دہشت گرد انتہا پسند نریندر داس مودی کی حکومت نے دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کے دیے گئے ہندوتوا کے منشور پر عمل درآمند کرتے ہوئے پہلے کشمیر کے متعلق بھارت کے سیکولر آئین میں خصوصی شکوں ٣٧٠ اور ٣٥اے کو٥فروری٢٠١٩ء کو بھونڈے انداز میں بھارتی پارلیمنٹ میں ایک بل کے ذریعے ختم کیا ہے۔کشمیری مسلمان اس وقت سے احتجاج کر رہے ہیں۔ کشمیر میں اُس وقت سے کرفیو اور لاک ڈائون ہے۔کشمیر میں میڈیا اور انٹر نیٹ پر پابندی کی وجہ سے کشمیری مسلمانوں پر مظالم دنیا کے سامنے نہیں آرہے۔اس کے بعد بھارتی مسلمانوں پر دبائوبڑھانے کے لیے، سی اے اے ،این پی آر اور این سی آر جیسے مسلم دشمن ،مردم شماری اور شناخت کے نام پر پارلیمنٹ سے قانون پاس کیے۔ کہا گیا کہ پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آئے ہنددئوں ، سکھوں عیسائیوں کو تو بھارت کی شہرت دی جائے گی مگر مسلمان اس سے محروم رہیں گے۔
بلکہ ١٩٧١ء سے پہلے بھارت میں رہنے والوں کو تو بھارتی شہری مانا جائے گا۔ اس کے بعد بھارت آنے والوں کو بھارتی شہرت سے محروم رہیں گے۔اس کے لیے اگلے ماہ اپریل سے گھر گھر حکومت کے نمائیندے آئیں گے اور مردم شماری کے نام پر ایسی ایسی معلومات شہریوں سے معلوم کی جائیں گی جو مشکل ترین ہیں ۔ مثلاً مسلمان بھارتی شہری کو بتانا پڑے گا کہ اس کے خاندان ١٩٧١ء سے پہلے بھارت میں رہ رہے ہیں،تواس کے لیے جائداد کے مالکیتی کاغذی ثبوت پیش کرنا پڑے گے۔صدیوں سے آباد مسلمانوں خاص کر دیھاتی غریب عوام کے پاس اتنا پرانا ریکارڈ کہاں ہوتا ہے۔حکومتی نمایندہ معلومات لے کر جائے گا۔ اور اس کو قانونی حق حاصل ہے کہ کسی بھی شہری کی طرف سے مہیا کی گئی معلومت پر مشکوک لکھ دیں۔ پھر شہری اپنی شہرت ثابت کرنے کے لیے کورٹ کچہری سے رجوع کرے گا۔ اس ددران ایسے شہریوں کو ڈیٹینشن سنٹروں میں منتقل کر دیا جائے گا جو موددی حکومت نے پہلے سے بنائے ہوئے ہیں۔اس طرح اُن سے ووٹ دینے کا حق چھین لیا جائے گا۔ مشکلات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ اور ہندو انتہا پسندی کا مذہبی ایجنڈا مکمل ہونا شروع ہو جائے گا۔
مسلمان یا تو ہندو بن جائیں گے اور نہیں تو دو نمبر کے بھارتی شہری بننے پر مجبور کر دیے جائیں گے۔ جیسے باہر سے آکر آریائوں نے جب ہندوستان پر قبضہ کیا تھا تو ان کے پرانے اور اصل باشندوں، دراوڑوں کو تکالیف دے دے کر شودر بننے پر مجبور کیا تھا ۔ وہ باقی ہندوئوں کی خدمت کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ان کی بستیاں علیحدہ کر دی گئیں تھی۔وہ ہندوئوں کی لیٹرینیں صاف کرنے اور سڑکوں پر جھاڑو لگانے کا پیشہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیے گئے تھے۔دراوڑ آج تک شودر کی حیثیت سے ہندو سماج میں رہ رہے ہیں۔ یہ وہی ایجنڈا ہے جو ہٹلر کی قوم پرستی کے ایجنڈے پر چلتے ہوئے آر ایس ایس کے بنیادی رکن، گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ اور قصائی اور بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر داس مودی نے مسلمانوں کے ساتھ اختیار کیا ہے۔ان ناروا قوانین کے خلاف پورے ہندوستان میں مسلمان مظاہرے کر رہے ہیں۔کئی بھارتی ریاستوں نے ان کالے قوانین کو نامنظور کرتے ہوئے اپنی ریارستی پارلیمنٹ میں نامنطور ی کے بل پاس کیے۔پورے بھارت کے مسلمانوں نے اس قوانین کے کے خلاف پر امن مظاہرے شروع کیے۔ان کے ساتھ انصاف پسند ہندو اور سکھوں نے بھی یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔
