تحریر : ڈاکٹر یاسمین فاطمہ زیدی پاک چین دوستی کے شاہکار منصوبے سی پیک کے تحت گوادر بندرگاہ سے پہلے تجارتی جہاز کو روانہ ہوئے آج تیسرا دن ہے کہ بھارت سرکار نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے ایک طرف بھارتی میڈیا گھٹیا ترین اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کر رہا ہے دوسری طرف بھارتی سرکار نے جارحیت کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے توپ خانے کا استعمال شروع کر دیا ہے جس کے نتیجہ میں پاک فوج کے 7 جوان شہید اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔ جوابی فائرنگ میں کئی بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے اور بھارت کی متعدد پوسٹیں تباہ ہو گئیں۔ گزشتہ ایک سال کے دوران مودی سرکار نے 222 مرتبہ سیز فائر کے معاہدے اور 184 سے زائد مرتبہ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی ہے۔ کراچی بلوچستان سمیت پاکستان کے مختلف شہروں میں دہشت گردی کے واقعات میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ملوث ہونے کے بارے کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ سوال یہ ہے کہ بھارتی جارحیت کے جواب میں ہم کیا کر رہے ہیں؟۔
کیا بھارتی جارحیت کے نتیجہ میں اپنے جوان شہید کروانے کے بعد صرف افسوس کا اظہار کر دینا اور منہ توڑ جواب دینے کی پریس ریلیز جاری کر دینا ہی کافی ہے یا پھر حکومت پاکستان کو بھارت کو دندان شکن جواب دینے کے ساتھ ساتھ ایک مربوط خارجہ پالیسی کے ذریعے دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سمیت گزشتہ چند ماہ کے دوران متعدد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ سفارتکاری کے روپ میں پاکستان میں دہشت گردی کر کے ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کا مذموم منصوبہ پکڑا جا چکا ہے۔
پاکستانی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ ہم بھارتی جارحیت اور جاسوس کے ثبوت یو این او میں لے کر جائیں گے ‘ بھارت کو بے نقاب کریں گے مگر پوری قوم منتظر ہے کہ ہماری حکومت کے پاس کب اس کام کیلئے وقت ہو اور یہ معاملہ حکومتی توجہ حاصل کر سکے۔ گزشتہ روز سوشل میڈیا پر بھارتی چینل کی ایک رپورٹ دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں بھارتی چینل یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ چین سی پیک منصوبے کے نام پر پاکستان پر قبضہ کرنے کیلئے آ رہا ہے اور چین پاکستان سمیت اس خطے کیلئے ایسٹ انڈیا کمپنی ثابت ہو گا اور ساتھ ہی ساتھ میڈیا رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان اور چین مل کر مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک کو سپورٹ کر رہے ہیں۔
Media
بھارتی میڈیا اس جوائنٹ وینچر کو پاک چین کاک ٹیل کا نام دے رہا ہے اور اس حوالے سے جو سب سے بڑی دلیل دی گئی وہ یہ تھی کہ مقبوضہ کشمیر میں گھر گھر تلاشی کے دوران مختلف گھروں سے ایک 100 کے لگ بھگ مشکوک افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن سے پاک چین کے مشترکہ جھنڈے ملے ہیں اور جھنڈوں پر لکھا تھا کہ چین کب ہماری مدد کیلئے آئے گا ہمیں چین کی مدد کا انتظار ہے اس کے علاوہ لشکر طیبہ اور جیش محمد کا لٹریچر وغیرہ بھی ملا ہے۔ میں نے یہ رپورٹ کم از کم تین بار دیکھی اور رپورٹ دیکھنے کے بعد پہلے تو میں کافی دیر تک ہنستا رہا کہ بھارت سی پیک کے منصوبے کی وجہ سے کس قدر پریشان ہے۔ میڈیا سے لیکر خارجہ امور تک ہر محاذ پر پاکستان کیخلاف زہر اگل رہا ہے ‘ بے بنیاد پروپیگنڈہ کر رہا ہے مگر مجھے رپورٹ دیکھ کر بے حد افسوس بھی ہوا کہ بھارتی چینل نے پاکستانی دانشور حضرات حسن نثار ،’ بریگیڈیئر (ر) فاروق حمید ‘ ظفر ہلالی اور سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئر مین طاہر مشہدی وغیرہ کی گفتگو کو موضوع بنایا ہے۔
