تحریر: حبیب اللہ سلفی بھارت کو سفارتی محاذ پر پاکستان کیخلاف ایک بار پھر شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سلامتی کونسل کی 1267 کمیٹی جو القاعدہ اور طالبان سے تعلق کی بنیاد پر مختلف تنظیموں اور شخصیات پر پابندیاں لگاتی ہے اور نائن الیون کے بعد سے اب تک دنیا بھر کی کئی تنظیموں اور افراد کے اثاثے منجمند کرتے ہوئے ان پر پابندیوں کا اعلان کر چکی ہے۔ انڈیا کی طرف سے اس کمیٹی میں وطن عزیز پاکستان کا نام شامل کر کے جھوٹ اور بے بنیاد الزامات پر مبنی یہ قرارداد جمع کروائی گئی کہ چونکہ یہ ملک القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کی مدد کرتا ہے اس لئے پاکستان کوبھی ایک دہشت گرد ملک قرار دیا جائے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اگرچہ اس قرارداد کو مسترد کر دیا ہے لیکن اس سے مودی سرکار کی گھٹیا ذہنیت، پاکستان مخالف جذبات اورانتہا پسندی کی سوچ کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔قرارداد پیش کرتے وقت بھارت سرکار کی طرف سے ایک اور سازش کی گئی جس کا میڈیا میں صحیح طرح سے ذکر نہیں ہو سکا ہے’ وہ یہ کہ سلامتی کمیٹی میںجمع کروائی گئی قرارداد میں پاکستان کی طرح جماعةالدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید کا نام بھی ساتھ شامل کیا گیا تاکہ بالفرض اگرانڈیا امریکہ کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ سے یہ قرارداد پاس کروانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر بین الاقوامی سطح پر کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی ثابت کرنے اورکشمیر کو اپنے اٹوٹ انگ ہونے کا موقف منوانے میں اس کیلئے کوئی مشکل باقی نہیں رہے گی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ برہان وانی کی شہادت کے بعد سے کشمیر میں جاری تحریک آزادی بہت مضبوط حیثیت اختیار کر چکی ہے۔
بھارتی فوج نے بدترین ظلم و بربریت کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے سینکڑوں کشمیریوں کو شہید کیا اور سترہ ہزار سے زائد زخمی کر دیے گئے۔پیلٹ گنوں کے استعمال سے معصوم لڑکوں اور لڑکیوں سمیت سینکڑوں افراد کی بینائی چلی گئی’حریت قیادت سمیت پندرہ ہزار سے زائد افراد کو گھروں سے زبردستی اٹھا کر جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔ تاجروں کی فصلیں جلا کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دی گئیں۔ انہیں اربوں روپے مالیت کا نقصان ہوا۔ جگہ جگہ خواتین سے بداخلاقی کے واقعات پیش آئے۔ کشمیریوں کی زندگی عذاب بن کر رہ گئی لیکن اس کے باوجود مظلوم کشمیریوں کے جذبہ حریت میں کوئی کمی نہیں آئی اور وہ چھ ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی کرفیو کی پابندیوں میں احتجاجی ہڑتالوں اور مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کشمیر میں تحریک آزادی کی اس کیفیت نے بھارتی ایوانوں میں ہلچل مچارکھی ہے۔ انہیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا کہ انہیں کرنا کیا ہے؟ حال ہی میں غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹس(اقامتی اسناد) جاری کرنابھی بھارتی حکومت کی اسی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے۔
بھارت دنیا کے سامنے یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ کشمیریوں کی تحریک ان کی اپنی نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے پاکستان اور یہاں کی بعض تنظیمیں ہیںجو تحریک آزادی کو پروان چڑھا رہی ہیں ۔اسی مذموم پروپیگنڈا کو سچ ثابت کرنے کیلئے بھارتی حکومت کی طرف سے سلامتی کونسل کی 1267کمیٹی میں پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک قرار دینے کی قرارداد پیش کی گئی جسے مسترد کیا گیا ہے۔ 2008ء میں ممبئی حملے ہوئے تو بھارتی میڈیا نے چند منٹ بعد ہی اپنی توپوں کا رخ پاکستان اور حافظ محمد سعید کی تنظیم جماعةالدعوة کی جانب کر دیااور اس قدر شدت سے پروپیگنڈا کیا گیاکہ کسی عدالت میں کیس چلا اور نہ ہی کوئی جرم ثابت ہوا مگر سلامتی کونسل کی اسی 1267کمیٹی سے جماعةالدعوة اور اس کے سرکردہ رہنمائوں پر پابندیاں لگوادی گئیں۔حافظ محمد سعید اور ان کے ساتھیوں کے اثاثے منجمند کر دیے گئے۔ امریکہ میں تو ان کا کوئی اثاثہ تھا نہیں جسے قبضہ میں لیا جاتا لیکن پاکستان میں جس بینک اکائونٹ میںا ن کی پنشن آتی تھی اسے ضرور بند کر دیا گیا۔
