تحریر: ایم اے تبسم، لاہور عام طور پر ہمارے معاشرے کا وہ طبقہ جو مغربی تہذیب کو بہت ساری برائیوں کی جڑ سمجھتا ہے، اس کا خیال یہ ہے کہ صنف نازک نے جب سے گھر کی دہلیز کے باہر بازار میں قدم رکھا ہے، صنعت و تجارت کو زینت بخشی ہے، یہ اندازہ لگانا بہت مشکل نہیں رہا کہ وہ برائیاں جو کبھی کبھار دیکھنے اور سننے کو ملتی تھیں، اب اس نے سیلاب کی صورت اختیار کر لی ہے۔
پہلا سوال یہ ہے کہ عورت کیوں پردے میں رہے اور کیا واقعی اس کے باہر آنے سے اس کی عزت و آبرو خطرے میں رہتی ہے۔دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا وہ خود اپنی مرضی سے باہر آنا چاہتی ہے۔پہلے سوال کا جواب ہمیں ہر منٹ اور ہر گھنٹے اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے ذریعے مل رہا ہے، دوسرے سوال کا جواب یہ کہ اس کائنات کے مالک نے عورت اور مرد دونوں کی فطرت میں شرم و حیا داخل کردی ہے اور وہ خود بے حیائی اختیار نہیں کرنا چاہتے۔مثال کے طور پر آدم اور حوا کو اگر یہ پتہ ہوتا کہ شجر ممنوعہ کے پھل کو استعمال کرنے کے بعد اپنے لباس سے محروم ہو جائیں گے، تو وہ کبھی یہ غلطی نہیں کرتے ،مگر جب ابلیس کے بہکاوے میں آکر ایسا کر بیٹھے، تو انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا۔چونکہ جو غلطی آدم سے جنت میں ہوئی ،وہی غلطی بنی آدم سے زمین پر بھی ہونا لازمی تھی۔
اسی لئے اللہ تعالیٰ رسولوں اور الہامی کتابوں کے ذریعے آدمی کو آگاہ کرتا رہا کہ اے بنی آدم کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان ایک بار پھر تمہاری شرمگاہوں کو ایک دوسرے کے سامنے کھول دے۔انسان کی اسی بشری کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شیطانی طاقتوں نے دنیا میں شجر ممنوعہ کے پھل بودیے ہیں جسکی وجہ سے امریکہ اوربھارت ہمارے گھروںتک گناہوں کے باغات خوب بورہے ہیںاور اپنے زہریلے اثرات سے دنیا میں بے سکونی افراتفری پھیلارہے ہیں۔فرق یہ ہے کہ آدم کے لئے جنت میں گناہ کے جواز تھے، مگر گناہ کے ذرائع نہیں تھے۔ اس لئے آدم اور حوا اس تباہی اور گناہ سے بھی بچ گئے اور معاف بھی کر دیے گئے۔اب سوال یہ ہے کہ دنیا میں شجر ممنوعہ ہے کیا؟
یہ آزادی کا خوبصورت تصور ہے ،جس کا نشہ ہر آدمی اور عورت کے ذہن پر طاری کردیا گیا ہے اور پھر اپنی اس آزادی کا استعمال کرتے ہوئے وہ اس نشے اور گناہ کی طرف راغب کئے جاتے ہیں، جسے عام مفہوم میں سیکس یا جنسی تسکین کا نام دیا جاسکتا ہے ،جو آسانی کے ساتھ ہر قیمت پر بازار میں دستیاب ہے۔اور اس منافع بخش تجارت میں دنیا کی مختلف ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اپنا بہت بڑا سرمایہ لگایا ہوا ہے۔