رپور ٹ میں شامل ایک ویڈیو کلپ میں حسن نثار کہتے ہیں کہ پاک چین دوستی کے نعرے لگانے والوں سے میں 10 سال کے بعد پوچھوں گا اسی طرح بریگیڈیئر (ر) فاروق حمید کہتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کس کی اجازت سے چینی بزنس کمپنیوں کو سرکاری زمین مفت دے رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میاں شہباز شریف یہ ایک بڑی خوفناک گیم کھیل رہے ہیں جس کے نتائج خوفناک نکلیں گے ‘ اسی طرح سینئر تجزیہ کار ظفر ہلالی کی رپورٹ میں شامل گفتگو میں انکشاف کیا گیا ہے کہ حکمران کئی بلیک لسٹ کمپنیوں کو پاکستان میں داخل کر رہے ہیں یہ سب کچھ حکمران اپنے مفادات کے تحت کر رہے ہیں۔
یہاں صورتحال یہ تھی کہ ”سنتا جا شرماتا جا” خیر میں سنتا گیا اور شرماتا چلا گیا کہ ہمارے تجزیہ کار دوست بعض اوقات جوش خطابت میں وہ کچھ کہہ جاتے ہیں جس کو دشمن اپنے مکروہ مقاصد کیلئے استعمال کرتا ہے جیسا کہ بھارت کر رہا ہے۔ ہمارے چند دانشور دوستوں کا نقطہ نظر اپنی جگہ ہو سکتا ہے مگر اس کا استعمال بھارت جس انداز میں کر رہا ہے وہ انتہائی خوفناک ہے۔ دوسری طرف پوری قوم پاک چین دوستی کے سحر میں مبتلا ہے۔ پوری قوم ہو بھی کیوں نہ ، جب درسی کتابوں سے لیکر عملی زندگی کے ہر واقع میں ہم کو یہ بتایا جائیگا کہ پاک چین دوستی شہد سے میٹھی ، ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری ہے تو پھر پوری قوم اسی انداز میں ہی سوچے گی اور یہ سوچ کسی حد تک درست بھی ہے۔
Pakistan and China
پاک چین دوستی کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو چین کا کردار ٹھیک ہی رہا ہے۔ چین نے ہمیشہ ہر برے وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے جہاں تک اپنے اپنے مفادات کی بات ہے تو ہر ملک اور ہر قوم کو پورا پورا حق ہے کہ وہ اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کرے یہ الگ بات ہے کہ چین سمیت وہ تمام ممالک جو ماضی میں پاکستان سے ڈیل کر چکے یا آج کر رہے ہیں وہ اپنے اپنے قومی مفادات کا خیال رکھتے ہیں۔ ممالک کے درمیان تعلقات ون وے ٹریفک یا رومانس نہیں ہوتا بلکہ یہ ٹو وے ٹریفک ہوتی ہے اور دونوں طرف سے مشترکہ مفادات کا معاہدہ ہوتا ہے۔ چین اپنے بین الاقوامی اصولوں کی بنیاد پر آگے بڑھ رہا ہے۔
جبکہ ہم یک طرفہ رومانس میں مبتلا ہو کر چین زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے اپنے مستقبل اور حال سے بے خبر ہو کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ سی پیک گیم چینجر منصوبہ ہے مگر بحیثیت قوم ہم نے اس سے کیسے فائدہ اٹھانا ہے کیا اس کیلئے ہم نے بحیثیت مجموعی کوئی تیاری کی ہے۔ ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ملے گا۔ حکومت کو بند مٹھی کھولنی چاہیے۔ سی پیک کے ثمرات چند سرمایہ داروں تک رکھنے کی پالیسی ترک کر کے پوری بزنس کمیونٹی اور پوری قوم کو اس میں شریک کرنا چاہیے۔
Gawadar Port
بات ہو رہی تھی کہ سی پیک کے منصوبہ سے بھارت کے پیٹ میں کس قدر مروڑ اٹھ رہے ہیں اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں۔ حکومت پاکستان ، پاکستانی قوم ، میڈیا ، عسکری قیادت اور دانشور حضرات کو اس منصوبہ کی تکمیل کے دوران بھارتی سازشوں سے باخبر رہنا ہو گا۔ ہماری معمولی سی کوتاہی بھی اس تاریخ ساز منصوبے کو متاثر کر سکتی ہے۔