ہندوستان میں دو بڑی قومیں ہندو اور مسلمان رہتے تھے۔مسلمانوں نے ہندوستان پر محمد بن قاسم سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک ہزار سال سے زیادہ حکومت کی۔مسلم دور میں ہندوئوں کو مذہبی، تہذیبی اور معاشرتی آزادی تھی۔ بعد میں تجارت کے بہانے مکار انگریز نے ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔
انگریز نے مسلمانوں کو دبا کے رکھنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ ان میں پیسے کے زور پر غدار پیداکیے۔مسلمانوں کے علاقوں میں صعنتیں نہیں لگائیں۔مسلمانوں کو تعلیم سے دور رکھنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ انگریز کو خوف تھا کہ جہادی مسلمان ان سے حکومت واپس نہ چھین لیں۔ مسلمانوں میں جہاد کاجذبہ ختم کرنے کے لیے مرز غلام احمد قادیانی کو کھڑا کیا۔ مسلمانوں نے انگریز سے قبضہ چھڑانے کے ١٨٥٧ء کی جنگ شروع کی۔کچھ مسلمان غداروں نے انگریز کا ساتھ دیا۔
اپنے اپنے علاقوں میں مجائدین جنگ آزادی کو انگریز فوج سے مل کر تہہ تیغ کیا۔ جائیدادوں کی زبردستی ضبطی، کالا پانی کی قید و بند کی سزائیںاور اُس زمانے میں ہندوستان کی شاہروں کے ادر گرد درختوں پر لٹکی مجائدین کی لاشیں اس ظلم و سفکیت کی گواہی دیتی رہیں۔انگریز کے ہندوستان پر قبضہ سے پہلے مسلمانوں کے دور میں برعظیم کا دنیا کی آمدنی میں ستائیس(٢٧) فی صد حصہ تھا۔ جب کہ انگریز وں کے دور میں یہ ختم ہو کر ناقابل یقین حد تک گر گیا۔انگریز کے آنے سے پہلے ہندوستان میںمسلمانوں میںمدرسہ کے ذریعہ یکساں نظام تھا جس کی وجہ سے تعلیم عام تھی۔ مگر انگریز نے اس نے مدرسہ اور اسکول کو علیحدہ علیحدہ کر کے تعلیم کو نقصان پہنچایا۔ لارڈ میکالے کے تجویز کردہ نظام تعلیم میں کلرک پیدا کیے ۔لارڈ میکالے کا نظام تعلیم اب بھی پاکستان میں رائج ہے۔
جب انگریز ہندوستان سے جانے لگے تو ان کی خواہش تھی کہ جاتے وقت اقتدار اپنے لے پالک ہندوئوں کو دے کر جائے۔ ایک تو دنیا میں مروجہ متحدہ قومیت کے مطابق ہندوستان میں رہنے والی ساری قومیں ایک ہندوستانی قوم ہیں۔ ہنددراشرٹیہ سوایم سیوک سنگھ( آر ایس ایس) کو مذہبی طور پر مانتے ہیں۔ اب بھی آر ایس ایس کا منشور ہے کہ ہندوستان ہندئوں کا ہے باقی قومیں یا تو ہندومذہب اختیار کریں یا ہندوستان سے چلیں جائیں۔ آر ایس ایس اپنے نظریات پر تشدد سے عمل کرتی ہے۔اس کے لیے اس نے بھارت میں اسلحہ تنظیمیں بنائی ہوئی ہیں۔ اسی لیے انگریزوں نے اپنے دور حکومت میںاس پر پابندی بھی لگائی تھی ۔انگریز کے راج کردہ جمہوری نظام میں حق ِحکومت اکژیت ہی کا بنتا ہے۔شاید اسی پرحکیم الامت حضرت شیخ علامہ محمد اقبال نے اس جمہوری نظام کی گرفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ :۔
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں۔۔۔تولا نہیں کرتے
