تحریر: پروفیسر مظہر راشٹر یاسیوک سنگھ نظریے سے وابستہ ،شیوسینا کا پروردہ ،ابنِ حماقت ،عبدِ جہالت، خود بینی ،خود ستائی و خود نمائی کے مرضِ مہلک میں مبتلاء بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی صحرا کو گلستاں ثابت کر کے نسلِ نو کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے کوشاں ہے لیکن اُس کا خروش محض سمع خراشی کہ اس کا خریطہ دلائل سے خالی ۔اس نے بھارت میں جنگِ ستمبر 65ء کی گولڈن جوبلی تقریبات کو ”جشنِ فتح” کے طور پر منانے کااعلان کیا ہے۔
دراصل یہ سب اس جنگی جنوںکا شاخسانہ ہے جوبھارتی وزیرِاعظم کے سرچڑھ کے بول رہاہے ۔مذہبی جنونی نریندرمودی اِس خیالِ خام کا”صید ”کہ وہ پاکستان کوبھارت کادبیل اورغلامِ بے دام بنالے گا۔اگراُس نے پاکستان پرچڑھ دوڑنے کی حماقت کی توپھر بھارت کی ”داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوںمیں”۔ہم پُرامن قوم ہیںاور دینِ مبیںکے عین مطابق پڑوسیوںسے اچھے تعلقات کے خواہاں۔امن کی خواہش پالناہمارے دین کاجزوِلاینفک کہ یہی حکمِ ربی لیکن طاغوت کے خلاف ہمارے ”گھوڑے” بھی تیارکہ یہ بھی حکمِ لَم یزل۔
بہتریہی کہ مودی صاحب اپنے ذہنی خلجان کودور اور خیرہ سری کوجھٹک کراِس خیالِ فاسد کوذہن سے نکال دیں کہ وہ اپنے مکروہ مقصدمیں کامیاب ہوجائیں گے۔ بھارتیوںکو بھی معلوم ہوناچاہیے کہ امریکہ نریندرمودی کی پیٹھ تھپتھپا رہاہے اورمودی مسلم دشمنی میںاندھا ہوکر امریکہ کے بچھائے دامِ تزویرمیں پھنستا چلاجا رہاہے ۔امریکہ اِس وقت اقتصادی ومعاشی تباہی کے دہانے پرہے۔ سات لاکھ سے زائدافراد کو ملازمتوںسے نکالاجا چکا ، کئی اسلحہ فیکٹریوں کو تالے لگ چکے اور چین کو اقتصادی طور پر تباہ کرنے کا جنون پالنے والااب خودچین سے بھیک مانگتا نظر آتاہے۔
USA
اِس لیے عسکری اور معاشی طور پر تباہ حال ایشیاء ہی امریکہ کی آخری امید ہے اور خواہش یہ کہ تیسری عالمی جنگ کا میدان برِصغیر پاک و ہندہو، تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑاہو سکے ،اب یہ سوچنا بھارتیوں کا کام ہے کہ وہ بھارت کو ناگا ساکی اور ہیرو شیما جیسی ” جائے عبرت ” بنانا چاہتے ہیں یا دنیا کی سب سے بڑی پرامن جمہوریت۔
جہاںتک ”جشنِ فتح” کاسوال ہے توحقیقت یہی کہ بد مست بھارتی فوج نے اپنی چھ گناطاقت کے زعم میں 6 ستمبر 1965ء کو غیر اعلانیہ جنگ شروع کی جس میںاُسے ذلت آمیز ہزیمت کاسامنا کرناپڑا ۔ اِس ہزیمت کااعتراف بھارتی فوج نے بھی کیااور میڈیانے بھی ۔ایئرمارشل بھارت کمارنے اپنی کتاب ”دی فسٹ انڈوپاک وار”میںتسلیم کیاکہ پاکستان کے مقابلے میںبھارت کوزیادہ نقصان اٹھاناپڑا اور پاکستان نے صرف دو دنوںمیں 35 بھارتی طیارے تباہ کردیئے حالانکہ اس وقت بھارت کے پاس 28 لڑاکا سکوڈڑن تھے جبکہ پاکستان کے پاس صرف 11 ۔ٹائمزآف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق بھارتی وزارتِ دفاع کے ریکارڈمیں تسلیم کیاگیا ہے کہ ستمبر 65 کی جنگ میںبھارت کوبھاری جانی ومالی نقصان اٹھانا پڑا،تاہم جنگ ہارجیت کے فیصلے کے بغیرختم ہوگئی ۔بھارتی اخبارات میں بھی تنقید ہورہی ہے کہ ہارجیت کے بغیرختم ہونے والی جنگ پرفتح کا جشن چہ معنی دارد۔
