تحریر : حفیظ خٹک صوبہ بلوچستان سے گرفتار ہونے کے بعد فخریہ انداز میں اپنی سفاکانہ سرگرمیوں کی قبولیت پر ہماری عدلیہ نے اسے پھانسی کی سزا سنائی جس کو سن کر انسانیت کو سب سے زیادہ تکالیف پہنچانے والے ملک بھارت کو پہنچی اور انہوں نے اس کا اظہار کشمیر میں اپنے مظالم کو بڑھانے کے ساتھ کر دیا ۔ حکومت پاکستان اپنے فیصلے پر ڈھٹی ہوئی ہے تاہم اس صورتحال میں بھارت نے اپنی روایتی منافقانہ روش کو برقرار رکھتے ہوئے ہر طرح پاکستان پر اپنا دباؤ ڈالنے اور اسے بڑھانے کی کوشش کی ۔ اپنے دہشت گرد جاسوس کو کسی بھی طرح سے رہا کرانے کیلئے عالمی عدالت میں بھارت کی سرکار جا پہنچی اور اس عدالت میں ان کے وکلاء نے اپنے موقف کو ججز کے سامنے پیش کیا جس کے بعد پاکستان کے وکلاء نے بھی اپنی حصے کی کاروائی کی اور عدالت نے 18مئی کو اپنا فیصلہ سنا دیا اس فیصلے کے بعد بھارت میں چراغ روشن کئے گئے تو پاکستان میں سیاسی ، مذہبی ، سماجی جماعتوں سمیت پوری عوام نے بھرپور غصے کا اظہار کیا جو تاحال جاری ہے۔
شہر قائد میں عالمی عدالت کے فیصلے پر عوام سے رابطہ کیا گیا کچھ سوالات ان پوچھے گئے جن کے جوابات جذباتی انداز میں سامنے آئے۔ گلشن اقبال میں واقع کالج کے طلبہ کا کہنا تھا کہ جب اس جاسوس نے اپنے کارناموں کا اقرار کیا ،اس کے بعد جو سزا اسے سنائی گئی ، اس پر عمل ہوجانا چاہئے اس کے علاوہ اس معاملے کا کوئی حل نہیں ۔ جہاں تک عالمی عدالت کی بات تو کیا یہ کس طرح کی عدالت ہے ؟ اس میں کس طرح کا انصاف ہوتا ہے ؟ اس عدالت کے ججز کو دنیا میں مسلمان ،نہیں عام انسانوں کی بات کرتے ہیں کیا انہیں عام انسانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم نظر نہیں آتے ؟ بہرحال ہم اس ملک کے طالبعلم ہیں اور ہم ہر طرح سے اپنے وطن کی عزت اور عظمت کو بڑھانا چاہتے ہیں جو ہمارے ملک کے اندر رہہ کر سازشیں کرئے وہ ہمارے لئے ناقابل برداشت ہے ۔ لہذا ہم سب طلبہ کا یہ مشترکہ مطالبہ ہے کہ کلبھوشن سنگ یادیوکو جلد از جلد پھانسی کی سزا دی جائے۔
تاج محمد کی سربراہی میں ایک مذہبی جماعت کے افراد کا کہنا تھا کہ کلبھوشن سنگ یادیو نے برسوں ہمارے ملک میں جاسوسی کی اور دہشت گردانہ سرگرمیوں میں اپنا کردار ادا کرتا رہا ۔ جب اسے ہمارے اداروں نے گرفتار کر لیا اور اس نے اپنے کارناموں کی کا اقرار بھی کرلیا تو اس کے بعد سزا پر عملدرآمد ہی واحد راستہ ہے ۔ جہاں تک عالمی عدالت کا معاملہ ہے تو اس عدالت نے کشمیر کو نہیں دیکھا ، اس میں اسی بھارت کے مظالم کی کیا انسانیت سوز داستانیں ہیں اس پر اس عدالت نے کیا قدم اٹھایا ہے؟ اس کے ساتھ دنیا میں اور بھی کئی ممالک میں مظالم جاری ہیں یہ خودساختہ عالمی عدالت ان پر کیوں خاموش رہتی ہے؟قیام پاکستان سے آج تک کشمیر کے معاملے کو اقوام متحدہ تو کیا سلامتی کونسل نے بھی حل نہیں کیا اس کے باوجود عالمی عدالت نے جو فیصلہ کیا اس پر بھی پوری قوم کی طرح ہمیں بھی نہایت افسوس ہے۔
سیاسی جماعت کے رہنماکا کہنا تھا کہ عالمی عدالت میں ہمارے وکلاء نے اپنا موقف جس انداز میں پیش کیا وہ قابل اعتراض ہے ۔ ان کی نسبت بھارتیوں نے اپنی بات اچھے انداز میں کی۔ لیکن اس کے باوجود عالمی عدالت کو یہ دیکھنا چاہئے کہ کلبھوشن سنگ یادیو کس نوعیت کا انسان ہے اس نے کتنے انسانوں کا خون کیا اور کس انداز میں اپنی سفاکانہ سرگرمیوں میں وہ مصروف عمل رہا ۔ اس کے باوجود انہوں نے بھارت کے حق میں فیصلہ دیا اور سزائے موت پر عملدرآمد کو ملتوی کروادیا ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ماضی میں ایسے واقعات گذرے ہیں کہ عالمی عدالت کے فیصلوں کو امریکہ تک نے نہیں مانا اور اپنے ملک میں دو غیر ملکیوں کو سزائے موت دی۔
