کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک) مقبوضہ کشمیر میں پابندیوں سے متعلق کیس میں بھارتی سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ اظہار رائے کو دبانے کے لیے دفعہ 144 نافذ نہیں کی جا سکتی۔
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر میں پابندیوں اور کرفیو کے خلاف دائر متعلق درخواستوں پر فیصلہ سنا دیا ہے۔
بھارتی عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کوئی شک نہیں کہ جمہوری نظام میں اظہار رائے کی آزادی اہم ہوتی ہے، اظہار رائے کی آزادی کے تحت انٹرنیٹ تک رسائی بنیادی حقوق میں شامل ہے۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ اختلاف رائےکو دبانےکیلئے دفعہ 144 کو استعمال نہیں کیا جا سکتا، انٹرنیٹ کو محدود یا معطل کرنے کے احکامات کی عدالتی جانچ ہو گی۔
خیال رہے کہ بھارت نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت سے متعلق آئین کا آرٹیکل 270 اور 35 اے ختم کر کے مقبوضہ جموں و کشمیر کو وفاق کے زیرِ انتظام دو حصوں یعنی (UNION TERRITORIES) میں تقسیم کر دیا جس کے تحت پہلا حصہ لداخ جب کہ دوسرا جموں و کشمیر پر مشتمل ہو گا۔
بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر میں خصوصی اختیارات سے متعلق ہے۔
آرٹیکل 370 ریاست مقبوضہ کشمیر کو اپنا آئین بنانے، اسے برقرار رکھنے، اپنا پرچم رکھنے اور دفاع، خارجہ و مواصلات کے علاوہ تمام معاملات میں آزادی دیتا ہے۔
بھارتی آئین کی جو دفعات و قوانین دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں وہ اس دفعہ کے تحت ریاست مقبوضہ کشمیر پر نافذ نہیں کیے جا سکتے۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کسی بھی دوسری ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر کا شہری نہیں بن سکتا اور نہ ہی وادی میں جگہ خرید سکتا ہے۔
بھارت نے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے سے قبل ہی مقبوضہ کشمیر میں اضافی فوجی دستے تعینات کر دیئے تھے کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ کشمیری اس اقدام کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔
اطلاعات کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی تعداد اس وقت 9 لاکھ کے قریب ہے اور وادی میں 150 سے زائد روز سے کرفیو نافذ ہے۔
مقبوضہ وادی میں ٹیلی فون، انٹرنیٹ سروسز بند ہیں، کئی بڑے اخبارات بھی اشاعت بھی رک چکی ہے۔