تحریر : عبدالرزاق اک عرصہ سے بھارت کے سر پر جنگی جنون سوار ہے ۔ یہ تو بھلا ہو ان محب وطن، وژنری اور غیرت مند قومی رہنماوں کا جنہوں نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی ۔ نامساعد حالات میں بھی اسے جاری رکھا اور گاہے گاہے اسے جلا بخشتے رہے اور بالآخر نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کر کے ملک کے دفاعی اعتبار سے ناقابل تسخیر ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر دی ۔پاکستان کا ایٹمی پروگرام جہاں پوری دنیا میں موجود پاکستان مخالف عناصر کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے وہیں بھارت بھی اس کے بارے سوچ کر عجب کرب میں مبتلا دکھائی دیتا ہے ۔یہ ایٹمی صلاحیت ہی ہے جس کی بدولت بھارت اپنے مذموم عزائم کی تکمیل سے قاصر ہے وگرنہ ہندو رہنمااپنے بیانات میں جو زہر اگل رہے ہیں اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ اگر پاکستان کے پاس ایٹمی صلاحیت نہ ہوتی تو موجودہ حالات میں بھارت پاکستان سے جنگ کرنے کا شوق پورا کر چکا ہوتااور اپنی نفرت کی آگ کو ٹھنڈاکرنے کے لیے کوئی بھی حد عبور کر چکا ہوتا۔
اگرچہ بد ترین حالات کے جنم لینے پر بھی بھارت کو پاکستان سے جنگ کرنے کی جرات نہیں ہو پائی لیکن بھارت کے ارادے تاحال خطر ناک ہی ہیں اور اس کے طور اطوار بھی مناسب نہیں ہیں ۔ بھارت کے مختلف ممالک سے دفاعی نوعیت کے معاہدے اور مہلک ترین ہتھیاروں کی مسلسل خرید سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ بھارت پاکستان سے کسی بھی وقت جنگ کا طبل بجا سکتا ہے ۔بھارت اپنے مذموم عزائم کی آبیاری میں دن رات محو ہے ۔ایک جانب وہ اپنی دفاعی صلاحیت میں اضافہ کے لیے کوشاں ہے تو دوسری جانب وہ منفی پراپیگنڈہ کی بدولت پاکستان کو عالمی سطح پر ہزیمت سے دوچار کرنا چاہتا ہے ۔
BRICS Summit
بھارتی ریاست گوا میں برکس ممالک کے اجلاس کے موقع پر بھارت اور روس کے درمیان ہونے والے 16 معاہدے بھارتی عزائم کے عکاس ہیں ۔ ان معاہدوں میں سے ایک معاہدے کی رو سے روس بھارت کو 5 ارب ڈالرز کا اینٹی میزائل ڈیفنس سسٹم دے گا جسے بھارت، چین اور پاکستان کی سرحدوں کے قریب نصب کرے گا علاوہ ازیں روس بھارت کے جنوب میں واقع اک جوہری پلانٹ کو مذید یونٹس بھی فراہم کرے گا۔ مذید براں روس بھارت کو بحری جنگی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کی ایک کھیپ بھی مہیا کرے گا ۔سوچنے کی بات ہے ایک ایسا ملک جس کی ستر فیصد آبادی پیٹ بھر کر کھانا کھانے سے قاصر ہے ۔ وہ مہلک ہتھیاروں کی خرید کے میدان میں سرپٹ دوڑ رہا ہے ۔ وہ ہر حال میں جنگی سازو سامان اکھٹا کرنا چاہتا ہے خواہ اس مقصد کے لیے اس کی عوام بھوکی ہی کیوں نہ مر جائے ۔ ایسا تب ہوتا ہے جب کسی ملک کا حکمران جارح مزاج ہو ۔ متعصب ہو اور دوسری قوموں کو نیچا دکھانے کا متمنی ہو ۔جیسا کہ سب جانتے ہیں بھارتی حکمران مودی مذکورہ قباحتوں پر پورا اترتا ہے لہٰذا اس سے کسی بھی منفی عمل کی توقع کی جا سکتی ہے ۔ وہ مسلسل کوششوں میں ہے کسی طرح اس کے جنگی عزائم کی تکمیل ہو سکے ۔ یاد رہے مودی جنگی سازو سامان کا ڈھیر جمع کرنے کے شوق کے ساتھ ساتھ نیو کلیر سپلائر گروپ کی رکنیت کے حصول کے لیے بھی خاصا سرگرم ہے ۔ حالیہ دنوں میں بھی مودی نے اس ضمن میں چین کی حمایت حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے لیکن تاحال تو اسے اس مقصد میں کامیانی نصیب نہیں ہوئی ۔