ایک اور سیاسی جماعت کے کارکنوں کا کہنا تھا کہ وطن عزیز کی خارجہ پالیسی کہاں ہے ؟ وزیر اعظم نواز شریف سے ملنے کیلئے بھارتی تاجر جندال آیا اور پھر واپس چلا گیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس بات کا شبہ ہے کہ عالمی عدالت میں اس معاملے کا جانا منظم منصوبہ بندی ہے ۔ انہوں نے ملک میں بجلی کی بندش سمیت دیگر متعدد معاملات پر گفتگو کی اور حکومت کی کارکردگی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب ملک میں اس وقت سی پیک کا منصوبہ زیر تعمیر ہے تو ایسی صورتحال میں وزیر اعظم سمیت ان کی پوری کابینہ کا عمل قابل اعتراض ہے۔
حکومتی جماعت کے رکن نے کہا کہ فیصلے کو غور سے دیکھا جانا چاہئے اور اسے پڑھنا چاہئے کہیں سے بھی فیصلہ ، حکومت کی جانب سے دیئے جانے والے فیصلے سے مختلف نہیں بلکہ عالمی عدالت نے تو بھارت کی کئی مقامات پر سرزنش کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ واضح رہے کہ کلبھوشن سنگ نے جو بھی کچھ کیا اس ک عیوض ہماری عدلیہ نے اسے موت کی سزا سنائی ہے لہذا عملدرآمد اسی فیصلے ہر ہی ہوگا۔
برسوں سے امریکہ کی جیل میں مقید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا کہنا تھا کہ عالمی عدالت کو چاہئے کہ وہ اپنے کردار کو واضح کرئے ، قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے بھی عدالت کو ازخود نوٹس لینا چاہئے اور اسے باعزت رہائی دلواکر اپنا کردار مضبوط کرنا چاہئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں اب بھی بہت سارے مظالم ہوررہے ہیں ان کی روک تھام کیلئے عالمی عدالت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ قوم کی بیٹی کو باعزت رہائی نہیں دیتا تو ایسی صورت میں حکومت پاکستان کو چاہئے کہ وہ عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکٹائے اور وہاں سے انسانیت کیلئے انصاف مانگے۔
ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ عالمی عدالت مکمل فیصلے آنے تک حکومت پاکستان سے یہ کہا گیا ہے کہ وہ مجرم کو پھانسی دینے سے قبل بھارت کو اس تک رسائی دے جبکہ اس کے ساتھ عالمی عدالت نے بھارت کے کئی پہلوؤں کو بھی نظر انداز کیا ۔ تاہم ابھی پاکستانی وکلاء کو چاہئے کہ وہ منظم انداز میں بھرپور تیاری کے ساتھ مجرم کے تمام دہشت گردانہ سرگرمیوں کے ثبوت کے ساتھ ججز کے سامنے پیش کرئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں جو بھی کردار اس عدالت کا رہا ہے اسے ایک جانب رکھتے ہوئے اس بات کی توقع رکھتا ہوں کہ عالمی عدالت کا فیصلہ پاکستان کے حق میں آئیگا اور اس سے دہشت گردی کے خلاف پاکستان جو جنگ لڑ رہا اسے مزید تقویت ملے گی ۔ اس وقت دنیا کے تمام ممالک یہ جانتے ہیں کہ پاکستانی افواج دہشت گردی کا مقابلہ کر رہی ہیں اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بھارت اپنے مذموم مقاصد کو ایک جانب رکھ کر خاموشی اختیا ر کرتا لیکن منافقانہ کردار اس کی تاریخ رہی ہے لہذا میں پوری عوام کو یہ کہنا چاہونگاکہ یہ معاملہ ایک فرد کا نہیں پوری قوم کا ہے لہذا اپنے اختلافات ایک جانب رکھ کر حکومت کا ساتھ دیں تاکہ مجرم کو اس کی سزا تک پہنچایا جا سکے۔