بھارتی جیلوں سے پاکستانیوں کی لاشیں

Pakistan , India

Pakistan , India

پاکستان اور بھارت کے مابین ہر سال جنوری کے مہینے میں دونوں ممالک میں قید اپنے اپنے باشندوں کی فہرستوں کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔سال2014 کی فہرست کے مطابق بھارتی جیلوں میں اس وقت بھی 396 پاکستانی قیدی موجود ہیں۔جس میں سے 257 عام شہری جبکہ 139 ماہی گیر شامل ہیں، دوسری جانب پاکستانی جیلوں میں اس وقت 281 بھارتی قید ہیں جن میں 49 عام شہری اور 232 ماہی گیر شامل ہیں۔ بھارتی جیلوں میں پاکستانی قیدیوں پر مظالم ،تشددکوئی نئی بات نہیں، دو روز قبل بھارتی جیل میں ایک اور پاکستانی کو قتل کردیا گیا جبکہ جیل انتظامیہ نے واقعہ کو خودکشی قرار دیدیا۔ پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ ہلاکت سے متعلق بھارت نے کچھ نہیں بتایا۔ اس معاملے میں اپنے ہائی کمشن سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق مقبوضہ جموں کشمیر میں امپالہ ڈسٹرکٹ جیل کے ڈائریکٹر جنرل راجندر کمار نے بتایا ہے کہ پاکستانی قیدی شوکت علی ولد برکت علی کی پھندا لگی نعش بیرک سے برآمد ہوئی۔ قتل کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔ 42 سالہ شوکت علی فروری 2011ء میں جموں و کشمیر سے غلطی سے سرحد عبور کر گیا تھا جس پر بھارت نے اسے گرفتار کر کے مقدمہ درج کیا اور جیل میں ڈالدیا تھا۔

شوکت علی کا تعلق سیالکوٹ سے ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ شوکت کا ذہنی توازن درست نہیں تھا۔ گذشتہ برس مئی میں بھی بھلوال جیل میں پاکستانی شہری ثناء اللہ پر حملہ کیا گیا تھا جس میں وہ جاں بحق ہوگئے تھے۔ مقتول کے والد 70 سالہ برکت علی کا موقف ہے کہ اس کا بیٹا خودکشی نہیں کرسکتا، اسے بھارتی سکیورٹی فورسز نے تشدد کر کے ہلاک کیا ہے۔مقتول شوکت کے والد نے مطالبہ کیا حکومت پاکستان مقتول کی نعش واپس لانے کیلئے بھارت پر دبائو ڈالے اور شوکت علی کے قتل کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کرائی جائے۔ مقتول کا ایک بھائی بشارت علی اور بہن شمع بی بی ہیں جو ان دنوں موضع رولے تحصیل پسرور میں رہائش پذیر ہیں۔ مقتول کی شادی 8 سال قبل ہوئی تھی تاہم اس نے اپنی بیوی کو طلاق دیدی تھی۔ شوکت علی فٹ بال بنانے والی فیکٹری میں کام کرتا تھا۔ ترجمان دفتر خارجہ تسنیم اسلم نے کہا کہ بھارت میں اپنے ہائی کمیشن کو پاکستانی قیدی کی موت کی تفصیلات لینے کی ہدایت کر دی۔ بھارت میں پاکستانی ہائی کمشن نے قیدی شوکت علی کی پراسرار ہلاکت پر احتجاج کیا ہے۔ بھارت میں پاکستانی سیاسی قونصلر نے بھارتی وزارت خارجہ سے رابطہ کر کے قیدی شوکت علی کے بارے میں تفصیلات طلب کرلی ہیں۔

ترجمان پاکستانی ہائی کمشن نے بھارتی وزارت خارجہ سے شوکت علی اور دیگر جیلوں میں قید تمام پاکستانیوں کی سکیورٹی کی تفصیلات طلب کرلیں اور تمام پاکستانی قیدیوں کی سکیورٹی کیلئے اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان نے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت سزا مکمل کرنے والے قیدیوں کو فوراً رہا کرے۔سیالکوٹ کے رہائشی شوکت علی کے قتل کی خبر سنتے ہی اسکے گھر اور علاقہ میں کہرام مچ گیا ہے اور ہرآنکھ اشکبار تھی۔ شوکت کے گائوں کے لوگوں کا کہنا ہے شوکت خودکشی نہیں کر سکتا۔ انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر کی جیلوں میں قید ہزاروں قیدیوں بنیادی انسانی ضروریات سے محروم رکھا گیا ہے۔ بھارتی جیلوں میں قید پاکستانی قیدیوں کے وکیل بھیم سنگھ ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ اس وقت بھارت کی جیلوں میں 565 پاکستانی قیدی موجودہیں 10 قیدیوں کی سزا پوری ہو چکی اور دستاویزات مکمل ہیں وہ اسی ہفتے پاکستان جا سکتے ہیں 40 قیدیوں کی سزا پوری ہو چکی لیکن سفری دستاویزات تیار نہیں، 25 پاکستانی قیدی ذہنی توازن کھو چکے ہیں جن میں سے پانچ گونگے، بہرے بھی شامل ہیں۔ شوکت علی کی ہلاکت کی تحقیقات کے لیے بھارتی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی 14 مارچ کو پاکستانی قیدیوں کے کیس کی سماعت ہو گی۔ پاکستانی اور بھارتی حکومتوں کو چاہئے کہ جو قیدی اپنی عمر قید کی سزا پوری کر چکے ہیں انہیں ایک دوسرے کے ملکوں کے حوالے کر دیا جائے۔ عمر قید کی سزا 14 سال سے زائد نہیں ہونی چاہیے۔