اس دوران حافظ محمد سعید اور ان کی جماعت کے دیگر رہنمائوں کو بار بار نظر بند کیا جاتا رہا’ انہیں جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں اور پھر لاہور ہائی کورٹ و سپریم کورٹ کے ان فیصلوں کے بعد کہ جماعةالدعوة کا ممبئی حملوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ‘ان کی نظربندیوں اور گرفتاریوں سے جان چھوٹی لیکن پابندیوں اور کام میں رکاوٹیں ڈالے جانے کا سلسلہ ابھی تک ختم نہیں ہوسکاہے۔ ابھی چند دن پہلے کی ہی بات ہے کہ امریکہ کی طرف سے جماعةالدعوة کے طلباء ونگ المحمدیہ سٹوڈنٹس اور جماعةالدعوة کے دو رہنمائوں محمد سرور اور شاہد محمود پر لشکر طیبہ سے تعلق کا الزام لگا کر پابندیاں لگادی گئی ہیں۔ساری دنیا جانتی ہے کہ لشکر طیبہ مقبوضہ کشمیر کی ایک جماعت ہے جبکہ المحمدیہ سٹوڈنٹس ایک عام طلباء تنظیم ہے جوپاکستان میں سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیمی سرگرمیاں انجام دے رہی ہے لیکن امریکی ان حقائق کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں اور ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر محض بھارتی خوشنودی کیلئے نئی پابندیوں کا یہ اعلان کر دیا گیا ہے۔
America and India
اقوام متحدہ کو بنایا تو اس لئے گیا تھا کہ یہ دنیا کے مسئلے حل کروائے گی لیکن کشمیر، فلسطین، برما، شام اور دیگر خطوں کے مظلوم مسلمانوں کا تو کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ انہیں ہمیشہ الجھایا ہی گیا ہے تاہم امریکہ کی طرف سے کسی مسلم تنظیم یا شخصیات پر پابندیاں لگاتے ہی سلامتی کونسل کی طرف سے بھی فوری طور پرانہی پابندیوں کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔بھارت کو امریکہ اور سلامتی کونسل کی جانب سے اسی بے جا حمایت کی وجہ سے شہ ملی ہے اور وہ بار بار کبھی جماعةالدعوة کے رہنمائوں پر پابندیاں لگوانے کیلئے یو این کا دروازہ کھٹکھٹا تا ہے تو کبھی مولانا مسعود اظہر کیخلاف قرارداد پیش کر دی جاتی ہے۔ بی جے پی سرکار اس وقت چانکیائی سیاست اور اس پالیسی پر عمل پیرا ہے کہ اتنا جھوٹ بولو کہ آہستہ آہستہ یہ جھوٹ بھی سچ ثابت ہونے لگے۔ ترجمان دفتر خارجہ نفیس ذکریا کا کہنا ہے کہ بھارت نے اپنے سیاسی ایجنڈے کو پورا کرنے کیلئے سلامتی کونسل میں قرارداد جمع کروائی ‘ وہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے توجہ ہٹانے کی کوششیں کر رہا ہے اور یہ کہ ہم بھارتی دہشت گردی کے ثبوت اقوام متحدہ کے سامنے پیش کریں گے۔
یواین اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر بھارتی ریاستی دہشت گردی کا مسئلہ اٹھانا خوش آئند ہے لیکن پاکستان کو اس سلسلہ میں محض چند ایک بیانات دیکر خاموشی اختیار کر لینے کی بجائے مضبوط خارجہ پالیسی ترتیب دینی چاہیے۔ پاکستان میں بھارتی مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ انڈیا نے قرارداد میں پاکستان پر القاعدہ اور داعش کی مددکا الزام لگایا ہے لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ بھارت خود افغانستان میں قائم قونصل خانوں کے ذریعہ تکفیری گروہوں کو وسائل فراہم کر رہا اور بلوچستان و پاکستان کے دیگر حصوں میں دھماکے اور تخریب کاری و دہشت گردی کی وارداتیں کروائی جارہی ہیں۔ پاکستان تو خود دہشت گردی کا شکار ہے اور کلبھوشن یادیو کی شکل میں پاکستان کے پاس زندہ ثبوت موجود ہیں ۔انڈیا کے پاس ہمارے خلاف کچھ نہیں ہے مگر اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کیلئے اس نے دنیا بھر میںواویلا مچا رکھا ہے۔ ایسی صورتحال میں حکومت پاکستان کی طرف سے کسی صورت غفلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ انڈیا کی حالت یہ ہے کہ پچھلے دنوں حافظ محمد سعید نے کوئٹہ میں دفاع اسلام کانفرنس سے خطاب کیا تو بھارتی میڈیا نے اس طرح سے ہرزہ سرائی اور ماتم شروع کر دیا کہ جس طرح وہ دہلی کا دورہ کر کے آئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ انڈیا کو کس طرح یہ بات برداشت ہو سکتی ہے کہ قوم پرست بلوچ رہنما حافظ محمد سعید کے ساتھ کھڑے ہوں، وہ پاکستانی پرچم لہرائیں اور پاک فوج کی حمایت میں تقریریں کی جائیں۔ وہ تو لسانیت، صوبائیت اور علیحدگی پسندی کی بنیاد پر تحریکیں کھڑی کر نے کیلئے بلوچستان میں اربوں روپے خرچ کر رہا ہے ‘ اسے یہ باتیں کس طرح ہضم ہو سکتی ہیں لیکن میں سمجھتاہوں کہ جماعةالدعوة اور اس کی قیادت نے بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں جس طرح کنویں کھدوانے ، واٹر پروجیکٹس کی تکمیل اور دیگر رفاہی و فلاحی سرگرمیاں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے’ اس نے بلوچ عوام کے دل جیت لئے ہیں اور ان کی محرومیوں کا ازالہ ہو رہا ہے یہی وجہ ہے کہ آج شاہ زین بگٹی ان کے سٹیج پر آکر انہیں ڈیرہ بگٹی آنے کی دعوت دیتے ہیں اور بلوچ قوم پرست رہنما حافظ محمد سعید کے ہاتھوں میں ہاتھ ملا کر پاکستان کی خدمت کا عزم کرتے نظر آتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ بھارتی دہشت گردی کو دنیا پر بے نقاب کرنے کی طرح بلوچ عوام کے دکھوں پر مرہم رکھیں اور ان کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں’ اس سے بیرونی سازشیں جلد ان شاء اللہ دم توڑ جائیں گی۔