ممبئی (جیوڈیسک) بھارت نے اپنی فضائیہ کے پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن ورتھمان کو رہا کرانے کی کوششیں تیز کر دی ہیں لیکن یہ اتنا آسان نظر نہیں آ رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق پائلٹ کی گرفتاری سے وزیر اعظم مودی کی سیاسی مشکلات مزید بڑھ سکتی ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی علاقے بالاکوٹ پر مبینہ فضائی حملہ کے بعد جس طرح وزیراعظم نریندر مودی کے حق میں تعریف کے پل باندھے جارہے تھے اور حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اس ’کامیابی‘ کا سہرا مودی کے سر باندھنے کی کوشش کررہی تھی اس کی اب ہوا نکلتی جارہی ہے۔
ونگ کمانڈر ابھی نندن کی پاکستان میں گرفتاری کے معاملے سے ان کی زبردست سبکی ہوئی ہے اور وزیر اعظم مودی کے لیے سیاسی محاذ پر صورت حال مزید مشکل ہوسکتی ہے۔ چونکہ عام انتخابات سر پر ہیں اس لیے حزب اختلاف کی جماعتیں حکومت اور وزیر اعظم مودی کو گرد گھیرا تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گی۔
ایسے میں تجزیہ کار یہ سوال کررہے ہیں کہ کیا وزیر اعظم مودی دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے پاکستان پر مزید فضائی حملوں یا محدود زمینی کارروائی کا حکم دیں گے لیکن ان میں سے کوئی بھی متبادل خطرے سے خالی نہیں ہے کیوں کہ پاکستان کی طرف سے جوابی کارروائی کا خطرہ بہرحال برقرار رہے گا۔
دوسری جانب بھارت نے ونگ کمانڈر ابھی نندن کو پاکستان سے واپس لانے کی تمام ممکنہ اقدامات شروع کردیے ہیں۔ سابق آرمی چیف اور جونیئر وزیر خارجہ جنرل وی کے سنگھ نے میڈیا کو اس حوالے سے بتایا، ’’ہماری کوششیں جاری ہیں اور جنیوا کنونشن کے تحت ہمیں امید ہے کہ ہمارا بہادر پائلٹ جلد ہی اپنا وطن واپس لوٹ آئے گا۔‘‘
تاہم یہاں سفارتی اور اسٹریٹیجک امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ مرحلہ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ سفارتی تعلقات سے متعلق بین الاقوامی قوانین کے تحت پاکستان کے قبضہ سے بھارتی پائلٹ کی واپسی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
اس سلسلے میں جنیوا کنونشن واضح طور پر صرف جنگی قیدیوں سے متعلق ہے جب کہ بھارتی پائلٹ کو پاکستان نے جن حالات میں گرفتار کیا گیا ہے اسے ’جنگ‘ نہیں قرار دیا جاسکتا۔ لہذا اب دونوں ممالک صرف’خیر سگالی‘ کی بنیاد پر ہی اس مسئلے کو حل کرسکتے ہیں۔
اسٹریٹیجک امور کے ماہرریٹائرڈ ایئر وائس مارشل کپل کاک نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’جنیوا کنونشن کے تحت ایک واضح پروٹوکول ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جنگی قیدیوں کی دیکھ بھال کرنا اس ملک کی ذمہ داری ہے جو انہیں قیدی بناتا ہے۔ ان کی طبی اور دیگر ضروریات کا خیال رکھنا بھی اسی ملک کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ماضی میں بھارت اور پاکستان اس پر عمل کرتے رہے ہیں۔ لیکن یہ سب جنگ کے دوران ہوتا ہے۔ موجودہ معاملہ میں ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے کیوں کہ دونوں میں سے کسی ملک نے بھی ابھی جنگ کا اعلان نہیں کیا ہے۔‘‘
ایئر وائس مارشل کپل کاک کا مزید کہنا تھا، ’’ابھی نندن کے لیے صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ اسے سفارتی طریقہ سے قید سے رہائی دلائی جائے لیکن اس کے لیے فی الحال کوئی سفارتی قانون نہیں ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان کوئی معاہدہ ہونا چاہیے، جس کے تحت ونگ کمانڈر ابھی نندن کو پاکستان سے واپس لایا جاسکے ۔ لیکن اس کے لیے دونوں ملکوں کو اس قانون پر سفارتی اور فوجی لحاظ سے رضامند بھی ہونا پڑے گا۔ ہمیں امید کرنی چاہیے کہ پاکستان اس معاملے میں فراخدلی سے کام لے گا۔‘‘
سفارتی امور کے ماہر سری موئے تعلقدار کا اس حوالے سے کہنا تھا، ’’بھارت کو سفارت کاری سے کام لینا چاہیے۔ اسے پاکستان کو اس کی ذمہ داریاں یاد دلانی چاہییں اور ونگ کمانڈر کی جلد از جلد اور بحفاظت رہائی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ موجودہ صورت حال میں یہ بات زیادہ امید افزا ہو گی کیونکہ دونوں میں سے کسی ملک نے بھی جنگ کا اعلان نہیں کیا ہے اور تعلقات جیسے جیسے کشیدہ ہوتے جائیں گے دونوں ملکوں کے لیے اس معاملہ میں کوئی راستہ نکالنا زیادہ دشوار ہوتا چلا جائے گا۔‘‘
پاکستان نے گوکہ بھارتی فضائیہ کے پائلٹ ونگ کمانڈرابھی نندن کے اپنے قبضہ میں ہونے کا اعلان کل بدھ کی صبح ہی کردیا تھا اور پاکستانی میڈیا پر اس کی ویڈیو بھی نشر کردی تھی لیکن بھارت نے وزیر اعظم نریندر مودی کی فوج کے تینوں شعبوں کے سربراہوں، انٹیلی جنس بیورو کے سربراہوں اور دیگر اعلی حکام کے ساتھ صلاح و مشورے کے بعد ہی دیر شام میں پاکستان کے اس دعوے کو تسلیم کیا۔ بھارتی وزارت خارجہ نے دہلی میں پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر کو طلب کر کے پاکستان کے رویے پر اعتراض بھی کیا۔
وزارت خارجہ کی طرف سے بعد میں ایک بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ہمارا ایک پائلٹ پاکستان کے قبضے میں ہے اور ہم پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بھارتی فضائیہ کے اس پائلٹ کو فوراً بحفاظت واپس بھیجے۔ بھارت نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اس امرکو یقینی بنائے کہ فوجی کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ وزارت خارجہ نے ونگ کمانڈر ابھی نندن کو زخمی حالت میں ’نامناسب طریقے سے‘ ٹیلی ویزن پر پیش کئے جانے کی مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی ضابطوں کی خلاف ورزی قرار دیا۔