Bhim Singh

Bhim Singh

بھیم سنگھ کا کہنا تھا آٹھ سال قبل بھارت میں پاکستانی قیدیوں کی تعداد 650 تھی جن سے زیادہ تر جموں کے راستہ آئے تھے 17 تاریخ کو بھارت سرکار نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ پیش کیا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اس وقت پاکستانی قیدیوں کی تعداد 565 ہے۔ اس کے علاوہ 40 لوگوں کی سزائیں ختم ہیں سپریم کورٹ نے ان کی بحالی کا حکم بھی دے دیا ہے لیکن پاکستان کی طرف سے ان کی کلیئرنس نہیں آ رہی۔پاکستان کو ان افراد کی سفری دستاویزات بھیجواتی ہیں میں بھی مسلسل چار سال سے خط حکومت پاکستان کو لکھ رہا ہوں اور بھارتی حکومت بھی لکھ رہی ہے میں نے پاکستانی ہائی کمشن کو گزشتہ روز سپریم کورٹ کے آرڈر کے ساتھ خط بھیجا ہے کہ جونہی آپ کلیئرنس بھیجتے ہیں 40 اور جانے والے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ 18,16,15 سال سے لوگ پڑے ہیں ان کے بارے میں پاکستان اور بھارت کو چاہیے تھا کہ ایسے قیدیوں کو واپس کر دیتے لیکن بھارت اور پاکستان میں حکمران ووٹوں کے چکر میں ہیں۔ گزشتہ برس کشمیری وکلا کی انجمن کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے جموں کشمیر کی جیلوں کا دورہ کرنے کے بعد تفصیلی رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا جموں میں قید پاکستانی قیدیوں کو سونے کے لئے بستر فراہم نہیں کیا جاتا۔ہندوستانی جیلوں میں مسلمانوں پر ہونے والے حملوں میں بھارتی حکومت اوراس کی خفیہ ایجنسیاں ملوث ہیں۔ حکومت پاکستان بھارتی جیلوں میں قید پاکستانیوں پر حملوں کا مسئلہ سلامتی کونسل میں اٹھائے اور بھارت کو دہشت گرد ملک قراردلوانے کیلئے باقاعدہ قرارداد پیش کی جائے۔

بھارتی دہشت گردی کا منہ توڑ جواب دینے اورانڈیا کے دہشت گردی والے چہرہ کو پوری دنیا میں بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔بھارتی جیلوںمیں قید پاکستانی سخت خطرات سے دوچار ہیں۔ مسلمان قیدیوں پر منظم سازشوں اور منصوبہ بندی کے تحت حملے کئے جارہے ہیں۔ بھارت نے وطن عزیزپاکستان کے وجود کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا۔ اس نے ہمیشہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارتی جیلوں میں پاکستانی قیدیوں پر حملے اور پھندا لگی لاشیںاسلام، پاکستان اور مسلمان دشمنی میں کئے جارہے ہیں۔سربجیت سنگھ ایک دہشت گرد تھا جس نے عدالتوںمیں بم دھماکوں کا اعتراف کیا اس کی ہلاکت پر انڈیا کی جانب سے اسے سرکاری اعزازات سے نوازنا اور ردعمل کے طور پر بھارتی جیلوں میں قید پاکستانیوںکو نشانہ بنانا انتہائی قابل مذمت فعل اور پاکستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کا اعتراف کرنے کے مترادف ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کو امریکی دبائو سے نکلنا چاہیے اور آزاد خارجہ پالیسی مرتب کرنی چاہیے۔ اس کے بغیر پاکستان کو درپیش مسائل حل نہیں ہوں گے۔ جن لوگوںکے سروں پر بھارت سے دوستی کا بھوت سوار ہے انہیں چاہیے کہ وہ بھارت چلے جائیں۔ پاکستانی قوم بھارت کو خطہ کا تھانیدار بنانے کی کوششیں کسی صورت ان شا ء اللہ کامیاب نہیں ہونے دے گی۔

Mumtaz Awan

Mumtaz Awan

تحریر:ممتاز اعوان
برائے رابطہ:03215473472