ہندوستان میں گاندھی جی کو بابائے قوم (راشٹر پتا) کا لقب حاصل ہے۔گاندھی جی نے ملک کی آزادی کے لیے ستیہ گرہ کو اپنا ہتھیار بنایا۔ستیہ گرہ،ظلم کے خلاف عوامی سطح پر منظم عدم تشدد پر مبنی تحریک تھی۔کہتے ہیں اسی تحریک کی بنا پر ہندوستان کو آزادی نصیب ہوئی۔لیکن انہیں گاندھی جی کو 30 جنوری 1948 کو ایک ہندو قوم پرست ناتھو رام گوڈ سے نے قتل کر دیا۔گاندھی جی کی فکر کا کل انحصار ہی اہنسا پر تھا۔
اس کے باوجود اہنسا کا نظریہ ایک طویل جدوجہد کے بعد بھی بظاہر ناکام نظر آتا ہے۔اور تشدد جو کبھی شخص واحد سے وابستہ تھا آج ایک نظریہ بن چکا ہے۔گزشتہ کئی صدیوں سے عموماً دو ہی گروہ دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ایک وہ لوگ جنہیں فکری و نظریاتی کہا جاتا ہے۔یعنی وہ ہر معاملہ میں ایک واضح سوچ کے ساتھ عمل کے دائرہ میں داخل ہوتے ہیں۔دوسرے وہ جو فکر و نظر سے عاری ہوتے ہیں۔یعنی معاملہ کے وقت ہی اپنی سوچ کا برملا اظہار کرتے ہیںاوراسی کے مطابق عمل بھی۔پہلی قسم کے لوگ نہ صرف اپنی ذات سے بہت حد تک واقف ہوتے ہیں بلکہ دنیا میں اپنے وجود کے تعلق سے بھی فکر مند نظر آتے ہیں۔وہیں دوسری قسم کے لوگ نہ اپنی ذات سے واقف ہوتے ہیں اور نہ ہی اپنے وجود کو پہچانتے ہیں۔پہلی قسم کے لوگ دنیا کے نظام و انصرام کو چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہیں دوسری قسم کے لوگ جاری و ساری دنیا میں فی زمانہ اپنے آپ کو حسب حال ڈھالنے میں ہی مصروف نظر آتے ہیں۔پہلی قسم کے لوگ دنیا کی امامت کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔وہیں دوسری قسم کے لوگ ماتحت کی حیثیت سے زندگی کے شب و روز گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ہندوستان میں بھی انہیں دوقسم کے مختلف افرادوگروہ موجود ہیں۔اس کے باوجود پہلی قسم کے لوگ معدود چند کے سوا کچھ زیادہ نہیں ۔برخلاف اس کے دوسری قسم کے لوگ ہی دراصل گردش ایام میں چہار جانب پھیلے ہوئے ہیں۔جن کی موجودگی ہی پہلی قسم کے لوگوں کو برقرار رکھنے کا اصل ذریعہ ہے۔
ابتدائی گفتگو کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ بات آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے کہ ملک عزیز کی باگ دوڑ فی الوقت اُن افراد کو حاصل ہوئی ہے جو ہر معاملہ میں اپنی ایک واضح پالیسی رکھتے ہیں۔یعنی بااقتدار پارٹی جسے عموماً بی جے پی کے نام سے جانا جاتاہے وہ ایک فکری و نظریاتی سیاسی پارٹی ہے۔لہذا وہ افراد اور گروہ جو دوسری قسم کے ہیں،انہیں ہر معاملہ میں برسر اقتدار نظریاتی گروہ سے ایک واضح فکر و عمل کی توقع رکھنی چاہیے۔اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو سمجھئے کہ ایک سعی لاحاصل ہوگی ساتھ ہی وقت کا زیاں بھی۔شاید کچھ اسی قسم کی رپورٹیں آج کل خصوصاً اردو اخبارات اور عموماً میڈیا کے دیگر ذرائع سے موصول ہو رہی ہیں۔جن میں ایک جانب یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کے ذمہ دار کلیان سنگھ کو موجودہ حکومت نے گزشتہ دنوں ان کی مخصوص صلاحیتوں کے پیش نظر راجستھان کا گورنر بنا دیا ہے۔