کچھ عرصہ قبل یہ امید سر اٹھا رہی تھی کہ بھارت اور امریکہ کی قربت کے سبب روس اور پاکستان کے تعلقات مستحکم ہوں گے جبکہ بھارت اور روس کے تعلقات میں سرد مہری دیکھنے کو ملے گی لیکن مودی کی عیاری اور مکاری کام دکھلا گئی اور اس نے روس کو مختلف قسم کے دفاعی اور توانائی کے معاہدوں پر رام کر ہی لیا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ آخر بھارت اپنی عوام کا پیٹ کاٹ کر مہلک ہتھیار کیوں اکٹھے کر رہا ہے۔ کیوں وہ ملکی غربت پر آنکھیں بند کر کے بارود کی بو سونگھنے کو ترجیح دے رہا ہے ۔ در اصل بھارت پاکستان کی بہادر اور دلیر فوج سے خوف زدہ ہے ۔ اسے معلوم ہے پاکستان کی فوج جذبہ، صلاحیت اور مہارت کے میدان میں بھارتی فوج سے بلند تر ہے ۔ دوسرا بھارت کو یہ بھی احساس ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام افادیت کے اعتبار سے بھی ان سے بہتر ہے اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیار بھی بھارت سے زیادہ کارگر ہیں ۔ اسی ڈر سے بھارت جنگی سازو سامان جمع کرنے میں مگن رہتا ہے ۔
Pakistan
جس طرح بھارت پاکستان سے جنگ کرنے کی جرات نہیں کر سکتا اس لیے کہ پاکستان کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے اسی طرح بھارت کی آئے روز کی گیدڑ بھبکیاں بھی دم توڑ سکتی ہیں اور اس کے سر سے جنگی جنون کا بھوت اتر سکتا ہے اگر پاکستان معاشی طور پر بھی مضبوط ہو جائے اور یہ معاشی خوش حالی تب آ سکتی ہے جب پاکستان کے ادارے فعال ہوں کرپشن سے پاک ہوں اور وہ اپنے فرائض منصبی پوری دیانت داری سے ادا کریں ۔ کرپٹ عناصر نے ملک کو کھوکھلا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ۔ اب یہ سیاست دانوں کا فرض ہے کہ وہ بھارت کی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوے اور ملک کے ناز ک معاشی حالات کے پیش نظر مل بیٹھ کر ایسی واضح پالیسی وضع کریں جس کی روشنی میں پاکستان کی معیشت دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرے اور بھارت پاکستان سے دشمنی ترک کر کے دوستی پر مجبور ہو جائے۔
معاشی خوشحالی ہی ایک ایسا راستہ ہے جس پر چل کر نہ صرف پاکستان اپنے وقار میں اضافہ کر سکتا ہے بلکہ بھارت کی سازشوں کا مقابلہ بھی بہتر طور پر کر سکتا ہے اور کئی سالوں پر محیط دہشت گردی کے بادل بھی چھٹ سکتے ہیں ۔ ملک سے بے روز گاری کا خاتمہ بھی ہو سکتا ہے اور ملک کے نوجوانوں میں بہتر مستقبل کی امید بھی روشن ہو سکتی ہے لیکن یہ سب تبھی ممکن ہے جب ہمارے قومی سیاسی رہنما حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوے اور ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر سوچیں ۔ ملک میں انصاف کی فراہمی کا مناسب اور معقول بندوبست کریں ۔ تعلیم کے میدان میں انقلاب برپا کریں ۔ عام و خواص کو ایک جیسے مواقع مہیا ہوں اور احتساب کا نظام مضبوط بنیادوں پر استوار ہو ۔ جمہوری اقدار اس کی اصل روح کے مطابق فروغ پذیر ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حکمرانوں کی اول ترجیح پاکستان ہو۔