اسلام آباد (جیوڈیسک) بھارتی صنعت کار سجن جندال کی پاکستان آمد پر وزیرِاعظم نواز شریف پر کئی حلقے تنقید کر رہے ہیں جب کہ اس مسئلے پر پاکستانی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر بھی بڑی بحث ہو رہی ہے۔ تجزیہ نگار اس آمد کے مقاصد پر تبصرے کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان کی صاحبزادی مریم نواز شریف نے اس حوالے سے ایک وضاحتی بیان دیا تو ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ناقدین اس بیان پر یقین کرے کے لیے تیار نہیں۔ سوشل میڈیا پر جہاں پی ٹی آئی کے حامی اس ملاقات پر تنقید کر رہے ہیں وہیں ن لیگ کے کارکنان مودی اور عمران خان کی اس تصویر کو بھی اپ لوڈ کر رہے ہیں، جس میں سابق کرکٹر بھارتی وزیرِ اعظم سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔ ن لیگ کے کارکنان اور پی ٹی آئی مخالف صحافیوں نے پرویز مشرف، شاہ محمود قریشی، علیم خان اور جہانگیر ترین کی بھی ایسی تصاویر اپ لوڈ کی ہیں، جس میں انہیں مختلف بھارتی شخصیات کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔
کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں نواز جندال ملاقات ن لیگ کی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ پریسٹن یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہء بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکڑ امان میمن کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اس مسئلے کو اچھالے گی۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’میرے خیال میں پی ٹی آئی اس مسئلے پر سیاست چمکائے گی۔ نواز شریف کے لیے ویسے ہی یہ مشکل وقت ہے۔ آرمی میں بھی کچھ لوگ اس کی مخالفت کریں گے۔ لیکن عمران خان کو یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ پی پی پی نے کشمیر انتخابات کے دوران اینٹی انڈین نعرے لگائے اس کے باوجود وہ انتخابات ہار گئی۔ پاکستان میں اب بھارت مخالف نعروں پر سیاست نہیں کی جا سکتی۔ اب یہ بھارتی سیاسی جماعتوں کا وطیرہ ہے کہ وہ پاکستان مخالف نعروں پر انتخابات لڑتے ہیں۔ مودی نے ایسا ہی وہاں کیا اور عمران یہ یہاں کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’میرے خیال میں یہ بیک چینل ڈپلومیسی کا حصہ ہے اور یہ ملاقات اچانک نہیں ہوئی بلکہ اس کی بہت پہلے منصوبہ بندی کی گئی ہوگی۔ اس ملاقات میں کلبھوشن سمیت کئی معاملات زیرِ بحث آئے ہوں گے۔ بیک چینل ڈپلومیسی کثیر الجہتی ہوتی ہے۔
کئی مسائل پر بات چیت کی جاتی ہے اور پھر کچھ نکات پر بحث مر کوز ہوجاتی ہے۔ تو یہ ہونا چاہیے۔ پاکستان میں پہلا موقع ہے کہ پنجاب کا ایک لیڈر بھارت سے تعلقات بہتر کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان میں مذہبی جماعتوں کے علاوہ سب بھارت سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ یہاں تک کے پی ٹی آئی بھی یہی چاہتی ہے لیکن وہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرنے کے لیے اس کی مخالفت کر رہی ہے۔ تو میرے خیال مین یہ تعلقات بہتر ہونے چاہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’اس حوالے سے میڈیا کا رویہ بڑا افسوناک ہے۔ عمران خان کے پاس کوئی حکومتی عہدہ نہیں ہے۔ وہ بھارت جاکر مودی سے ملتا ہے اور یہاں کوئی اینکر نہیں پوچھتا کہ وہ کیوں گیا تھا، کس کے کہنے پر گیا تھا اور وہاں کیا باتیں کیں۔ لیکن نواز جندال ملاقات پر میڈیا نے طوفان پربا کر دیا ہے۔‘‘
معروف دانشور اور تجزیہ نگار ایوب ملک نے اس ملاقات کو سراہتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’دنیا میں پڑوسی تبدیل نہیں کئے جاتے۔ وزیرِ اعظم نے ملاقات کر کے بہت اچھا کیا۔ انہیں ساری تنقید اور دباؤ کو پس پشت ڈال کر امن کے لیے کوششیں کرنی چاہیے۔ اگر حزبِ اختلاف اس پر شور کرتی ہے تو اسے کرنے دیں۔ پاکستان اور بھارت کا مستقبل امن سے وابستہ ہے۔ دونوں ملکوں میں امن سے کچھ قوتوں کو نقصان ہو گا، بس وہی حکومت کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہی ہیں تاکہ امن کی کوششیں ناکام ہوجائیں۔ گورباچوف نے ریگن کو کہا تھا کہ میں نے تمہیں تمہارے دشمن سے محروم کر کے تمہیں لوٹ لیا ہے۔ ہمیں بھی بھارت کو اس طرح لوٹنا چاہیے۔‘‘
دفاعی تجزیہ نگار جنرل شیعب امجد کا کہنا تھا کہ جندال سے ملاقات کا فیصلہ وزیرِ اعظم کا اپنا ہے۔’’میرے خیا ل میں انہوں نے نہ آرمی سے مشورہ کیا اور نہ ہی آرمی سے پوچھا۔ یہ ان کا آزادانہ فیصلہ ہے۔ اس ملاقات کا مقصد کلبھوشن بھی ہوسکتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بھارت کشمیر پر بات چیت کرے کیونکہ کشمیر میں تشدد کی لہر سے مودی پر دباؤ ہے کہ وہ اس مسئلے کو مذاکرات سے حل کرے۔ کیونکہ مودی کی ماضی میں سخت پاکستان مخالف لائن رہی ہے، اس لیے وہ دوسرے لوگوں کو بھیج کر ایسا کرنا چاہتا ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر میاں صاحب جندال کے کہنے پر بھارت سے بات چیت کرتے ہیں، تو انہیں بدلے میں کیا ملے گا۔ جے آئی ٹی میں یہ سوال پوچھا گیا ہے کہ گلف اسٹیل کیسے لگائی گئی۔ جندال بین الاقوامی کھلاڑی ہے۔ میرے خیال میں اس حوالے سے وہ میاں صاحب کی مدد کر سکتا ہے اور ایسی دستاویز فراہم کر سکتا ہے، جو جے آئی ٹی میں میاں صاحب کے کام آ سکیں۔‘‘
سینیٹر عثمان کاکڑ نے اس ملاقات پر اپنے تاثرات دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ آخر اس ملاقات میں کیا حرج ہے۔ میں تو یہ کہوں گا کہ پاکستانیوں کو بھی وہاں جانا چاہیے۔ عوامی سطح پر زیادہ سے زیادہ رابطے ہونے چاہییں۔ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ہر مسئلے کو بات چیت سے حل کرنا چاہیے۔ پاکستان اور بھارت میں ایک قلیل اقلیت ہے جو اچھے تعلقات کی مخالفت کرتی ہے ورنہ دونوں ملکوں کے عوام تو اچھے تعلقات اور امن چاہتے ہیں۔‘‘