ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا کی دوسری بڑی فوج رکھنے کے دعویدار ملک بھارت کے پاس بیس سے زائد دنوں تک جنگ لڑنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔ رپورٹ کے مطابق تقریباً بارہ لاکھ کے قریب جوانوں اور افسروں والی ہندوستانی فوج کو گولہ بارود، ٹینکوں، فضائی دفاع، توپ خانے اور فوجیوں کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ اس سے پہلے مارچ 2012ء میں بھارتی آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ نے بھی وزیراعظم منموہن سنگھ کو لکھے گئے اپنے خفیہ خط میں یہ انکشاف کیا تھا کہ بھارتی فوج اندر سے کھوکھلی ہے اوراگر جنگ ہوئی تو ہمارے پاس اسلحہ دو دن میں ختم ہو جائے گا جبکہ حال ہی میں بھارتی فضائیہ بھی ایک پارلیمانی کمیٹی کے سامنے یہ اعتراف کر چکی ہے کہ پاکستان اور چین سے بیک وقت جنگ کرنا بھارت کیلئے ممکن نہیں ہے۔ یہ انکشافات کسی دشمن ملک یا اس کی خفیہ انٹیلی جنس رپورٹوں میں نہیں کیے گئے بلکہ خود بھارتی میڈیا۔
سیاست دانوں اور فوجی سربراہان ہی اپنی افواج کا بھانڈا پھوڑ رہے ہیں۔ فوج ایسے ادارے کو کہتے ہیں جس کو جنگ کے دوران وسیع پیمانے پر طاقت کے استعمال کی اجازت ہوتی ہے، اس میں ہتھیاروں کا استعمال، اپنے ملک کے دفاع کیلئے طاقت کا استعمال یا پھر کسی بھی عالمی سطح پر مجوزہ عوام کو لاحق خطرات کے خلاف اقدامات شامل ہیں۔ بھارت کی تینوں مسلح افواج میں اس وقت بری فوج میں گیارہ لاکھ حاضر سروس جبکہ نو لاکھ ساٹھ ہزار ریزرو فوجی شامل ہیں۔ اس کی فضائیہ کے پاس ایک لاکھ ستر ہزار حاضر سروس فوجی موجود ہیں جبکہ سولہ سو مختلف قسم کے طیارے ہیں۔ اسی طرح بھارتی بحریہ کے پاس ستاسٹھ ہزار سپاہی، ایک سو ستر جنگی جہاز اور دو سو پچاس ہوائی جہاز بتائے جا رہے ہیں۔ ایک عرصہ میں بھارت ایشیا میں اپنی سیاسی اور اقتصادی دھاک بٹھانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اسلحہ خریدنے کے حوالے سے دنیا بھر میں سرفہرست سمجھا جاتا ہے۔
India
مگر اس کی فوج کے اعلیٰ افسران کی جانب سے گولہ بارود، ٹینکوں، فضائی دفاع اور توپ خانے کی کمی کے اعترافات نے بھارتی جنگی طاقت کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ بھارت کے ساتھ چین اور پاکستان کی باقاعدہ جنگیں ہو چکی ہیں مگر اس کے اپنے دیگر پڑوسی ممالک میانمار، بھوٹان اور نیپال کے ساتھ بھی تعلقات کچھ اتنے اچھے نہیں ہیں جبکہ بنگلہ دیش کی ایک چوتھائی آبادی کو بھی بھارت اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان اروناچل پردیش، جموں و کشمیر اور جنوبی چین کے سمندر میں تیل تلاش کرنے سمیت کئی متنازعہ مسائل پر طویل عرصے سے تعلقات کشیدہ ہیں۔ چین اور بھارت کے درمیان 1962ء میں جنگ بھی ہو چکی ہے جو کہ سرحدی علاقے کی حدود کے تنازعے پر ہوئی تھی۔اسی طرح بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر اور کارگل سمیت مختلف ایشوز چل رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان اب تک چار جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ سنہ 2002ء میں بھارت اپنی فوج پاکستان کی سرحدوں پر لے آیا تھا تو کئی ہفتے سرحدوں پر کھڑی رہنے کے بعد فوج کو بے نیل و مراد واپس جانا پڑا۔
اب دنیا کی دوسری سب سے بڑی آرمی کی حالت اتنی خستہ ہے کہ جنگ ہو جائے تو اس کے پاس بیس دنوں تک لڑنے کا گولہ بارود بھی نہیں ہے۔ ہندوستانی فوج کے پاس گولہ بارود کی تیزی سے کمی ہو رہی ہے۔ٹینکس، ہوائی سکیورٹی یونٹس، توپ خانے میں بیٹری اور یہاں تک کہ پیدل فوجیوں کے پاس بھی سازوسامان کی کمی ہے۔ ایک طرف ہندوستانی فوج ا سلحے کی کمی کا رونا رو رہی ہے تو دوسری طرف ماضی میں اسی فوج کے افسران پر سرکاری اسلحہ فروخت کرنے کے الزامات لگ چکے ہیں۔ سوال یہ اُٹھتا ہے کہ جب بھارت چاروں طرف سے اپنے لیے خطرات محسوس کر رہا ہے تو کیا وہ صرف بیس دن کے اسلحے اور گولہ بارود کے ساتھ کسی بھی دشمن ملک سے جنگ کرنے کا متحمل ہو سکے گا۔