بھارتی سیکولرازم بے نقاب

Journalism

Journalism

ایک صحافی کا کام ہی خبر نکالنا، رپورٹس بنانا اور ایسی جگہوں سے خبریں نکالنا ہے جہاں تک رسائی عام لوگوں کے لے ممکن نہ ہو اور وید پرتاپ ویدک کوئی عام صحافی نہیں تھا بھارت میں صحافت کا ایک جانا پہچانا نام ہے۔ وید پرتاپ نے اپنی صحافتی زندگی کا سفر نو بھارت ٹا ئمزسے کیا بعد ازاں وہ پریس ٹرسٹ آف انڈیا سے منسلک ہو گئے ۔جہاں وہ ہندی نیوز سروس ”بھاشا’ کے بانی ایڈیٹر بھی رہے۔

سویت یونین سے لے کر افغانستان تک اور بھارتی صحافت کے میدان سے لے کر بھارتی ثقافت تک مختلف موضوعات پر تحقیقی مقالے ، خبریں اور مضامین میں اپنی صحافت کا سکہ بٹھا چکا ہے ۔عالمی سیاست پر وید پرتاپ کی گہری نظر ہے اور ان کے تجزیوں کو خاصی اہمیت دی جا تی ہے ۔وہ کئی دفعہ پاکستان آئے اور مختلف موضوعات پر ٹی وی پروگراموں میں اظہار خیال بھی کیا لیکن بھارت کے متعصب معا شرے اور انتہا پسند ہندئووں کی جانب سے وید پرتا پ کے موجودہ دورہ پر جو ہنگامہ آرائی ہو رہی ہے وہ نہ صرف یہ ثابت کر رہی ہے کہ بھارتی معاشرہ روز بروز انتہا پسندی کے اندھیروں میں ڈوبتا جا رہا ہے اور تنگ نظری اور تعصب کا پھیلتا ہوا زہر اس معاشرے کو تباہی کے دہانے پرلے جا رہا ہے۔

پاکستان کی معروف فلاحی تنظیم جماعت الدعوة کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید سے وید پرتاپ کی ملاقات بھی اسی تناظر میں تھی کہ ایک صحافی ہمیشہ خبر کی تلاش میں ملاقاتیں کرتا ہے لیکن اس ملاقات کے بعد جو کچھ بھارت کے پارلیمان میں ہوا اور جو کچھ بھارت کی سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں وہ نہ صرف حیران کن ہے بلکہ بھارت کے انتہاپسند معاشرے کی عکاسی بھی کر رہا ہے ۔ جماعة الدعوة پاکستان کی معروف فلاحی تنظیم ہے جس کے ادارے فلاح انسانیت فائونڈیشن کے تحت سینکڑوں سکول، ہسپتال ، ڈسپنسریاں اور ملک بھر میں ایمبولینس سروس چل رہی ہے ۔ آزاد کشمیر کا زلزلہ ہو یا سندھ و جنوبی پنجاب کا سیلاب ، سونامی جیسا طوفان ہو یا کوئی اور قحط سالی کی آفت،جماعة الدعوة کے کارکنان اور رضا کار مشکل کی ہر گھڑی میں بلا تفریق انسانیت کی خدمت کرتے نظر آ تے ہیں ۔حتیٰ کہ تھرپارکر جہاں ہندوئوں کی اکثریت آباد ہے وہاں پر ان کے کیمپوں میں سینکڑوں ہندو بھی قحط سالی کے دوران زندگی بسر کرتے رہے ۔سندھ کے بد ترین سیلاب کے دوران بھی عالمی اداروں نے دیکھا کہ جماعة الدعوة نے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوئوں کو بھی ہر قسم کی ممکن سہولت پہنچائی ان کو باقاعدہ اپنے کیمپوں میں رکھ کر کھانا ، صاف پانی اور طبی سہولیات فراہم کرتے رہے ۔ اسی طرح بلوچستان کے زلزلہ کے دوران بھی مشکل کی گھڑی میں سب سے پہلے جماعة الدعوة کے کارکنان پہنچے اور لوگوں کو متاثرہ علاقوں سے نکال کر محفوظ مقامات پر پہنچانا اور پھر انہیں ضروریات زندگی اور کھانے پینے کی اشیاء فراہم کرتے رہے اور اس وقت بھی اربوں روپے کے فلاحی منصوبے بلوچستان اور سندھ میں جاری ہیں۔ آج کل ان کے کارکنان متاثرین وزیرستان کی دیکھ بھال میں مصروف ہیں۔