اگراِس جنگ میںبھارت فتح یاب ہوتاتو پھروہ اقوامِ متحدہ میںجا کرکبھی جنگ بندی کی بھیک نہ مانگتااورنہ ہی وہ ”معاہدہ تاشقند” طے پاتاجسے پاکستانیوںنے قبول کرنے سے انکارکر دیااور ایوب خاںکو صدارت چھوڑنی پڑی۔ تب بھارتی وزیرِداخلہ نے کہا ”کیاپاکستانیوںنے ہمیںاتنا ہی کمزورسمجھ رکھاہے کہ جنگ بندی کے خلاف سڑکوںپر نکل آئے ہیں”۔
Pak Andia War
دورانِ جنگ پاک فوج نے بھارتی جنرل راجندر پرشاد کی فوجی جیپ پر قبضہ کیا۔ اِس جیپ میں بھارت کے جنگی منصوبوں کی دستاویزات موجود تھیں جن میں 72 گھنٹے میں مغربی پاکستان پر قبضہ کرنا شامل تھا ۔اسی منصوبے کے تحت بھارتی فوج نے 6 ستمبرکو علی الصبح واہگہ بارڈرپر حملہ کردیا ۔بھارتی ”سورماؤں” کا خیال تھاکہ وہ اسی شام لاہور کے جمخانہ کلب میں شراب کے جام لنڈھاتے جشنِ فتح منائیں گے لیکن ہوایہ کہ میجر شفقت بلوچ کی صرف 110 جوانوں پر مشتمل کمپنی نے نہ صرف 10 گھنٹے تک بھارتی بریگیڈ کو روکے رکھا بلکہ پورے بریگیڈ کو جہنم واصل بھی کردیا۔
دنیاکی جنگی تاریخ میں یہ ایساریکارڈ ہے جوآج تک ناقابلِ تسخیرہے ۔واہگہ بارڈرپر بی آر بی ہماری آخری دفاعی لائن ہے جسے عبورکرنے کی صورت میںلاہور شہر بھارت کے قبضے میں ہوتا لیکن میجرعزیز بھٹی شہید (نشانِ حیدر) نے اپنے پاکیزہ لہوکی ایسی لکیرکھینچی کہ بدمست بھارتی سینا ”پورس کے ہاتھی” ثابت ہوئی۔
دینِ مبیںکے پروانے کَٹ کَٹ کر گرتے رہے لیکن دشمن کوپاک سرزمین پر ایک انچ بھی آگے بڑھنے نہ دیا۔ اِس نہرکو اب ”شہیدوںکی نہر”بھی کہاجاتا ہے ۔ذلت آمیزہزیمت کے بعد بھارتی وزیرِ دفاع نے پارلیمنٹ کوبتایا کہ” بعض وجوہات کی بناپر بھارتی فوجیںلاہور اورقصور سیکٹرسے پیچھے ہٹ گئی ہیں اوراِس وقت پاکستانی توپوںکے گولے فیروزپور کے قریب گررہے ہیں”۔
Pakistan Fighters
ادھر پاکستانی قوم کے جذبہ وجنوں کا یہ عالم کہ لاہوری ڈنڈے لے کر واہگہ باڈر پر پہنچ گئے جنہیں بڑی مشکل سے واپس جانے کے لیے راضی کیا گیا لیکن اِس کے باوجودبھی لاہوری ہر روز صبح فوجی بھائیوں کے لیے اتنانا شتہ لے کر پہنچ جاتے جوجری جوانوں کی ضرارت سے سو گُنازیادہ ہوتا۔جب بھارتی جنگی جہاز لاہور کی فضاؤں میں پہنچتے اور پاکستانی شاہین اپنے شکار پر جھپٹتے تو لاہوری خوفزدہ ہو کر مورچوں میں دبکنے کی بجائے چھتوں پر چڑھ کر ”بوکاٹا ،بوکاٹا” کی آوازیں لگاتے۔
جس پر ریڈیوپاکستان سے باربار درخواست کی جاتی کہ وہ چھتوںسے نیچے اتر جائیں تاکہ کسی جانی نقصان کااحتمال نہ رہے ۔اسی 17 روزہ جنگ میں سکوارڈن لیڈڑ ایم ایم عالم نے چشمِ زدن میں6 بھارتی طیاروں کو تباہ کرکے نیا عالمی ریکارڈ قائم کیااور پاک بحریہ نے بھارتی جہاز ”فریگیٹ ” اوردوارکا (سومناتھ )کا بحری وہوائی اڈہ تباہ کیاجبکہ پاک بحریہ کومعمولی سا بھی نقصان نہیںپہنچا۔
اِس سترہ روزہ جنگ میںپاکستان نے 1617 مربع میل علاقے پرقبضہ کیا۔ 130 لڑاکاطیارے ، 500 ٹینک، سینکڑوں توپیں اور ہزاروں فوجی گاڑیاں تباہ کیں، سیالکوٹ کے چونڈہ سیکٹرپر بھاررت نے 600 ٹینکوں سے حملہ کیا اوردنیانے دیکھا کہ جری جوانوںنے چونڈہ کو بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بنا دیا ۔یہ بھی تاریخ کہ اِس جنگ میں پاکستان کا بھارت سے کئی گنا کم نقصان ہوا ۔اِس کے باوجودبھی ”جشنِ عظیم فتح”؟۔