکھوی اور دیگر کئی پاکستانی افراد کو ملوث قراردیا ۔ اس وقت سب کی زبانیں پاکستان اور مذہبی جماعتوں کے خلاف زہر اگل رہی تھیں ۔اس وقت کے پاکستانی حکمرانوں نے بھارتی دباؤ کے زیراثر حافظ سعید ،ذکی الرحمٰن لکھوی اور دیگر سرکردہ رہنماؤں کو نظر بند یا جیل میں قید کردیا ۔لیکن اس وقت پاکستان کی آزاد عدالتوں نے جرات مندانہ فیصلے کرتے ہوئے بھارتی میڈیا کی رپوٹوں اور ناکافی ثبوتوں کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے حافظ سعید اور دیگر رہنماؤں کو آزاد کردیا جبکہ ذکی الرحمٰن لکھوی کو اڈیالہ جیل میں قید کر دیا۔
بھارت لکھوی کو ممبئی حملوں کا ماسٹر مائنڈ کہتا ہے اور اس متعلق ہندوستانی حکومت بارباریہ دعوٰی کرچکی ہے کہ وہ پاکستان کو ثبوت فراہم کریگی۔یہ ثبوت کیا تھے جو بھارت کی طرف سے فراہم کئے گئے کہ جن کو پاکستانی عدالتوں میں پیش بھی کیاجاتا رہا کہ حملہ آوروں سے جو چیزیں مثلاََصابن،شیونگ کٹس،کپڑے اور پستول وغیرہ برآمد ہوئے ہیں ان پر پاکستان کی مہریں تھیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حملہ آور پاکستانی تھے ۔لیکن کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ ہندوستانی قانون دان ہی ان باتوں کو ماننے کو تیار نہیں تو پاکستانی آزاد عدالتیں ان کو کس طرح مانیں گی؟اجمل قصاب کہ جس کا تعلق بھارتی سرکار اور میڈیا لکھوی سے جوڑنے کی کوشش کررہا تھا وہ بھی ناکام ہوئی ہے اوراجمل قصاب کا بیان جو کہ بھارتی افسر نے ہی لیا تھا اس میں وہ بھگوان کو پکارتا ہے۔ یاد رہے کہ بھگوان ہند ووں کا دیوتا ہے مسلمانوں کا نہیں ۔ اور اس کا لہجہ بھی پاکستانیوں کاسا نہیں تھا۔
Supreme Court
یہی وجہ ہے کہ جب بھی پاکستانی عدالتیں لکھوی کو رہاکرنے کے احکامات جاری کرتیں تو بھارتی سرکار اور میڈیا میں صف ماتم بچھ جاتی اور پاکستانی حکومت ان کو نقص امن کے دائرے میں لاکر نظر بند کردیتی ۔اگر آپ انڈین نیوز چینلز دیکھتے ہیں تو آپ اس سے بخوبی واقف ہونگے کہ ذکی الرحمٰن لکھوی کی رہائی کے بعد انڈین میڈیا میں کس طرح صف ماتم بچھ جاتی تھی ۔پاکستانی عسکری اداروں ،کشمیری تنظیم لشکر طیبہ اور حافظ سعید کے خلاف پروپیگنڈہ شروع ہوجاتاہے ۔ذکی الرحمٰن لکھوی کی رہائی کے بعد سے بھارتی میڈیا اور بھارتی ذمہ داران مسلسل پاکستانی عسکری اداروں اور پاکستانی عدالتوں کے خلاف زہر اگل رہے ہیں اور اسی ہرزہ سرائی اور اپنے جھوٹ کے پلندے کو لے کر بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ذیلی کمیٹی جو کہ القاعدہ کے متعلق بنائی گئی تھی کو ایک خط لکھ چکا ہے ۔ خط کیا ہے ایک مضحکہ خیز چیز ہے کہ جس میں لکھنے والے کو اتنی معلومات بھی نہیں ہیں کہ ملزم ضمانت کی رقم ادا نہیں کرتا بلکہ ضامن ادا کرتا ہے ۔ بھارتیوں کو چاہیئے کہ پہلے کسی سے قانون کی کتابیں پڑھ لیں تاکہ ان کو قانون سے واقفیت ہوسکے ۔ اقوام متحدہ میں بھارت کے مستقل مندوب اشوکے مکھر جی نے القاعدہ پر پابندیا ں لگانے کے متعلق بنائی گئی کمیٹی کو لکھا کہ پاکستان میں ذکی الرحمٰن لکھوی کی رہائی اقوام متحدہ کی قراردادنمبر 1267کی خلاف ورزی ہے اس لئے اقوام متحدہ پاکستان سے ذکی الرحمٰن لکھوی کی رہائی کا معاملہ اٹھا ئے ۔جس پر سلامتی کونسل نے بھارت کو طفل تسلی دیتے ہوئے اپنے آئندہ اجلاس میں اس معاملے کو اٹھا نے کا یقین دلایا۔جس پر پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے کہا کہ سلامتی کونسل کی ذیلی کمیٹی کے پاس اس کا اختیار نہیں ہے۔