وہیں مظفر نگر فساد کے ملزم اور بی جے پی کے رکن اسمبلی سنگیت سوم کو زید پلس سیکورٹی فراہم کی ہے۔اور اس کے لیے وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔دوسری جانب بی جے پی کے اِس عمل سے اتفاق نہ رکھنے والی سیاسی پارٹیوں نے کہیں آرٹی آئی کے ذریعہ سوالات اٹھائے تو کہیں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حکومت کے اس طرح کے قدم سے ملک کے سیکولر تانے بانے کو براہ راست خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔الزم یہ ہے کہ بی جے پی کے متعلقہ رکن اسمبلی نے متنازعہ ویڈیو اَپ لوڈ کرکے مظفر نگر اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں فسادات بھڑکائے تھے۔یہ اور اسی طرح کے دیگر الزامات میں انہیں قومی سلامتی کے قانون(این ایس اے)کے تحت گرفتار بھی کیا گیا تھا۔لیکن ہائی کورٹ نے بعد میں اسے واپس لے لیا تھا۔اترپردیش جہاں یہ واقعہ رونما ہوا وہیں کی برسر اقتدار سماج وادی پارٹی کے ترجمان اور ریاستی وزیر راجندر چودھری کا الزام ہے کہ مرکزکے اس طرح کے قدم سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ وہ جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کر رہا ہے جو فسادات کے لیے ذمہ دار ہیں۔
وہیں کانگریس کے ریاستی ترجمان امرناتھ اگروال نے بھی کہا کہ مرکزی حکومت اپنے شخص کو اتنی سخت سیکورٹی کیسے فراہم کر سکتی ہے جو فسادات بھڑکانے کا ملزم ہے؟حکومت کے اس فیصلہ پر دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے بھی سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔ہر عمل سے پریشان رہنے والے بی جے پی کے اس عمل سے بھی پریشان ہیں جس میں پارٹی کے قومی صدر امت شاہ نے پارٹی کے پارلیمانی بورڈ کی تشکیل نو کرکے سینئر لیڈران اٹل بہاری واجپئی،لال کرشن اڈوانی اور ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کو بورڈ سے خارج کرکے ایک علاحدہ پلیٹ فارم ‘مارگ درشک منڈل’میں شامل کردیا ہے۔ساتھ ہی بی جے پی کے اندرونی معاملوں میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ بات بھی پریشان کن ثابت ہو رہی ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ کو یوپی ضمنی انتخابات کی تشہیری کمان کیوں سونپی گئی؟ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گورکھپور سے ایم پی یوگی آدتیہ ناتھ کو یہ ذمہ داری اس وقت سونپی گئی ہے جب کہ وہ ایک اشتعال انگیز ویڈیو کو لے کر تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں۔ساتھ ہی حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ کو تشہیری مہم کی کمان سونپنے سے یہ بات واضح ہوگئی کہ بی جے پی مسلم مخالف چہروں کو الیکشن میں اتار کر ووٹ کی صف بندی میں مشغول ہے۔چونکہ آدتیہ ناتھ پر فساد بھڑکانے کا الزام بھی عائد ہے جو عدالت میں زیر سماعت ہے۔
Supreme Court of India
