بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی ریاست پنجاب نے عید کے موقع پر مسلم اکثریتی علاقے مالیر کوٹلہ کو نیا ضلع بنانے کا اعلان کیا۔ لیکن ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی اس پر برہم ہے۔
بھارتی ریاست پنجاب کی کل آبادی تقریباً پونے تین کروڑ ہے اور اس ریاست میں مسلمان دو فیصد سے بھی کم ہیں۔ تاہم سرحدی خطے مالیر کوٹلہ واحد ایسا علاقہ ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی 70 فیصد کے قریب ہے۔
ریاست کے وزیر اعلٰی امرندر سنگھ نے عید کے موقع پر مالیر کوٹلہ کو ریاست کا ایک نیا ضلع بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب پنجاب میں 23 اضلاع ہو گئے ہیں۔ تقسیم ہند سے قبل مالیر کوٹلہ مسلم نوابوں کی ایک ریاست ہوا کرتی تھی اور اسے ضلع کا درجہ دینے کا ایک دیرینہ مطالبہ بھی تھا جسے اب تسلیم کر لیا گيا ہے۔
اس کا اعلان کرتے ہوئے ریاست کے وزیر اعلی اموندر سنگھ نے کہا، ’’عید کے مبارک موقع پر میری حکومت کی جانب سے مالیر کوٹلہ کو نیا ضلع قرار دینے پر بے حد خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ ریاست کا یہ 23 واں ضلع بڑی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔‘‘
لیکن بھارت کی حکمراں سخت گیر ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی نے اسے تفرقہ پسند سیاست قرار دیتے ہوئے کانگریس پارٹی پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔ پنجاب حکومت کے اعلان کے دوسرے روز ہی یو پی کے وزیر اعلٰی یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں لکھا، ’’مذہب اور عقائد کی بنیاد پر کوئی بھی تفریق بھارت کے آئین کی روح کے منافی ہے۔ اس وقت، مالیر کوٹلہ کی تشکیل کانگریس کی فرقہ پرست سیاست کی عکاس ہے۔‘‘
بی جے پی کے کئی دیگر رہنماؤں نے بھی پنجاب حکومت کے اس فیصلے پر یہ کہہ کر نکتہ چینی کی ہے کہ یہ فیصلہ فرقہ پرستی پر مبنی ہے۔ اور یہ کہ حکومت نے ایک خاص برادری کے ووٹ بینک کے لیے یہ اقدام کیا ہے۔
لیکن امریندر سنگھ نے ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے بی جے پی پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ یو پی کے وزیر اعلٰی یوگی آدتیہ ناتھ کو پنجاب کے بارے میں کچھ نہیں معلوم اور انہیں ریاست کے معاملات سے بالکل الگ رہنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا، ’’پنجاب یو پی سے کہیں بہتر ہے، جہاں بی جے پی کی فرقہ پرست اور تباہ کن حکومت، ریاست میں گزشتہ چار برسوں سے بڑے سرگرم طریقے سے مذہبی اختلافات کو فروغ دینے کا کام کرتی رہی ہے۔‘‘
مالیر کوٹلہ کی بنیاد افغان حکمراں شیخ صدر الدین جہاں نے سن 1454ء میں رکھی تھی اور پھر 1657ء میں بایزید خان نے بطور ایک علحیدہ ریاست اسے قائم کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مالیر کوٹلہ ریاست کے نوابین اور سکھوں کے درمیان پہلے سے ہی بہت اچھے رشتے تھے چنانچہ تقسیم ہند کے دوران بھی اس مسلم اکثریتی ریاست نے پاکستان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا تھا۔
1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے بعد جب بھارت اور پاکستان کے نام سے دو ملک وجود میں آئے تو اس وقت سب سے زیادہ تشدد ریاست پنجاب میں ہوا تھا جہاں مسلمانوں کی آبادی 50 فیصد سے بھی زیادہ تھی۔ لیکن اس خون خرابے کے دوران بھی مالیر کوٹلہ کا علاقہ اس تشدد سے کم و بیش پاک رہا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ سکھوں کے آخری گرو گوبند سنگھ جب مغلوں سے بر سر پیکار تھے اس وقت مالیر کوٹلہ کے نواب شیر محمد خان نے ان کے دو بیٹوں کی جان بچانے میں کافی مدد کی تھی اور اسی لیے بین الاقوامی سطح پر سکھ برادری مالیر کوٹلہ کے نواب شیر محمد خان کا بڑا ادب و احترام کرتی ہے۔
پنجاب کے کئی اضلاع پر مشتمل یہ ریاست سن 1948 تک برقرار رہی اور تقسیم ہند کے بعد اس کا بھارت میں انضمام ہوا تھا۔ اس ریاست کے آخری نواب افتخار علی خان آخر تک مالیر کوٹلہ میں ہی مقیم رہے جن کا انتقال سنہ 1982ء میں ہوا تھا۔ لیکن اس نواب خاندان کے بہت سے دیگر ارکان تقسیم کے بعد پاکستان منتقل ہو گئے تھے جو آج بھی لاہور میں رہتے ہیں۔
مالیر کوٹلہ میں ہی معروف صوفی سنت بابا حیدر شیخ کی بھی درگاہ ہے۔ مالیر کوٹلہ سے اس وقت رضیہ سلطانہ رکن اسبملی اور ریاستی حکومت میں وزير بھی ہیں۔