اسرائیل (جیوڈیسک) وزیراعظم نریندر مودی کے چار جولائی سے شروع ہونے والے اس تین روزہ دورے کو تاریخی اور کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل قرار دیا جارہا ہے۔ یہ دورہ دونوں ملکوں کے مابین سفارتی تعلقات کے پچیس برس مکمل ہونے کے موقع پر کیا جا رہا ہے اور اس سے باہمی تعلقات کے نئے باب کھلنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ تاہم یہ پہلا موقع ہو گا جب کوئی بھارتی رہنما اسرائیل کے دورہ کے دوران فلسطین نہیں جائے گا۔
بھارت روایتی طور پر فلسطینی کاز کا حامی رہا ہے لیکن ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی نریندر مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اس میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ اس حوالے سے جب بھارتی وزارت خارجہ کے ایک اہلکار سے پوچھا گیا کہ کیا بھارت اور اسرائیل کے مابین بڑھتے ہوئے تعلقات کا اثر فلسطین اور دیگر مسلم ملکوں کے تعلقات پر نہیں پڑے گا تو وزارت خارجہ میں مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ ڈویژن میں جوائنٹ سکریٹری بالا بھاسکر کا کہنا تھا ’’ہر ملک کے ساتھ ہمارے تعلقات آزادانہ ہیں۔
دوسرے ملکوں کے تعلقات سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں۔ ہر رشتہ الگ ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت دیگر شعبوں میں بھی ان تعلقات کو آگے لے جانا چاہتا ہے۔ وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’اس دورے کے دوران وزیر اعظم اپنے اسرائیلی ہم منصب نتین یاہو کے ساتھ باہمی دلچسپی کے تمام امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کریں گے اور صدر رُووَین رِیولین سے بھی ملاقات کریں گے۔ وزیراعظم مودی کے اس دورہ سے باہمی تعلقات کو مزید تقویت ملے گی۔‘‘
گوکہ بھارت نے اسرائیل کو سن 1950میں ہی تسلیم کر لیا تھا اور سن 1953 میں اسے ممبئی میں قونصل خانہ کھولنے کی اجازت دے دی تھی تاہم باضابطہ سفارتی تعلقات سن 1992میں قائم ہوئے تھے۔ اُس وقت کانگریس کی قیادت والی نرسمہاراو کی حکومت تھی۔ اس کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں تیزی سے بہتری آئی ہے۔
سن 2013 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی حکومت کے دوران جسونت سنگھ سن 2012 میں، کانگریسی حکومت کے دوران ایس ایم کرشنا اورگزشتہ سال سشما سوراج نے وزیر خارجہ کی حیثیت سے اسرائیل کا دورہ کیا تھا جب کہ سن 2015 میں صدر پرنب مکھر جی اسرائیل گئے تھے۔ ان دوروں میں بھارتی رہنما تل ابیب کے ساتھ ساتھ فلسطین بھی جاتے رہے ہیں تاہم یہ پہلا موقع ہوگا جب وزیر اعظم مودی رملہ نہیں جا ئیں گے۔
سیاسی تجزیہ کار اسے فلسطین کے حوالے سے بھارت کے موقف میں بڑی تبدیلی قرار دے رہے ہیں۔ اپوزیشن جنتا دل یونائٹیڈ کے قومی ترجمان اور ممبر پارلیمان کے سی تیاگی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’بھارت ابتدا سے ہی فلسطینی کاز کا زبردست حامی رہا ہے۔
ایسے میں موجودہ عالمی سیاسی حالات کے باوجود یہ ضروری ہے کہ بھارت فلسطین اور اسرائیل دونوں ہی کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے۔ بدلتے دور میں اسرائیل سے بھارت کی دوستی اچھی پہل ضرور ہے، ایکسپورٹ امپورٹ بھی اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن یہ فلسطین کے تئیں اپنے عہد کو قربان کر کے نہیں ہونا چاہئے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس دورے کے بعد فلسطین کے حوالے سے بھارت کے تعلقات کی سمت کیا ہو گی، لوگوں کی نگاہیں اس پر بھی مرکوز رہیں گی۔
بھارت اور اسرائیل کے دفاعی تعلقات ایک طویل عرصے سے قائم ہیں۔ اسرائیل نے سن 1962میں چین کے ساتھ بھارت کی جنگ کے دوران بھارت کو مورٹار اور مورٹار شکن آلات دئے تھے۔ جب کہ پاکستان کے خلاف سن 1965، سن1971اور کارگل جنگ کے دوران فوجی ساز وسامان فراہم کرائے تھے۔
بھارت اب اسرائیلی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ وہ سالانہ اوسطاً ایک بلین ڈالر کے ہتھیار خریدتا ہے۔ بھارت اپنی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے اور فوج کو جدید بنانے کے لیے 100بلین ڈالر کے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔
گزشتہ ماہ اسرائیل کی سرکاری ایرو اسپیس انڈسٹری نے کہا تھا کہ بھارت اس سے تقریباً دو بلین ڈالر کے ہتھیار خریدنا چاہتا ہے۔ اس سودے کے تحت اسرائیل بھارت کو درمیانے فاصلے تک زمین سے فضا میں مار کرنے والے جدید ترین میزائل، میزائل لانچر اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی فراہم کرے گا۔ وزیر اعظم مودی کے اس دورے سے فوجی تعاون اور تجارتی تعلقات کے ایک نئے عہد کا آغاز ہونے کی امید کی جا رہی ہے۔