تحریر: محمد امجد خان آپ برِ صغیر پاک وہند کے کِسی بھی حصے میں چلے جائیں ، اسلام ،اسلامی تعلیمات ،صبر، شکر معجزات کا جہاں ذکر آئے گا وہاں یہ لازمی امر ہے کہ حضرت بابا فرید الدین مسعودگنجشکر کی اسلامی تبلیغی خدمات کا ذکر بھی ضرور آئے گا،کیونکہ حضرت بابافرید الدین مسعود گنج شکر وہ عظیم ہستی ہیں جنہوں نے اپنی ساری زندگی اسلامی تبلیغ کیلئے وقف کرتے ہوئے اپنے سچے قول وفعل سے سو ،دو سو،چار سو ،یاہزاروں نہیں بلکہ لاکھوںکروڑوں کی تعداد میں جہالت کے اندھیروں میں غرق لوگوں کو مسلمان کیا، آپ ( 561ہجری (1163ئ)کو موضع کھتوال میںپیدا ہوئے ،آپ کا سلسلہ نسب قابل کے بادشاہ فرخ شاہ سے مِلتا ہے جو بعض روایات کے مطابق حضرت امیر المومنین عمر بِن خطاب کی اولاد تھے اِس لئے انہیں فاروقی بھی کہا جاتا ہے ،آپ نے ابتدائی دینی تعلیم کھتوال میں ہی مکمل کی جس کے بعد سات سال کی عمر میں آپ اعلیٰ دینی و دُنیاوی تعلیم حاصل کرنے کیلئے مولانا منہاج الدین ترمذی کے پاس ملتان چلے گئے وہاں سے آپ تفسیر،حدیث،اصول معافی،فلسفہ ہیت اور ریاضی کے مضامین پرعبور حاصل کیا۔
بتایا جاتا ہے کہ آپ حضرت قطب الدین بختیارکاکی کے مرید اور خلیفہ بھی تھے اور ایک رات میں مکمل قرآن پاک کی تلاوت کر لیتے تھے ،زمانہ طالب علمی میںآپنے بلخ ،بخارہ ،بہت المقدس،مکہ مکرمہ ،مدینہ منورہ ،بغداد وقندھار کے سفر بھی کئے اور دوران سفرمِلنے والے بزرگانِ دین سے مختلف علوم وفیض حاصل کئے اورجب آپ نے اپنی تعلیم مکمل کرلی تو برِ صغیر کے ایک ایسے علاقے (جس کا نام اُس وقت اجودھن تھا)کا رُخ کرلیا جو اُس وقت کفر وجہالت کا برِ صغیر پاک وہند میںسب سے بڑا گڑھ تھاکفرو جہالت کا اندازہ آپ تاریخ میں تحریر اِن حالات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ پولیس گزٹ کے مطابق کوروں ،پانڈوں کی لڑائی کے وقت یہ جگہ راجہ (دریودھن) کی شکار گاہ تھی اور چندر ہنسی راجائوں کے دور میں یہ اجودھن (پاکپتن )اُن کی سلطنت کا دارلحکومت تھا اِس سے قبل ہندوئوں کے دیوتا،، رام ،،اور ،،سیتا،،نے ،،راون ،،کی قید سے آزادی حاصل کرنے کے بعد یہیں ماضی کے (اجودھن )اور موجودہ پاکپتن میں آکر پنا ہ لی تھی، اُس وقت اجودھن کے ساتھ ساتھ دریائے ستلج بھی بہتا تھا جس کی روانی قیامِ پاکستان کے بعد ضیاء الحق نے بھارت کو فروخت کر دی تھی ،خیر!اِس دریا کے کنارے واقع یہ (اجودھن)اُس وقت پورے برِ صغیر پاک و ہند میں خوبصورتی کے حوالہ سے بھی اپنی مثال آپ تھا جِسے مدِ نظر رکھتے ہوئے ہندو مذہب کے پرنامی فرقہ سے منسوب ( بابادیا رام )نے اِس شہر سے بیس کلومیٹر جانبِ مغرب واقع اُس وقت کے قصبہ اور آج کے معروف تاریخی شہرملکہ ہانس میں پرنامی مندر کے نام سے پرنامی فرقہ کی زمانہ قدیم میں دُنیا کی سب سے بڑی عبات گاہ تعمیر کی جو آج بھی وہاں موجود ہیں۔
Islam
بات کرنے کا مقصد ہے کہ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر نے ایسے حالات اور ِتنے بڑے کفر کے قلعے میں اپنے قول وفعل کی صداقت و کلام سے اِسلام کی ایسی شمعیں روشن کیں جنہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے کفرستان کے اندھیروں کواِسلام کے اُجالوں سے ایسا منور کیا کہ ہندوقومیں لاکھوں کروڑوں کی تعداد میںآپ کے باعث دائرہ اسلام میں داخل ہوتی چلی گئیں اور روحانی مدارج کے ساتھ ساتھ دُنیاوی مقامات بھی حاصل کئے جِس کا فیض و سلسلہ تا حال جاری و ساری ہے ،اِس دوران عشق خداا ورسول میںآپ شاعری بھی کرتے رہے ،آپ نے بہت سی کتابیں تالیف کیںجنہوں نے بین الاقوامی شہرت پائی اِس لئے آپ کو برِ صغیر پاک ہند کے