‘بھارتی جیلوں میں بند مسلم طلبہ کو رہا کیا جائے’

Protest

Protest

بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت دنیا بھر میں انسانی حقوق کی علمبردار متعدد تنظیموں نے بھارتی حکومت سے سیاہ ترین قانون کے تحت گرفتار کیے جانے والے مسلم طلبہ کی صورتحال پرگہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

دنیا کی دو درجن سے زائد حقوق انسانی کی علمبردار تنظیموں نے بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کے نام ایک مکتوب میں ان مسلم طلبہ کی فوری طور پر رہائی کا مطالبہ کیا ہے جنہیں حکومت نے انسداد دہشتگردی جیسے سیاہ ترین قوانین کے تحت جیلوں میں قید کر رکھا ہے۔ تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان کی گرفتاریوں کا کوئی جواز نہیں ہے اور حکومت محض شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے لیے انہیں سزا دے رہی ہے۔

اس سے متعلق طویل خط میں سب سے پہلا نام جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طالبہ صفورہ زرگر کا ہے جو چار ماہ کی حاملہ ہیں اور گزشتہ دو ماہ سے دلی کے تہاڑ جیل میں بغیر کس عدالتی کارروائی کے بند ہیں۔ میران حیدر اور شفاء الرحمان کا تعلق بھی جامعہ ملیہ سے ہے جبکہ شرجیل امام جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طالب علم ہیں۔ یہ طلبہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مہم کے روح رواں تھے۔

بی جے پی کی حکومت نے ان جیسے اور بھی کئی افراد کو فسادات برپا کرنے کے الزام میں انسداد دہشت گردی جیسے سخت قانون کے تحت گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا ہے اور ان کی ضمانت کی گنجائش بھی کم ہی نظر آتی ہے۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل اور ہیومن رائٹس واچ سمیت یورپ، امریکا، افریقہ اور ایشیا سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی25 تنظیموں نے حکومت کے اس قدم پر گہری تشویش ظاہر کی ہے۔

انہوں نے خط میں لکھا ہے، ”کووڈ 19 وبا کے دوران قید میں ان کی زندگی اور صحت کو سنگین خطرہ لاحق ہے۔ ہم آپ سے گزارش کرتے ہیں کہ ان چاروں کارکنان کے ساتھ ساتھ ان تمام افراد کو بھی فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کریں، جو صرف حقوق انسانی کے تحفظ کے لیے اپنے اظہار رائے کی آزادی کے حق کا استعمال کر رہے تھے۔”

ان تنظیموں نے حکومت پر قانون کے غلط استعمال کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان طلبہ کو شہریت قانون کے خلاف احتجاج کے لیے سزا دی جا رہی ہے۔ ”ہمیں سخت تشویش ہے کہ بھارتی حکومت نے انسانی حقوق کو کمزور کرنے، احتجاج اور پریس کی آزادی کو دبانے کے لیے (یو اے پی اے) جیسے انسداد دہشت گردی کے سخت قوانین کا باقاعدگی سے غلط استعمال کیا ہے۔”

سپریم کورٹ کے وکیل محمود پراچہ کا کہنا ہے کہ چونکہ اس کیس میں کوئی ثبوت نہیں ہے اس لیے حکومت نے دانستہ طور پر یو اے پی اے کا استعمال کیا ہے تاکہ ضمانت نہ مل سکے۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ”یہ سب وزیر داخلہ امیت شاہ کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے ہورہا ہے۔ وہ ان افراد کو سبق سکھانا چاہتے ہیں جو شہریت قانون کے خلاف احتجاج میں پیش پیش تھے۔”

محمود پراچہ ایک خاتون گل افشاں کا بھی کیس لڑ رہے ہیں جو جعفرآباد میں شہریت قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے کی روح رواں تھیں۔ ان پر بھی یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ مسٹر پراچہ نے اس طرح کے کیسز کی نوعیت بتاتے ہوئے کہا کہ حیران کن بات ہے کہ دہلی پولیس کے ایک سب انسپکٹر نے ”مخبر خاص کے حوالے” سے کیس دورج کروایا ہے۔ الزام یہ ہے کہ ٹرمپ کے دورے کے دوران مسلمانوں کے ساتھ مظالم کے حوالے سے بھارت کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کی سازش کی گئی۔”

مسٹر پراچہ کا کہنا ہے کہ قانوناً مخبر خاص کون ہے اس کا نام نہیں لیا جا سکتا اور اس طرح کے تمام الزامات کا حکومت کے پاس چونکہ کوئی ایک بھی ثبوت نہیں ہے تو اس طرح کا قانون استعمال کیا گیا تاکہ عدالتیں ضمانت بھی نہ دے سکیں۔

ایک سوال کے جواب میں مسٹر پراچہ نے کہاکہ ”وزیر داخلہ امیت شاہ نے اپنی نگرانی میں ان افراد کو پھنسایا ہے اور عدالتوں پر بھی اس قدر دباؤ ہے کہ ان کیسز کی سماعتیں التوا کا شکار ہورہی ہیں۔” ان سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ آخر حکومت مسلمانوں کے ساتھ ایسا رویہ کیوں اپنا رہی ہے، تو انہوں نے کہا کہ وہ مسلمانوں کو خوف زدہ کرنا چاہتی ہے تاکہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کو ختم کیا جا سکے۔