بانی ِپاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک وکیل ہونے کے ناتے سمجھ لیا تھا کہ انگریز کے جانے بعد اگر ہندوستان متحدہ قومیت رہی تو آر ایس ایس کے نظریات کے پیرو مسلمانوں کو یا تو تشدد کے ذریعے ہندو بنا لیںگے یا پھر ہندوستان سے جبری نکال دیں گے۔یہ ہی کچھ اسپین میں عیسائیوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیا تھا۔علامہ اقبال نے برعظیم کے محکوم مسلمانوں کو پہلے سے ہی آگاہ کر رکھا تھا کہ مسلمانوں عام قوموں کی طرح ایک قوم نہیں۔ بلکہ یہ نظریات پر مبنی ملت ہیں۔ علامہ اقبال مغرب کی قومتیوں کا گہری نظر سے مطالعہ کر چکے تھے۔ اس لیے مسلمانوں کو اپنے اس شعر میں ہوشیار کیا کہ:۔
اپنے ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولۖ عاشمی
تحریک پاکستان کے دوران سید ابوالاعلیٰ ٰ مودودی نے قومیت پر مضمون لکھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے یہ مضمون پورے ہندوستان میں پھیلائے ۔ جس سے قائد اعظم کے دو قومی نظریہ کو تقویت ملی ۔ قائد اعظم نے اسی بنا پر ہندوستان میں دو قومی نظریہ پر مسلمانوں کے لیے پاکستان کا مطالبہ کیا۔ برعظیم کے مسلمانوں کو مسلم قومیت پر اکھٹا کیا۔پورے ہندوستان میں نعرہ مستانہ ”پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ” گوجنے لگا۔ ”مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ”۔ ”بن کے رہے پاکستان۔ لے کے رہیں پاکستان” اسی مذہبی جوش پر اُن صوبوں کے مسلمانوں نے بھی پاکستان کے حق میں رائے دی تھی جن کے صوبوں میں پاکستان نہیں بننا تھا۔
قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں دلیل کی بنیاد پر پر امن طریقے یعنی بغیر جنگ وجدل کے پاکستان بنا۔ اس میں اللہ کا ہاتھ تھا۔جب اللہ کے بندے اللہ سے عہد کرتے ہیں کہ تو ہمیں ایک خطہ زمین عطا کر۔ ہم اس خطہ زمین میں تیرے قانون کے مطابق زندگی گزاریں گے۔یعنی لا الہ الا اللہ کے مطابق،تو پھر اللہ نے برعظیم کے مسلمانوں کو اس عہدپر مثل مدینہ ریاست” مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان عطا کی۔
ہندوستان اپنے آئین کے مطابق ایک سیکولر ملک ہے۔ مگر عملاً اس وقت وہ آر ایس ایس کے بنیادی رکن تشدد پسندمودی کے قبضے میں ہے۔مودی اپنی جماعت آر ایس ایس کے پرانے نعرے کہ ہندوستان ہندوئوں کا ہے۔ جس نے اس میں رہنا ہندو بن کے رہے یابھارت سے چلا جائے۔ بھارت کے مسلمان اس پالیسی کے تحت زندگی گزانے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ ہندوستان کی تقسیم کے فوراً بعد سیکولربھارت کے حکمران مشاہدہ کرنے اسپین گئے ،کہ دیکھیں اسپین سے مسلمانوں کو کیسے نکالا گیا۔پھر جموں کے مسلمانوں کو ہندو حکمرانوں نے کہا کہ آپ ایک جگہ جمع ہو جائو تاکہ تمھیں پاکستان بھیجنے کا انتظام کیا جائے۔ جموں کے مسلمان ایک جگہ جمع ہوئے تو انہیں بسوں میںبٹھایاگیا۔ جموں سے باہر ایک ندی کے قریب پانچ لاکھ مسلمان کو اجتماہی طور پر قتل کر دیا گیا۔
بھارت میں مسلمانوں کو سرکاری نوکریاں نہ ملنے کے بربر ہیں۔ وہ کہیں چھاپڑی لگاتے ہیں ۔مسلمان ترقی کرتے کرتے کوئی چھوٹا موٹا کارخانے لگاتے ہیںتو ایسے علاقوںمیں ہندو مسلم فسادات کروا کر مسلمانوں کے مال اسباب کو آگ لگا دی جاتی ہے۔ایسے ہزاروں فسادات ہو چکے ہیں۔مودی جب گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا تو اس نے تو تین ہزاروں مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا تھا۔اب پورے بھارت میں آر ایس ایس کی پالیسی پر عمل کرنے کی عوام کو کھلی چھٹی ہے۔ آئے دن ہجوم کسی نہتے مسلمان کو گھیر لیتے ہیں اور جئے شری رام کے نعرے لگانے کاکہتے ہیں پھر اسے مار مار کر شہد کر دیتے ہیں۔گائے کا گوشت کھانے کی شک میں مسلمانوں کو قتل کر دیتے ہیں۔کہیں آذان پر پابندی اور کہیں نماز پڑھنے پرپابندی لگائی جاتی ہیں۔پی جے پی کے وزیر کہتے ہیںکہ مسلمانوں کے ٹوپی اُتار کر کلنک لگانے پر مجبور کر دیں ۔ اس سے قبل بی جے بی کے ایک صاحب کہہ چکے ہیں ٢٠٢٢ء تک بھارت سے مسلمانوں کا خاتمہ کر دیں گے۔
شدی تحریک کے ذریعے مسلمانوں کو ہندو بنانے کی تحریک کانگریس کے دور حکومت میں چلتی رہی۔ اب بھی گھر واپسی تحریک جاری ہے ۔ مسلمان لڑکیوں کا ہندو لڑکوں سے ذبردستی شادیاں کرائی جا رہی ہیں۔ اس میں ہندوئوں کا پورا معاشرہ شامل ہو گیا ہے ۔ وہ مسلمانوں کو ہندو بننے یا پھر بھارت چھوڑ جانے کے لیے مجبورکر رہے ہیں۔ ١٩٩٢ء میںبابری مسجد کے متعلق بھارت کی سپریم کورٹ کایک طرفہ فیصلہ ہے۔کچھ دن پہلے بھارت میں نام نہاد احمد آباد ہم دھماکے میں اڑتیس (٣٨) مسلمانوں کو سزائے موت اور بھارتی گجرات کی خصوصی عدالت نے گیارہ( ١١) مسلمانوں کو عمر قید کی سزا سنائی ۔ہائی کورٹ نے اس فیصلے کی توثیق بھی کر دی۔ جبکہ سانحہ سمجھوتہ ایکپریس جس میں سو سے کچھ کم مسلمانوں کو زندہ جلا دیا تھا۔ مجرموں پر جرم ثابت بھی ہو گیا ۔پندرہ( ١٥) سال ہونے کو ہیں کہ مسلمان متاثرین انصاف کے منتظر ہیں۔اب ہندومسلمانوں کے مذہبی شعار حجاب کے پیچھے پڑھ گئے ہیں۔ بھارت میں تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے والی لڑکیوں کو ہرساں کیا جاتا ہے۔
تعلیمی اداروں میںکوئی بھی مسلمان لڑی حجاب پہن کر داخل نہیں ہو سکتی ۔اسی سلسلے میں کرناٹک کے ایک کالج میں مسکان خان طالبہ کو ہرساں کیا گیا۔ کالج کے باہر آر ایس ایس کے غنڈے جمع ہو گئے۔ جب مسکان خان کالج میں اپنا اسانمنٹ داخل کرانے داخل ہونے لگی تو راستے میں اسے برقعہ اُتار نے کا کہا گیا۔ مسکان خان کے سامنے غنڈے جئے شری رام جیے شری رام کے نعرے لگا کر مسکان خان کو ہراساں کرنے لگے۔ تو امت مسلمہ کی شرینی مسکان خان نے ان کے شری رام کے نعروں کے جواب میں اللہ اکبر۔اللہ اکبر ۔اللہ اکبر کے نعرے لگائے۔ اس پر بھارت اور پوری مسلم دنیا میں مسکان خان کی اس بہادر ی کی داد دی جا رہی ہے۔ بنک میں جا کر اپنے اکائونٹ سے پیسے نکانے والی حجاب پہنے ہوئی ْخاتون کوواپس کر دیا گیا کہ حجاب اُتارو تب بنک میں داخل ہو۔حجاب پر پانبدی کے خلاف احتجاج کرنے پر دس( ١٠)طالبات پر مقدمہ قائم کر دیا گیا۔درجنوں طالبات کو معطل کر دیا گیا۔کشمیر میں تو مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔
عمران حکومت نے بھارت کے ریاستی دہشت گردی کو ہتھیار کے طور کرنے پر استعمال کرنے پر احتجاج کیا۔ پاکستان نے کہا کہ اقوام متحدہ بھارت کو مسلمانوں پر زندگی تنگ کر دینے سے روکے۔دفتر خارجہ نے کہاکہ بھارت میں مسلم کیمونٹی کے ساتھ امتیازی اور غیر انسانی سلوک بھارت منظم مہم کا خوفناک مظہر ہے۔ عالمی برادی بالخصوص انسانی حقوق کی تنظیمیں صورتحال کا نوٹس لیں۔ ہماری حکومت کو یہ بات پلے باند ھ لینی چاہیے کہ بھارت کا مودی ہٹلر کی قومی برتری والے فلسفے پر کار بند ہے۔ جو اس کی مدر تنظیم آر ایس ایس کا بنیادی فلسفہ ہے۔مودی کے اس فلسفے کا مقابلہ اسلام کے جہادی فلسفے سے ہی ممکن ہے۔ مودی حکومت کہتی ہے کہ پہلے پاکستان دو ٹکڑے کئے تھے اب دس ٹکڑے کریں گے۔ اس پر عمل کرنے کے لیے پوری دنیا میں میڈیا اورسفارتی مہم چلائی ہوئی ہوئی ہے۔ باقی کیا رہ جاتا ہے ۔