مگر دنیا کی ایک بہت بڑی اکثریت بین الاقوامی ثقافتی اداروں کی اس سازش کو سمجھنے کیلئے تیار نہیں ہے، جن کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ انسانی حقوق کی بازیابی ،جمہوریت کی بحالی ،سماجی عدل و انصاف اور آزادی نسواں کے قیام جیسے پر فریب نعروں کے ذریعے دنیا کی تمام دیگر مذہبی تنظیموں اور تہذیبوں کو فرسودہ قرار دیکر انہیں صرف اپنے بارے میں سوچنے کیلئے مجبور کردیں اور وہ خود اپنے قدیم روایتی مذہبی اور اخلاقی قدروں سے بغاوت کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔
کتاب” گلوبلائیزیشن اور دنیا کی تشکیل نو’ ‘ میں لکھا ہے کہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں منظور کی جانے والی تجاویز کا جائزہ لیا جائے، تو اندازہ ہو گا کہ ان کا مقصد معاشرے کو ہر طرح کے اخلاقی و خاندانی بندھنوں سے آزاد کرکے عریانیت،فحاشی،جنسی بے راہ روی ،اسقاط حمل کا قانونی جواز ،تعیش پسندی،شادی کے بغیر جنسی خواہشات کی تکمیل جیسی انسانیت سوز عادات کو معاشرے میں عام کرناہے، جس کے بعد انسانوں اور جانوروں کی اجتماعی زندگی میں کوئی خاص فرق باقی نہیں رہ جائے گا۔امریکہ جو اس پوری تہذیب کا معمار اور موجد ہے، وہاں کی ہالی ووڈ فلم انڈسٹری پوری دنیا کیلئے ہر سال 12 لاکھ گھنٹوں پر مشتمل مختلف قسم کے لٹریچر اور ٹی وی پروگرام تیار کرتا ہے، جس میں بلیو فلم سے لیکر موسیقی جیسے پروگرام شامل ہوتے ہیں اور پھر یہاں سے ایک اچھی قیمت کے عوض دنیا کے دیگر ممالک کو برآمد کئے جاتے ہیں۔امریکہ کی یہ فلمی صنعت پوری دنیا کی فلمی صنعت کی آمدنی کے پچاسی فیصد حصے پر قابض ہے اور 1994 کے دوران امریکہ نے اپنے تفریحی پروگراموں کی فروخت سے چالیس اعشاریہ دو ملین ڈالر حاصل کئے، جو کہ امریکہ میں تیار کی گئی دیگر مصنوعات کی فروخت سے بھی زیادہ ہے۔
Hollywood Film Industry
امریکی طرز آزادی اور ثقافت کے حامی بورہوس فرڈریک کا کہنا ہے کہ آزادی اور شرافت ایک قسم کا فریب اور دھوکہ ہے ،اقوام عالم کو چاہئے کہ وہ امریکی ثقافت کو قبول کرلے ،مگر جو ملک اور حکومت اس کی مخالفت کریں ان کے معاشرے میں جوا ،شراب ،موسیقی اور رقص کی شکل میں تفریح کے ایسے جدید ترین وسائل کو عام کردیا جائے کہ بالآخر مخالف طبقات بھی اسے قبول کرنے کیلئے تیار ہو جائیں یا خاموشی اختیار کرلیں۔ہم دیکھ اور محسوس کر سکتے ہیں کہ ایک طبقہ جو اس برائی سے کسی طرح الگ ہے تو بھی اس میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ اس کے خلاف آواز بھی اٹھا سکے۔میڈیا جو کہ شوق و سنگار کے سامان بنانے والی کمپنیوں اور فلم انڈسٹری سے کروڑوں اربوں روپے کی منافع بخش تجارت کررہا ہے، وہ پوری طرح عورت مرد کے اختلاط اور جنسی بے راہ روی کو ترقی کی علامت بناکر پیش کررہا ہے اور اپنے اسی مقصد کے فروغ کیلئے یہ کمپنیاں حقوق نسواں اور آزادی نسواں کے عنوان سے ایسی مختلف تنظیموں کو سرمایہ فراہم کررہی ہیں جو عالمی اور ملکی پیمانے پر فحاشی بے حیائی اور بدکاری کے رجحانات کو عام کرنے کیلئے ہر ماہ کہیں نہ کہیں کانفرنسیں منعقد کرتی ہیں۔اس کا اثر بھی دیکھا جاسکتا ہے آج سے قبل جہاں معاشرے میں شرابی،زانی اور بد کردار افراد کی کوئی قدر و منزلت نہیں تھی، انہیں اب عزت و توقیر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
