شملہ (جیوڈیسک) جنوبی ہندوستان کی ایک مقامی عدالت نے مذہبی مقاصد کے لیے جانوروں کو قربان کرنے پر پابندی عائد کرتے ہوئے اسے و حشیانہ عمل قرار دیا ہے۔ ہما چل پردیش میں موسم سرما کے آغاز پر مذہبی مقامات پر ہندو اپنے خداؤں کو خوش کرنے کی غرض سے بکریوں اور بھیڑوں کو قربان کرنے کی روایت صدیوں سے جاری ہے۔
اس روایت کے تحت جانوروں کو علامتی طور پر خداؤں کو پیش کیا جاتا ہے اور پھر ان کے گوشت کو گھر لے جا کر موسم سرما کے دوران خوراک کے لیے محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ہماچل پردیش کی ایک ہائی کورٹ نے پولیس اور دیگر عہدیداران کو حکم دیا ہے کہ وہ پوری ریاست میں ہندوؤں کے مذہبی مقامات پر بکریوں کو ذبح کرنے کے عمل پر پابندی کو یقینی بنائیں۔
جانوروں کے حقوق کے لیے سرگرم افراد کی جانب سے دائر کی گئی ایک درخواست کی سماعت کے دوران پیر کو عدالت کے دو رکنی بینچ نے فیصلہ دیا کہ کوئی شخص عبادت کی غرض سے کسی جانور کو قربان نہیں کر سکتا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ عبادت کے نام پر ہر سال ہزاروں جانوروں کو قربان کردیا جاتا ہے۔
عدالت کے مطابق اس قربانی سے معصوم جانوروں کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ عدالت نے جانوروں کی قربانی سے متعلق استفسار کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ ترقی یافتہ دور میں اس طرح کی روایات کو تبدیل کر دینا چاہیے۔ مقامی کارکن راجیش نیگی نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم عدالت کے اس فیصلے کو خوش آمدید کہتے ہیں کیوں کہ اس سے مذپب کے نام پر معصوم جانوروں کے خلاف ظلم کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ سماعت کے دوران حکومتی وکیل مہیشور سنگھ نے جرح کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ بہت سے لوگوں کے پرانے مذہبی عقائد کے منافی ہے۔