تحریر: سید انور محمود اگر کسی بھی بھارتی کو اس بات پر اعتراض ہو کہ ہم نے مودی کو موزی کو کیوں لکھا ہے تو وہ یہ جان لے کہ ایسا ہمیں لکھنے پر مودی ہی نے مجبور کیا ہے۔ گذشتہ سال جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کو ان کی سالگرہ پر مبارکباد دینے پاکستان آئے تھے تو انہوں نے نواز شریف کی والدہ سے وعدہ کیا تھا کہ خالا اب شرارت نہیں کرونگا، پاکستان کے خلاف بھی کوئی بات نہیں کرونگا۔ لیکن گجرات کے قصائی نے اپنے وعدئے پر عمل نہیں کیا، مقبوضہ کشمیر میں پچھلے تقریباً ڈھائی ماہ سے 1989ء سے شروع ہونے والی تحریک کے تسلسل میں آزادی کی جو نئی لہر اٹھی ہے اس دوران 110 سے زائد کشمیری نوجوان شہید، پیلٹ گنوں کے چھرے لگنے سے 700بینائی سے محروم اور فوج کی فائرنگ سے ہزاروں افراد زخمی ہو چکے ہیں، پوری وادی میں کرفیو نافذ ہے حریت کانفرنس کے تمام رہنما نظر بند یا گرفتار ہیں، مسجدوں میں نماز پڑھنے کی بھی اجازت نہیں حتیٰ کہ عیدالاضحیٰ کے اجتماعات پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی۔
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے22 ستمبر 2016 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 71ویں اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھائی تو نریندرمودی، پوری بھارتی سرکار اور بھارتی میڈیا بلبلا اٹھے۔ وزیراعظم نواز شریف نے اپنی سترہ منٹ تیس سیکنڈ کی اس تقریر میں پوری دنیا اور خاص کرمقبوضہ کشمیر کے عوام کو یہ یقین دلایا ہے کہ پاکستانی ریاست اور اس کے عوام آزادی کی اس جنگ میں اپنے کشمیری بھایوں کے ساتھ ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کی تقریر میں سے اس کاکچھ حصہ جس میں ان کا کہنا تھا کہ ‘‘بھارت اور پاکستان کے درمیان امن اور معمول کے تعلقات تنازعہ کشمیر کو حل کیے بغیر ممکن نہیں ہیں۔ کشمیریوں کی موجودہ جدوجہد آزادی کو حسب معمول پانچ لاکھ سے زائد قابض بھارتی افواج نے اپنے وحشیانہ مظالم کے ذریعے دبانے کی کوشش کی ہے۔ ایک سو سے زائد کشمیریوں کو شہید جبکہ کمسن بچوں سمیت سیکڑوں افراد کو پیلٹ گنوں کے ذریعے نشانہ بنا کر انہیں بینائی سے محروم کردیا گیا، گزشتہ دو ماہ کے دوران 6ہزار سے زائد غیر مسلح شہریوں کو زخمی کیا گیا۔ پاکستان کشمیریوں کے حق خودارادیت کے مطالبے کی مکمل طور پر حمایت کرتا ہے جس کا وعدہ ان سے سلامتی کونسل نے اپنی کئی قراردادوں میں کیا ہے۔ ناجائز بیرونی تسلط کے خلاف ان کی آزادی کی جدوجہد جائز ہے’’۔
Nawaz Sharif
وزیر اعظم نواز شریف کے جنرل اسمبلی میں تقریر کے بعد بھارت کی طرف سے روزانہ جارحانہ عزائم کا اظہار کیا جارہا ہے، بھارتی وزیراعظم نریندرمودی، بھارتی لیڈر اور میڈیا سب پر جنگی جنون طاری ہے، جبکہ پاکستان کی فوجی قیادت نے بھارت کو واضع طو رپیغام دئےدیا ہے کہ پاکستان بھارتی جارحیت کی صورت میں اپنی سرزمین کے ایک ایک انچ کا دفاع کرنے کے لئے تیار ہے لیکن بھارت کی طرح کسی قسم کے جارحانہ عزائم کا اظہار پاکستان میں نہ سیاسی اور نہ ہی عسکری قیادت کی جانب سے کیا جارہا ہے، اسی طرح نہ پاکستانی میڈیا اور نہ ہی عوامی حلقے ایسی کوئی بات کر رہے ہیں۔ 26 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے تقریر کرتے ہوئے وہی پرانا راگ الاپا ہے کہ ‘‘کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور بھارت سے اسے کوئی علیحدہ نہیں کرسکتا’’۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس سے تقریر پر ردعمل میں کہا کہ ‘‘اگر کشمیر بھارت کا لازمی حصہ ہے تو سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر کیوں ہے؟’’۔