اس فعل کے معترف سلمان رشدی،تسلیمہ نسرین ،ارشاد مانجی ،اسریٰ نعمانی اور وی ایس نائیپال جیسے بد کردار مصنفوں کو نوبل انعام سے نوازا جانا۔جب ہم کتاب گلوبلائزیشن کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ کس طرح مغربی طرز کے قائل تعلیم یافتہ افراد برائیوں کی ایجاد کرتے ہیں اور اس برائی کے پھیلائو سے شہر دیہات اور معاشرے کے پسماندہ جاہل اور مزدور قسم کے طبقات بھی برابر سے اثر انداز ہو رہے ہیں۔ دنیا کی مختلف زبانوں میں جو فحش لٹریچر بازار میںدستیاب ہے، اس نے عورت اور مرد کے درمیان جنسی تعلقات کے وہ تمام راز فاش کردئے ہیں، جسے حقیقت میں اسی طرح پہرے میں رہنا چاہئے تھا۔مادیت کے پرستار نام نہاد مہذب دنیا کے با اثر ممالک ان جوہری اسلحوں کے تباہ کن نتائج سے تو واقف ہیں، مگر جو دھماکہ انسان کے شہوانی جذبات اور جنسی خواہشات کو آگ لگا کر کیا جارہا ہے، اس نے زندہ انسانوں کو جانور ہی نہیں درندہ بنادیا ہے اور اس کی اس یلغار سے پانچ سال کی معصوم سے لیکر اسی سال کی بوڑھی عورت کی عزت و آبرو خطرے میں پڑ گئی ہے۔اور ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ جہاں مرد خود اپنی اس خواہش کو پورا کرنے کیلئے جواز پیدا کررہا ہے۔
عورتیں بھی فائیو اسٹار ہوٹلوں اور بیئر بار کا رخ کررہی ہیں۔فحش تہذیبی یلغار سے یکساں طور پر معاشرے کا ہر ذہن متاثر ہوا ہے فرق اتنا ہے کہ جو تعلیم یافتہ اور دولت مند ہے جو نہ صرف اس برائی کا خاکہ تیار کرتا ہے، بلکہ وہ اپنی اس خواہش کو آپس کی رضامندی یا فائیو اسٹار ہوٹلوں میں پورا کرلیتا ہے یا جو سیدھا سادھا ایک مزدور قسم کا طبقہ ہے ،شہر کے قحبہ خانوں میں اپنے آپ کو مطمئن کرلیتا ہے۔مگر اسی معاشرے میں ایک شریر اور بدمعاش قسم کا طبقہ بھی تو رہ رہا ہے جو عام طور پر کسی اچھی تعلیم و تربیت سے گذرا ہی نہیں اور جو کسی قانون اور پولیس کی زیادتی سے بھی خوف زدہ نہیں ہے۔ اس کی نظر میں ماں ،بیٹی ،بہن ،بھتیجی اورمعصوم بچی کے مقدس رشتوں کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو، مگر جنسی خواہشات کی آگ سے وہ بھی سلگ رہا ہے۔ وہ ایسے مواقع کو کیسے ضائع ہونے دے گا، جہاں اسے کسی بھی پولیس اور قانون کا کوئی خوف نہیں رہتا۔
M.A.TABASSUM
تحریر: ایم اے تبسم، لاہور مرکزی صدر،کالمسٹ کونسل آف پاکستان”CCP” email: matabassum81@gmail.com, 0300-4709102