پورے بھارت میں مظاہروں کے ساتھ ساتھ دہلی شائین باغ میں تین ماہ سے خواتین دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ممبر پارلیمنٹ بیرسٹر اسدالدین اویسی جاری پر امن تحریک کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ دہشت گرد مودی حکومت نے اپنے مخصوص مقاصد حاصل کرنے کے لیے خود اپنے غنڈے بھیج کر مسلمانوں پر تشدد کیا۔ مسلمانوں کی بستیوں پرجے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے مسلح غنڈے حملے کر رہے ہیں۔پولیس غنڈوں کے ساتھ مل کر مسلمان پر امن مظاہریں پر پتھرائو کررہی ہے۔ اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائر ہے جو دیکھی جا سکتی ہیں۔ ایک عرصہ سے مسلمانوں کے خلاف حکومتی نمایندے ایسے بیانات دے رہے ہیں۔ ایک جلسہ میں ہاتھ لہراتے ہوئے حکومت نمایدہ کہہ رہا ہے” غداروں کو”۔۔۔ ہجوم جواب دے رہا ہے” گولی مار دو”۔بھارتی ٹاک شوز میں انصاف پسند لوگ کہہ رہے ہیں کہ موجودہ تشدد کی وجہ یہی نعرے ہیں۔اس سے متشدد ہندوئوںکو شہ ملی ہے۔ ایک ویڈیومیںآر ایس ایس کے لیڈر اپنے کارکنوںکو ہدایات دے رہا کہ احتجاج کرنے والے مسلمانوں کو” قتل کر دو”۔ درجنوں مظالم کی ویڈیو سوشل میڈیا میں وائرل ہیں۔ مودی حکومت نے ایک منصوبے کے تحت پر امن مظاہرین میں انتہا پسند متشددہندئو غنڈوں کو مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے شامل کیا ہے۔ مسلم کش فسادات میں ابھی تک ٣٢ مسلمانوں اور دو ہنددئوں پولیس والوںکی شناخت ہو چکی ہے۔ دو سو کے لگ بھگ زخمیوں کی نشاد دہی گئی ہے۔
صاحبو! ہم ایک عرصہ سے لکھ رہے ہیں کہ ہندوستان کے بٹورے کو ہنددئوں نے دل سے نہیں مانا۔ وہ پاکستان کو ختم کر کے اکھنڈ بھارت میں شامل کرنے کے اپنے پرانے ڈاکڑائین پر عمل پیرا ہیں۔ ہندو لیڈر شپ کا ماننا ہے کہ قائد اعظم نے ہماری گائوماتاہندوستا ن کے دو ٹکڑے کیے تھے ۔ ہمیں ان ٹکڑوں کوواپس ملانا ہے۔مشرقی پاکستان کو اسی ڈاکٹرائین کے مطابق بنگلہ دیش بنایا گیا۔ مودی کھلے عام پاکستان کو سبق سکھانے پر الیکشن جیتا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی میں بھارت ،امریکا اور اسرائیل کے ساتھ شامل رہا ہے۔ قوم پرست افغانستان کے ساتھ مل کر آئے دن پاکستان میں دہشت گردی کراتا رہتا ہے۔بھارت میں ہندوتوا رائج کرنے کے ایجنڈے پر عمل کر رہا ہے۔ جس میں بھارتی مسلمانوں کو کہا جارہا کہ ہندو بن جائویا دو نمبر شہری بن کے رہو ورنہ پاکستان چلے جائو۔
قارئین!جب بھارت پاکستان کو ختم کرنا چاہتا ہے ۔متشدد،دہشت گرد مودی نے آر ایس ایس کے ہٹلر والے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ ہٹلر جیسی ہولو کاسٹ والا معاملہ کر رہ ہے۔ پہلے پاکستان کے دو ٹکڑے کیے اب اس کے مذید دس ٹکڑے کرنے کی دھکمیاں دے رہا ہے۔ بلکہ ان دھکمیوں پرعمل بھی کررہا ہے تو کیا آسانی سے بھارت کو ایسا کرنے دیا چاہیے یا ایٹمی اور میزائل قوت والے پاکستان کو اس کا مقابلہ کرنا چاہیے ۔ یہی سوال ہر پاکستانی اور ہم سارے پاکستانی حکمرانوں سے ایک عرصے سے کر رہے ہیں۔ہمیں معلوم ہے کہ اس سے قبل کے سیاستدانوں کوبھارت کے جارحانہ ا قدام سے کوئی غرض نہیں رہی۔ بلکہ صرف اپنی حکمرانی سے غرض رہی۔ بھارت کو کبھی بھی کرارہ جواب نہیں دیا گیا۔ مسئلہ کشمیر کو ایک طرف رکھ آلو پایز کی تجارت کو ترجیح دیتے رہے ۔
عمران خان کی پہلی حکومت ہے کہ بھارت کے جارحانہ اقدام کو اقوام متحدہ میں ذبردست طریقے سے للکارہ۔ بھارت کے حملے کا بروقت اورکرارہ جواب بھی دیا۔ جب کہ پہلی حکومت نے کارگل پر جیتی ہوئی بازی کو کو اپنی بزدلی سے ہار میں تبدیل کر دیا۔ لیکن پاکستانی عمران خان حکومت سے کہتے ہیں کہ زبانی خرچ کی بجائے ملک میں مدینے کی اسلامی ریاست کو عملی شکل میںنافذ کر دو۔ دھمکیوں کے خلاف جہاد فی سبیل اللہ کا اعلان کر دو۔جنگ میں پہل نہ کرنی کی پالیسی پر کاربند رہو۔ مگر بھارت کو بتا دو کہ اگر دوبارہ حملہ کیا تو یاد رکھو اگرپاکستان نہیں تو پھر بھارت بھی نہیں۔ اس سے مظلوم بھارتی مسلمانوں اور مہینوں سے بھارت سے جنگ میںشریک کشمیریوںکو اپنی جدوجہد مذید بڑھانے کا حوصلہ ملے گا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم مسلمان ہیں جب بھی مسلمانوں نے اللہ کے نام پر جہاد شروع کیا اللہ نے انہیں فتح عطا کی ۔جہاد سے کشمیر آزاد ہو گا پاکستان کی تکمیل ہو گی۔ بھارت کے مسلمان بھی سر اُٹھا کر زندہ رہ سکیں گے۔ یہ موجودہ مسئلہ کا حل ہے۔