اس سارے واقعہ کودیکھ کر چور اور کوتوال والا محاورہ یاد آجاتا ہے کہ بھارت کی اپنی فوج سمجھوتہ ایکسپریس والے سانحے میں ملوث پائی گئی تھی اور یہ ساری تحقیقات بھارت کے اپنے اداروں نے کی تھیں ۔اور فوج کے کرنل عہدے کا آفیسر اس کا ماسٹر مائنڈنکلا تھا جس میں پاکستانی بھی شہید ہوئے تھے ۔ جس کی تحقیقات سے پاکستان کو لاعلم رکھا گیا ۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ کشمیر والے مسئلہ کو بھارت خود اقوام متحدہ کے پاس لے گیا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو ان کا حق دے گا۔اس واقعہ کو کتنا عرصہ گذر چکا ہے اور کشمیری آج بھی اپنی آزادی کی خاطر اپنی جانیں قربان کررہے ہیں ۔ لیکن بھارت کو بالکل بھی اس کی پرواہ نہیں کہ کتنے کشمیری شہید ہوئے ہیں، کتنی ماؤں کی گود اجڑ چکی ہے ،کتنی عورتیں بیوائیں ہوچکی ہیں اور کتنے بچے یتیمی کی حالت میں زندگی گذار رہے ہیں۔
پاکستانی حکومت کو چاہیئے کہ وہ بھارت کے خلاف عالمی عدالت میں کشمیریوں کے حق میں مقدمہ دائر کرکے بھارت کو دہشت گرد ملک قرار دلوائے کہ جس نے آٹھ لاکھ سے زائد فوج کو نہتے کشمیریوں پر مظالم ڈھانے کے لئے رکھا ہوا ہے اور پاکستان سے ان کے حق کے لئے کوئی بھی آواز اٹھتی ہے تو اس کوبھارت دہشت گردی کے زمرے میں لے آتا ہے اوران کے خلاف اقوام متحدہ میں باقاعدہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ان کودہشت گرد قراردیا جائے کیا اقوام متحدہ کو نہیں پتا کہ اس کی اپنی قرار دادیں کشمیر کے متعلق کیا کہتی ہیں؟ یہ ایک متنازعہ مسئلہ ہے اس پر دونوں فریقین بول سکتے ہیں بھارتی بولیں تو ٹھیک حافظ سعید اور دیگر پاکستانی بولیں تو دہشت گرد؟بھارت کو اقوام متحدہ مجبور کرے کہ قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دے ۔ اور پاکستان میں ہونے والی دہشت گردانہ کاروائیوں میں انڈین خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت ہیں وہ پاکستانی حکومت دنیا اور اقوام متحدہ کے سامنے رکھے ۔ہم ظلم سہہ کر بھی ظالم بن جاتے ہیں پتہ ہے کیوں ؟کیوں کہ ہم ظلم سہہ کر بھی چپ رہتے ہیں اور ہندوبنیاء ظلم کرکے بھی مظلوم بن جاتا ہے کیونکہ وہ شور کرنااور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے رونے اور پیٹنے کافن جانتا ہے۔
اس وقت ہم پوری دنیا میں ایک باوقار قوم کی حیثیت سے ابھررہے ہیں۔اس وقت ہمیں ضرورت ہے سچ کو سچ ثابت کرنے اور جھوٹ کوجھوٹ ۔بھارت جو ہمارا شروع دن سے ہی دشمن رہا ہے وہ ہماراوجود برداشت نہیں کرپارہا۔ہم کو چاہئیے کہ ہم اینٹ کاجواب پتھر سے دیں ناکہ اپنے ہی پاکستانیوں کے متعلق صفائیاں پیش کریں بلکہ آگے بڑھ کر کشمیر ،احمدآباد اور سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس جیسے دیگر واقعات کابھارت سے جواب طلب کریں کیونکہ ان میں مسلمان مظالم کانشانہ بنے تھے۔حکمران ہوش کے ناخن لیں اور محب وطن پاکستانیوں کو دشمنوں کے کہنے پر مقدموں میں الجھانااور ان کو تکالیف دینے کا سلسلہ بند کریں تاکہ پاکستانی اپنے وطن کے دفاع میں اپنے پاکستانی دفاعی اداروں کا ساتھ دیں سکیں۔