اوڑی سیکٹرمیں بھارت نے کوئی تحقیق کئے بغیر پاکستان پر الزام لگانے میں جو تیزی دکھائی اس سے تجزیہ کاروں کی اس رائے میں بڑا وزن ہے کہ یہ خود بھارت کی سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے جس کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں آزادی مانگنے والے عوام کے قتل عام سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانا، پاکستان کو دہشت گردی کے لئے بدنام کرنا ا ور جنرل اسمبلی سے وزیراعظم نواز شریف کے خطاب کی اہمیت کو کم کرنا ہے۔ اوڑی سیکٹر میں بھارتی فوج کے سیکورٹی کے اعتبار سے انتہائی مضبوط بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پر حملہ بھارت کا ٹوپی ڈرامہ ہے۔
اوڑی میں صرف چار حملہ آوروں نے پورے بھارتی بریگیڈ کوپانچ گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارتی سرکار کو لڑائی ختم ہونے اور حملہ آوروں کے مارے جانے سے پہلے کس نے یہ تفصیلات انہیں مہیا کیں کہ ‘‘حملہ آور آزاد کشمیر سے کنٹرول لائن کی آہنی باڑ توڑ کر ایک ندی پار کر کے ہتھیاروں سمیت بریگیڈ ہیڈ کوارٹر میں داخل ہو گئے، رات آرام سے وہاں گزاری اور علی الصبح حملہ کر دیا’’۔ بھارت ہمیشہ سے پاکستان کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ بھارت نے پٹھانکوٹ ایئر بیس پر حملے کے دوران ہی واویلا شروع کردیا تھا کہ اس میں پاکستان کا ہاتھ ہے، بعد میں بھارت کی اپنی انٹیلی جنس ایجنسی نے تحقیق کی تو تصدیق کردی کہ اس واقعہ میں پاکستان یا اس کی کسی ایجنسی کے ملوث ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔
kashmir Issue
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی اور پاکستان انڈیا پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی کی سابق سیکرٹری انیس ہارون نے ایک ویب سائٹ پراپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’پاکستان اور بھارت میں امن کی بات کرنے والوں کے لیے جگہ کم ہوتی جارہی ہے۔ ماسوائے ایک قلیل اقلیت کے دونوں ممالک کے ذرائع ابلاغ جنگی جنون کو ہوا دے رہے ہیں۔ عالمی طاقتوں کو فوری طور پر مداخلت کر کے اس کشیدگی کو کم کرانا چاہیے۔ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان میدانِ جنگ نہیں بننا چاہیے۔ اس کو حل کرنے کے لیے پاکستان، بھارت، کشمیری اور بین الاقوامی برادری کو مل کر بیٹھنا چاہیے اور اس خطرناک صورتِ حال کو ختم کرنا چاہیے ‘‘۔
بھارت کے عسکری ذرائع کا یہ کہنا کہ ’’سرحد پار پاکستان کے فوجی اڈوں اور تربیتی کیمپوں پر فضائی حملے کئے جا سکتے ہیں‘‘ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے فوراً بعد بھارت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کا یہ کہنا ہے کہ ’’دشمن کو جواب دینے کےلئے وقت اور مقام کا تعین ہم خود کریں گے‘‘، اس طرح کے اشتعال انگیز بیانات بھارت کی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہیں جس کے پاس مقبوضہ کشمیر میں جاری ظلم و جبر کے حوالے سے دنیا کو مطمئن کرنے کے لئے کچھ نہیں۔ بھارت اور پاکستان کے امن پسند دانشور یقینا سوچ رہے ہونگے کہ کس طرح اس جنگی ماحول کو ختم کیا جائے، ایک تجزیہ نگار کے مطابق، ‘‘فتح آخر میں دانا عناصر کی ہو گی۔
جب جنگ کی تیاریاں بڑھتی ہیں تو حل کے لیے بھی لوگ سوچنا شروع کر دیتے ہیں’’۔ بھارت اور پاکستان کے لئے بھی یہی سلامتی اور خوشحالی کا راستہ ہے۔لیکن بھارتی وزیر اعظم مودی اپنے انتہاپسندانہ نعروں کے حصار میں گھرے ہوئے ہیں اور اس سے نکلنے کی ہمت نہیں کر پا رہے۔ حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ جو لیڈر انتہاپسندی اختیار کرتا ہے وہ خود بھی تباہی کا شکار ہوتا ہے اور اپنی قوم اور ملک کے لئے بھی بربادی کا سبب بنتا ہے، اس کی ایک مثال دوسری جنگ عظیم میں جرمنی لیڈر ہٹلر تھا۔ اب اگر پاکستانی عوام بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو موزی کہہ رہے ہیں تو اس میں غلط کیا ہے۔