بھارت نے ہماری شہ رگ کو اپنے ہی آئین کی خلاف وردی کرتے ہوئے بھارت میں ضم کر لیا ہے۔کیا کوئی ملک شہ رگ کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے؟کیا بھارت جب کشمیر کے سارے دریائوں کا پانی روک پاکستان کر پاکستان کوخشک سالی میں مبتلا کر کے صفحہ ہستی سے مٹا دے گا۔ تب ہمارے حکومتیں حرکت میں آئیں گی۔ کیا قرآن ہدایت نہیں دیتا کہ دشمن کے مقابلے میںگھوڑے تیار رکھو؟۔ کیا پاکستان نے ایٹم بم الماری میں سجانے کے لیے بنایا ہے؟۔کیا ہماری فوج صرف ایکسر سائز ہی کرتی رہے گی۔ اپنے ملک کو بچانے کے لیے کوئی تدبیر نہیں کرے گی؟
بھارت کے ان مظالم اور پاکستان کوختم کرنے کی دھمکی پر پاکستان کو بھارت پر واضح کر دینا چاہیے کہ جیو اور جینے دو پر عمل کرے ورنہ سخت رد عمل کے لیے تیار ہو جائے۔ عمران خان کے پاکستان کو مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے اعلان پر ہم اپنے کئے کالموں میں درخواست کر چکے ہیںکہ اسلام کی تعلیمات ہیں کہ اگر کسی مسلم ملک کے پڑوس میں کافر ملک مسلمانوں پرظلم ڈھا رہا ہے تو سب سے پہلے اس ملک اور بعد میں دوسرے اسلامی ملکوں کی ذمہ داری ہے کہ مظلوم مسلمانوں کو اس ظلم سے نجات دلائیں۔ جہاں تک بھارت سے مقابلے کا معاملہ ہے تو عمران خان کو پاکستان میں صرف مدینے کے فلاحی ریاست کے نعرے کے بجائے صحیح اسلامی نظام حکومت قائم کر دینا چاہیے ۔ اس اقدام سے پچھتر( ٧٥) سالوں سے اسلامی نظام ِحکومت کاانتظار کرنے والی پاکستان کی خاموش اکثریت اپوزیشن کو چھوڑ کر عمران خان کے ساتھ شامل ہو جائے گی۔ دینی جماعتیں بھی عمران خان کا ساتھ دینے پر مجبور ہو جائیں گی۔ شریعت کورٹ کے فیصلے کے مطابق پاکستان میں سودی نظام کو ختم کیا جائے۔
بنکنگ اور تجارت کو شراکت کی بنیاد پر رائج کیا جائے۔ انگریزی قانون کو ختم کر کے اسلامی قاضی بنائی جائیں تاکہ مقدموں کا فیصلہ جلد ہو۔اس کے بعد عمران خان کو بھارت کے خلاف جہاد کا اعلان کر دینا چاہیے۔ پاکستان کو بھارت سے بچانے کا پوری پاکستانی قوم سے عہد لیناچاہیے۔ تحصیل لیول پر جمع ہو کر پاکستانی بھارت سے پاکستان کو بچانے لیے جہاد کے لیے تیار رہنے پر عمران خان سے عہد کریں۔ہم اسلامی تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر گارنٹی دیتے ہیں کہ پاکستانیوں کے اس عمل سے بھارت کے ایوانے میں کھلبلی مچ جائے گی۔ یہودیوںکی طرح ہزار سال زندہ رہنے کی دعائوںمانگنے والے دولت کے بجاری بھارتی ہندومعاشرہ اسلامی کے جہادی معاشرے سے شکست کھاجائے گا۔ عملی جہاد کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ صرف یہی ایک راستہ ہے ۔اللہ کرے عمران خان حکومت ایسا ہی کرے ۔کیا ہم بھارت سے پاکستان کو بچانے ، بھارتی مسلمانوں پر بھارتی حکومت کے ظلم و سفاکیت روکنے اور انہیں اپنے مذہب پر آزادی سے عمل کرنے کے لیے ایسا بھی نہیں کر سکتے؟