انسانیت کی خدمتجماعت الدعوة کا طرة امتیاز ہے۔ ان کی خدمات کی تعریف عالمی ادارے بھی کر چکے ہیں ۔ اس سلسلہ میں ایک دلچسپ واقعہ بھی موجود ہے جو کراچی کے معروف اخبار امت کے کالم نگار سیلانی صاحب نے ایک سفر کے دوران سنایا۔ کہ جب سکھر میں سیلاب آیا اور پورا شہر سیلاب میں ڈوبا ہوا تھا تو جماعة الدعوة کے کارکنان کشتیوں کے ذریعے لوگوں کو کھانا پہنچاتے اور انہیں کھانے کی اشیاء پہنچاتے تھے ۔ وہاں پر موجود دیگر این جی اوز بھی اس بات سے بخوبی آگاہ تھیں ۔ عالمی سطح پر معروف ایک این جی او کی انتطامیہ اکثر اپنا سامان جماعت الدعوة کے لوگوں کے حوالے کر دیتی کہ انہیں یقین تھا کہ یہ ان متاثرین تک بھی پہنچ جاتے ہیں جہاں عام طور پر کوئی نہیں پہنچتا ۔اسی دوران عالمی ادارہ خوراک کے ایشیا ء کے ڈائریکٹر جن کا تعلق بھارت سے تھا نے اس این جی او کے کیمپ کا دورہ کیا اور ان کی مشاورت کے بعد سامان سے بھرے ٹرک جماعت الدعوة کے کارکنان کے سپرد کر دیئے جس پر ان سے سوال کیا گیا کہ جماعة الدعوة کو تو بھارت دہشت گردہ کہتا ہے جبکہ آپ اپنا سامان ان کے حوالے کر رہے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ میں جب یہاں آیا تو مجھے پتا چلا کہ یہی لوگ صحیح طور پر متاثرین کی مدد کے لیے ہر جگہ پہنچ رہے۔ تاہم اس پر عالمی سطح پر بہت ذیادہ پراپیگنڈ کیا گیا۔

jamaat ud Dawa

jamaat ud Dawa

بھارت ہمیشہ سے جماعت الدعوة پر الزام لگاتا رہا ہے لیکن آج تک کوئی ایک بھی ثبوت فراہم نہیں کر سکا ۔پاکستان کی حکومت نے بھارتی الزامات کی وجہ سے پروفیسر حافظ سعید کو نظر بند کر دیا لیکن ہائی کورٹ اور بعد ازاں سپریم کورٹ نے اس کیس میں یہ ریمارکس دیئے کہ ان پر کوئی ایک بھی الزام ثابت نہیں ہو سکا اور نہ ہی ان کی جماعت کسی قسم کی دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔تاہم اس کے باوجود بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا اور اس نے حافظ محمد سعید کو مستقل پراپیگنڈا کا نشانہ بنا لیا ۔ لیکن بھارت کے الزامات کے باوجود کسی صحافی سے یہ حق نہیں چھینا جا سکتا کہ وہ اپنی خبر کے حوالے سے کس سے ملے اورکس سے نہ ملے ۔ لیکن بھارتی پارلیمان میں بھارتی سیاستدانوں نے وید پرتاب کی اس ملاقات پر ہنگامہ کھڑا کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ تعصب کی آخری حدوں کو پھلانگ چکے ہیں اور جب کوئی قوم اس حد تک تعصب میں گری ہوئی ہو تو اس میں ٹوٹ پھوٹ کاعمل شروع ہونا لازمی امر ہے ۔دوسری طرف حیرت انگیز طور پر جنہیں بھارت دہشت گرد گردانتا ہے انہوں نے صاف طور پر کہا ہے کہ ہمیں کسی سے بھی ملنے پر اعتراض نہیں ہے اور ہم کھلے دل سے ہر ایک کے ساتھ ملنے کے لیے تیار ہیں ۔ انہوں نے اس پر بھی انتہائی حیرت کا اظہار کیا ہے کہ بھارت کے سیاستدانوں نے اپنے طرز عمل سے پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ انصاف اور دلیل پر یقین نہیں رکھتے ۔ بھارت میں اس واقعہ نے جہاں اس کے سکولر کے دعوے کو بے نقاب کیا ہے وہاں یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ بھارت میں صحافت کس حد تک آزاد ہے ۔ حیرت ہے کہ صحافتی اقدار کی حامل عالمی تنظیمیں بھارت کے اس رویے پر خاموش کیوں ہیں۔

اب آزادی اظہار کی جنگ لڑنے والے کیوں خاموش ہیں ۔پاکستان میں ایک مخصوص گروہ کے حق میں عالمی سطح پر پراپیگنڈا کیا گیا کیونکہ اس گروپ نے پاکستان کے مقتدر دفاعی ادارے پر بلاثبوت الزام تراشی کی تھی اور اس کو بہانہ بنا کر پاکستان کے خلاف بھی الزام تراشی کی گئی لیکن اب وہی تمام تنظیمیں اور گروپ خاموش ہیں۔

Hafiz Mohammad Saeed

Hafiz Mohammad Saeed

کیا یہ بھی ان کے دہرے معیار کا ثبوت نہیں ہے۔ بھارت میں پارلیمان اور سیاستدان صحافی کو یہ حق نہیں دیتے کہ وہ اپنی خبر کے لیے کسی سے مل سکے۔ جماعت الدعوة کے رہنمائوں کا مثبت ردعمل اور پروفیسر حافظ محمد سعید کا یہ کہنا کہ وہ ہر کسی کو کھلے دل سے ملنے کے لیے تیار ہیں حتی کہ وہ اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار ہیں اس بات کی غماضی کرتا ہے کہ وہ انتہا پسندی کے قائل نہیں بلکہ حق اور دلیل کے ساتھ بات کرنے کے قائل ہیں۔

تحریر: آصف خورشید رانا