لہذا این ڈی ٹی وی کی گروپ ایڈیٹر برکھا دت سے بات کرتے ہوئے یوگی کا کہنا ہے کہ ویڈیو کو جوڑ توڑ کر تیار کیا گیا ہے ،جس کی فورنسک جانچ لازماًکرائی جائے۔اس سب اتھل پتھل میں سپریم کورٹ آف انڈیا نے اپنے تاریخی فیصلے میں وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کو مشورہ دے دیا ہے کہ مجرمانہ معاملوں اور بدعنوانی کے معاملات کا سامنا کر رہے لوگوں کو وزیر نہ بنایا جائے۔چیف جسٹس کی صدارت میں پانچ ججوں کی بینچ نے رائے دی ہے کہ داغدار لوگوں کو وزیر نہیں بنانا چاہیے۔عدالت کی رائے کا اثر مودی سرکار کے موجودہ 14 کابینی وزراء پر پڑ سکتا ہے، ان میں اوما بھارتی بھی شامل ہیں۔جن پر قتل کے 2معاملوں سمیت 13معاملے درج ہیں۔بینچ نے یہ ہدایت اس مفادعامہ کی رٹ پر جاری کی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ مرکز اور ریاستی سرکاروں کو مجرمانہ پس منظر والے افراد کی تقرری نہ کرنے کی ہدایت دی جائے۔
ملک کے موجودہ حالات کے تذکرے کے بعد حالیہ دنوں چند ریاستوں میں ہونے والی ضمنی انتخابات اور ان کے نتائج نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ جس “مودی فیکٹر”کی بات لوک سبھا الیکشن میں کی جا رہی تھی وہ اب کمزور ہورہاہے ۔جس کے نتیجہ میں بی جے پی پر چڑھا نشہ ضمنی انتخابات کے نتائج سے کسی حد تک ٹوٹ گیا ہے۔بہار میں لالو نتیش اتحاد نے غیر این ڈی اے والی سیاسی پارٹیوں اور عوام کو مثبت اشارے دیے ہیں۔وہیں کانگریس پارٹی کو راحت ملی ہے اورعام آدمی پارٹی فی الوقت منظر سے غائب ہے۔ان نتائج سے بی جے پی حامیوں کو ایک بات اورجو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے وہ یہ کہ گزشتہ دنوں لوک سبھا انتخابات میں اُسے مثبت سے زیادہ منفی ووٹ ملے تھے۔مینڈیٹ بی جے پی کو فتح سے ہمکنار کرنے سے زیادہ یو پی اے کو شکست دینے کا تھا۔بہر حال بی جے پی اور ان کے حلیفوں کو یہ پیغام خوب اچھی طرح مل چکا ہے کہ وہ ان نتائج کے منفی اثرات پر سنجیدگی سے غور کریں۔ساتھ ہی یہ بات بھی یاد رکھیں کہ سیاست میں کوئی کامیابی مستقل نہیں ہوتی۔
دوسری طرف ضمنی انتخابات کے نتائج نے خصوصاً مسلمانوں کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ گزشتہ دنوں جس طرح بی جے پی کی کامیابی اور سیکولر اتحاد کی ناکامی کا ٹھیکرا مسلمانوں کے سر پھوڑا جا رہا تھا،ایسا معاملہ اب نہیں ہے۔چونکہ سیکولر اتحاد کو مختلف مقاما ت پر کامیابی ملی ہے،لہذا اس کامیابی میں مسلمانوں کا کوئی خاص کردار نہیں ہے۔ٹھیک یہی معاملہ اس وقت بھی تھا جب غیر یو پی اے اتحاد کو کامیابی ملی تھی۔اس کے باوجود ایک جانب مسلمانانِ ہند خود تو وہیں دوسری جانب ناکامی سے ہمکنار افراد اور پارٹیاں بھی خصوصاً مسلمانوں کو ہی مورد الزام ٹھہرا رہی تھیں اور آخری بات یہ کہ چونکہ فی الوقت ملک کے موجودہ مسائل کے حل میں شعوری طور پر ہندی مسلمان کوئی موثر کردار ادا نہیں کر رہے ہیں۔لہذا اُن کو کسی قیمت اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہیے کہ دیگر افراد،گروہ ،سیاسی پارٹیاں یا حکومت ِوقت اُنہیں کسی قسم کی اہمیت دے گی۔ہندوستانی مسلمان ملک و معاشرہ میں اہمیت اسی وقت حاصل کر سکتے ہیں جب کہ ایک جانب وہ خود اپنی حیثیت سے بہ خوبی واقف ہوں۔وہیں دوسری جانب مسائل کے حل میں موثر کردار ادا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔لیکن افسوس کہ سب سے مستحکم فکر و نظر کے حاملین ہی درحقیقت فکر و نظر سے عاری ہیں۔پھر کیونکر وہ یہ توقع رکھتے ہیں کہ دنیا انہیں اہمیت دے یا ان کی شناخت کو برقرار رکھا جائے۔
Mohammad Asif Iqbal
تحریر : محمد آصف اقبال، نئی دہلی maiqbaldelhi@gmail.com maiqbaldelhi.blogspot.com