پہلے پنجابی صوفی شاعر ہونے کا مقام بھی حاصل ہے ، آپ کے صوفیانہ کلام کے 114شبد اور 4گیت سِکھوں کی مقدس کِتاب گورو گرنتھ صاحب کا بھی حصہ ہیںگورو گرنتھ سِکھو ں کے پیشوا بابا گورونانک کے ملفوظات اور فرمودات پر مبنی ہے جِسے بعد میں گورو ارجن اور گورورنگدیو نے مرتب کیا جنہیں سِکھ قوم کے متعدد گوروئوں کی مدد حاصل تھی،آپنے حصول بندگی کیلئے تمام زِندگی فرائض وشریعت کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ چلہ معکوس جیسی کٹھن عبادات توکل ،قناعت پسندی ،تنگ دستی اور فاقہ کشی کو بھی رضائے الٰہی سمجھ کر گُزارااور جہاں ہر حال میں صبرو تحمل کے ساتھ خد ا کی شکر گزاری کا درس دیا وہاں اپنی شاعری میں تشبیہات کے ذریعے بنی نوح انسان کو خُدا کی وحدانیت اور فانی دُنیا کی حقیقت سے بھی مکمل طور پر آشنا کردیا اور آخر 663ہجری کے ذوالحجہ میں کثرت عبادات ، چلوں اور فاقہ کشی کے سبب آپ کی طبیعت نا ساز رہنے لگی اور4 محرم الحرام664ہجری کو مغرب کی نماز کے بعد آپ کی حالت مزید بگڑ گئی اور ناتوانی میں عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد بے ہوش ہوگئے ،ہوش آیا تو خلیفہ سے پوچھا کہ کیا میں نے نماز پڑھ لی ہے ؟۔
جواب مِلا جی حضور آپ نے نماز با جماعت ادا کی ہے ،فرمایاایک بار پھِر نمازپڑھنے کو جی چاہتا ہے نہ جانے پھِرکیا ہو ،اور نماز ادا کرنے کے بعد پھِر بے ہوش ہو گئے گُزشتہ بے ہوشی کی نسبت اِس بار کا دورانیہ تھوڑا لمبا تھا جِس کے بعد ہوش سنبھالتے ہی پھر پوچھا کہ کیا میں نے نماز پڑھ لی ہے ؟جواب ملا جی حضور آپ دو مرتبہ نماز پڑھ چکے ہیں یہ سُن کر آپ نے پھِر فرمایا میرا ایک بار اور نماز پڑھنے کو جی چاہ رہا ہے پھِر نہ جانے کیا ہواور دوران نماز ہی یا حیی یاقیوم کا ورد کرتے کرتے خالق حقیقی سے جامِلے،آپ کے وصال کے بعدمغلیہ دور حکومت آتے ہی مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر نے 1393عیسوی میں اِس مقدس جگہ کا نام (اجودھن) سے تبدیل کرکے پاکپتن باقائدہ طور پر لکھوا دیا جہاںپرہر سال کی طرح اس بار بھی 25ذوالحجہ سے9محرم الحرام تک کاآپ کا15روزہ عرس منایا جاتا ہے جو اِس سال 774واں سالانہ عرس ہے اور انتہائی عقیدت و احترام و بہت سی رسومات کی ادائیگی کے ساتھ منایا جارہا ہے اِن رسومات میں سے ایک سب سے مشہور رسم بہشتی دروازہ کھولنے کی بھی ہے جو کہ 5سے 6محرم الحرام کی رات بدست سجادہ نشین گدی نشین مزار شریف مقامی و قومی اہم شخصیات کے ہمراہ ادا کریں گے،جہاں سے گزرنے کیلئے حضور بابافرید کی دینی خدمات کی بدولت اندرون و بیرون ممالک سے ہر سال 15سے 20لاکھ کے قریب لوگ اِس شہر کا رُخ کرتے ہیںاور اِن کے ساتھ ہی اِنہیں لوٹنے کیلئے جیب کتروں کی بھی ایک بڑی تعداد اِس شہر کی طرف اُمڈ پڑتی ہے۔
جبکہ رہی سہی کثر مقامی پاپوش ٹھیکیداران ،ٹرانسپورٹرز ، دکانداران،ہوٹل مالکان،کرایہ پر دستیاب مالک مکانات، چھابڑی فروش وملاوٹ مافیا جیسے جیسے عرس پر زائرین کی تعداد بڑھتی ہے عرس پر استعمال کی اشیاء کے ریٹ بھی ویسے ویسے ہی مہنگی کرکے نکال دیتے ہیں،لیکن عاشقانِ فرید کی تعداد میں پھِر بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوتی،وہ لٹتے لُٹاتے ہوئے بھی ہر حال میں بہشتی دروازہ گزرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ۔مگر جگہ اور وقت محدود ہونے کے ساتھ ساتھ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے بھی کوئی نئی اور بے ضررحکمت عملی اختیار کرنے کی بجائے دہشت گردی خدشات کے نام پرہر سال ایک قدیمی فرسودہ سیکیورٹی پلان کے تحت پورے شہر کو سیل کرکے زائرین پر لاٹھی چارج کرنے وغیرہ جیسی وجوہات کے سبب صرف 06سے 07لاکھ لوگ ہی بہشتی دروازہ گزر پاتے ہیں،اور باقی مایوس واپس لوٹ جاتے ہیں،اِن حالات متذکرہ بالاپر صوبائی حکومت نے دربار شریف کو مذید وسیع کرنے کیلئے ضلعی انتظامیہ سے رپورٹ بھی طلب کر رکھی ہے جِسے اِس عرس پر چار سال ہونے کو ہیں مگر ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوتی ہوئی بتائی گئی ،سو !اِس سال بھی بہشتی دروازہ گزرنے والوں کی میلوں لمبی لائنیں لگیں گی،مگر اعلیٰ افسران وزرا ء ، اور اِن کے عزیز و اقارب ہمیشہ کی طرح اس سال بھی اِن میلوں لمبی لائینوںمیں لگے بغیر ہی وی وی آئی پی پروٹو کول کے ساتھ بہشتی دروازہ گُزرتے رہیں گے ،جس کے خلاف مقامی معروف سیاسی وسماجی راہنما ء عبدالرّحمٰن وٹو وہاں احتجاجی کیمپ ،اور احتجاجی مارچ بھی کر چکے ہیں ،مگر انتظامیہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگ پائی ،ضلعی یا صوبائی حکومت نے سماجی رانما ء کے اِس احتجاج پر غور کرنے کی بجائے اِس کی نظر بندی پر غور کررکھا ہے،اِس بار تو یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ صرف یہی نہیں۔
Police Baton Charge
گزشتہ عرس پر زائرین پر پولیس لاٹھی چارج ودیگر ایسے حقائق جو انتظامیہ کی شان میں گستاخی کا باعث بنیں نشرو شائع کرنے والے رپورٹرز کا بھی دورانِ عرس شہر میں داخلہ ممنوع قرار دیا جا رہا ہے بتایا جاتا ہے کہ ضلع کے تمام تر رپورٹرز کو بِلا تفریق عرس کوریج سیکیورٹی پاس جاری کرنے کی بجائے صرف سِٹی پاکپتن کے رہائشی انتظامیہ کے من پسند رپورٹر کو ہی عرس کوریج سیکیورٹی پاس جاری کیئے جارہے ہیں اور اِن سیکیورٹی پاس حامل حضرات کے علاوہ کِسی کو عرس کوریج کی اجازت نہیں ہے کہا جا رہا ہے کہ اگر کوئی اِن کے علاوہ چوری چھپکے کوریج کرتا بھی ہے تو اِسے جعلی رپورٹر قرار دے کرڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر کی مدعیت میں اِس پر مختلف قسم کے سنگین مقدمات بنائے جائیں گے جس کا مقصد عرس پر آئے لاکھوں کی تعداد میں زائرین کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات کا کوئی بھی انتظامیہ کی شان میں گستاخانہ پہلو نشرو شائع ہونے سے روکنا بتایا جا رہا ہے۔
جبکہ آپ حضور کی تعلیمات یہ ہیں کہ (فریدا ایسا ہو رہوجیسا ککھ مسیت ،پیراں تلے لتاڑیے کدے نہ چھڈے پریت )آپ اپنے ایک دوسرے کلام میں کچھ یوں فرماتے ہیں کہ (فرید میں نُوں مارکے منج نِکی کر کُٹ،فرید بھرے خزانے رب جو بھاوے سولُٹ)جبکہ ایک تیسے کلام میںخود کی درستگی کیلئے آپ کچھ یوں فرماتے ہیں کہ (فریدا جے تُوں عقل لطیف کالے لِکھ نہ لیکھ ،اپنے گریوان وِچ سر نیواں کرکے ویکھ )لہذاوی وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ بہشتی دروازہ گزر تے ہوئے گھنٹوں سے لائینوِ میں لگے کھڑے دوسروں کے حق پر ڈاکہ ڈالنے ،اپنے انتظامی معاملات درست کرنے کی بجائے میڈیاکے حقوق غصب کرکے ،میڈیا پرسنز کو جیلوں میں ڈالنے کو آپ حضور کی خدمت قرار دیکر ،یا دھکم پیل کرکے بہشتی دروازہ گزرکر خود کو بخشا گیا تصور کرنے کی بجائے ،بہشتی دروازہ گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں آپ حضور کی تعلیمات پربھی عمل کرناچاہئے ،جو ہم کرنا نہیں چاہتے ،ورنہ ہمارے بزرگان دین نے تو ہمیں جو تعلیمات دی ہیں ہم اِن پر عمل کرکے صرف اپنے گلی محلوں یا شہروںکو ہی نہیں ملک بھر کو امن کا گہوارا بنا سکتے ہیں ،مگر ایسا ہو جائے تو پھِر تھانے کچہریا ںکیسے چلیں،اللہ رب اُلعزت ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